معاشرے کی تماش بین نفسیات سے خوف آنے لگا ہے ۔ کوئی ہے جو اس سماج کا نفسیاتی مطالعہ کر سکے؟
نواز شریف صاحب کے خلاف مقدمہ قائم ہوا ، سزا ہو گئی ، سزا معطل بھی ہو گئی ، پیرول کی ضرورت پڑی ایک گھنٹے میں حکم بھی جاری ہو گیا اور رہائی بھی ہو گئی ، بیمار ہوئے تو بہترین ہسپتال لے جائے گئے وہاں سے تشفی نہ ہوئی تو جیل کے اندر خصوصی میڈیکل یونٹ قائم کر دیا گیا ۔ اس پر بھی وہ مطمئن نہ ہوئے تو سزا معطل کر کے سات ہفتوں کے لیے رہا کر ددیا گیا کہ جائیے صاحب مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کروا لیجیے ۔ حیرت ہے کہ سماج میں مظلومیت کا عنوان اب بھی وہی ہیں ۔ معاشرہ کسی اور قیدی ، کسی اور مریض ، کسی اور ملزم کے مسائل پر بات کرنے کے لیے اب بھی تیار نہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے اس ملک کی جیلوں میں ایک ہی قیدی تھا اور اتفاق سے وہ بیمار ہو گیا ۔ چنانچہ سماج اب جذبہ ہمدردی میں باؤلا ہوا پھرتا ہے ۔ ہمارا سماج اپنے اور اپنے جیسوں کے مسائل کو مسائل ہی نہیں سمجھتا ، مسائل صرف وہ ہیں جن سے حکمران خاندانوں کو واسطہ پڑے ۔ اب کوئی سنجیدہ مطالعہ ہو تو معلوم ہو کہ یہ نفسیاتی عارضہ کیوں پیدا ہوا؟
کیا آپ کو عاصمہ نواب یاد ہے؟ اس پر تہرے قتل کا الزام تھا ۔ یہ خاتون زندگی کے بیس سال جیل میں رہی اور 2018 میں معلوم ہوا یہ تو بے گناہ تھی ۔ اسے با عزت بری کر دیا گیا ۔ جی ہاں بیس سال جیل میں رہنے کے بعد ’’ با عزت‘‘ طور پر بری کر دیا گیا ۔ کیا اس ملک پر حکومت کرنے والوں سے کوئی سوال نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ آپ نے اس ملک کے نظام تعزیر میں بہتری کے لیے کیا کام کیا ؟ کیا کسی نے پارلیمان میں کھڑے ہو کر سوال کیا کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا کسی نے یہ ضرورت محسوس کی کہ پولیس کے تفتیش کے نظام کو از سر نو وضع کیا جائے؟
آپ میں سے کس کس کو رانی بی بی یاد ہے؟ شاید کسی کو بھی نہیں ۔ وہ کون سی رانی شریف یا رانی بھٹو زرداری تھی کہ یاد رکھی جاتی ۔ 2017 میں قتل کے مقدمے میںیہ خاتون جب باعزت بری ہوئی تب تک جیل کی کوٹھڑی میں اس کے 19 سال برباد ہو چکے تھے۔ رانی بی بی کا کہنا ہے کہ اگر اس کے پاس اپیل دائر کرنے کے لیے چار سو روپے ہوتے تو شاید اٹھارہ سال پہلے وہ رہا ہو چکی ہوتی ۔ نواز شریف کے واش روم کی صفائی پر شور قیامت برپا کرنے والے اہل دربار میں سے کوئی بتائے گا رانی بی بی کے دو عشروں کا حساب کون دے گا ؟ آفرین ہے اس سماج پر شریف اور بھٹو زرداری خاندان کا کوئی شخص قانون کے کٹہرے میں آئے تو سارا سماج قانون کا ماہر بن جاتا ہے اور شاہی خاندان کے مظلومین کے لیے رحم اور وسعت قلبی کی درخواستیں کرنا شروع کر دیتا ہے ۔غلام ذہنیت کے معاشرے میں عام آدمی کی کوئی اوقات نہیں ہوتی ۔ یہاں گداگران سخن صرف شاہی خاندان کے دکھوں پر مرثیے لکھتے ہیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے پاکستان کی 98جیلوں میں کتنے قیدی پڑے ہیں؟ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی وفاقی محتسب کی رپورٹ کے مطابق 78 ہزار 1سو60 قیدی، گنجائش سے دگنے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ان میں سے صرف 2500 قیدی سزا یافتہ ہیں ۔ اڑتالیس ہزار سات سو اسی (48780) قیدی وہ ہیں جنہیں ابھی سزا نہیں ملی، ان کا مقدمہ ابھی چل رہا ہے۔ پانچ ہزار کے قریب ایسے قیدی ہیں جو جیل میں پڑے ہیں لیکن ان کا مقدمہ ابھی شروع ہی نہیں ہوا ۔ پولیس مقررہ وقت میں چالان پیش ہی نہیں کرتی اور پولیس کو اس غفلت پر کوئی پوچھنے والا نہیں۔
جب بھی ان کی حالت زار کی جانب توجہ دلائی جائے وزرائے کرام کندھے اچکا کر جواب دیتے ہیں نئی جیلوں کے لیے فنڈز نہیں ہیں ۔ سوا ل یہ ہے کہ نئی جیلیں بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق قیدیوں کی کل تعداد کا 70 فیصد ان قیدیوں پر مشتمل ہے جن کے مقدمے کا ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔ میں حیرت سے سوچتا ہوں ایسے لوگوں کو قید میں رکھنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے؟ انتہائی سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے علاوہ باقیوں کے خلاف مقدمہ جیل میں رکھے بغیر بھی چلایا جا سکتا ہے۔ انہیں جیل میں رکھنے پر اصرار کیوں؟ ذرا تصور کیجیے ان قیدیوں سے ضروری ضمانت لے کر رہا کر دیا جائے تو جیلوں کے حالات کتنے بدل جائیں ۔ آدھے سے زیادہ قیدی گھر چلے جائیں تو جیل کے اخراجات کتنے کم ہو جائیں، کسی کے پاس وقت ہے کہ اس پر غور کر سکے؟
اس ایک فیصلے سے جیلوں ہی کا نہیں ، پورے نظام تعزیر کا حلیہ تبدیل ہو سکتا ہے۔ ضمانت کی کتنی ہی درخواستیں عدالتوں کو روز سننا پڑتی ہیں ۔ سزا سے پہلے ہی ملزم کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دینے سے جھوٹے مقدمات کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ لوگ جھوٹی ایف آئی آر درج کروا دیتے ہیں کہ اگلے بندے کو بھلے سزا ہو یا نہ ہو چند ہفتے یہ جیل میں تو گزار آئے گا ۔ بعد میں وہ بھلا باعزت بری ہو جائے اسے چند روز جیل بھیج کر یاروں کا رانجھا راضی ہو چکا ہوتاہے۔یہی رانجھا راضی کرتے کرتے حالت یہ ہے کہ جھوٹے سچے مقدمات کا ایک انبار لگ چکا۔
بیس لاکھ سے زائد مقدمات اس وقت فیصلوں کے منتظر ہیں ۔ ججوں کی تعداد صرف چار ہزار ہے۔ ایک ایک جج کو آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کے ایک دن میں تین سے چار سو مقدمات سننا پڑتے ہیں ۔ سارے جج مل بیٹھیں اور رات دن عدالت لگا لیں ، نہ کوئی چھٹی کریں نہ کھائیں نہ پئیں تب بھی برسوں لگ جائیں ۔ جیل اور ججوں کا نصف بوجھ اس ایک انتظامی فیصلے سے ختم ہو سکتا ہے، ایک روپیہ خرچ کیے بغیر۔
لیکن یہ معاشرہ شاہی خاندان کی مجاوری سے نکلے تو کچھ سوچے۔