مسئلہ کشمیر، بے ثمر بیانیے اورامکان کی نئی راہ

تقسیم ہند کے ساتھ ہی پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ جن بڑے بڑے مسائل کا واسطہ پڑا ان میں سب سے بڑا کشمیر کا مسئلہ ہے ، جس نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور بے شمار مسائل کو جنم دیا – باقی مسائل میں سے اثاثوں اور پانیوں کی تقسیم کے مسائل تھے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی طور حل ہوگئے- یہ مسائل بھی ہندوستان کو بیرونی اور اندرونی دباؤ کی وجہ سے حل کرنا پڑے، ان میں گاندھی جی کامرن بھر ت بھی شامل ہے – ان کے علاوہ رن کچھ کا مسئلہ تھا جو ایوارڈ کی صورت میں تو حل ہو گیا ، لیکن اس پر عمل درآمد ابھی باقی ہے. حیدر آباد، جونا گڑھ اور ماناور بھی تنازع کا سبب بنے لیکن اُصول تقسیم ہند کی روشنی میں یہ معقول بنیادوں پر مبنی نہیں تھے، جس وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوا میں تحلیل ہوگئے-

کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے یو این سلامتی کونسل نے منصفانہ طور ایک مربوط حل تجویز کیا، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر یہ ہر گرزتے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتا چلا گیا ، جس میں ہندوستان کی نسبت میں ہماری غلطیاں زیادہ ہیں، جن کی تفصیل میں جانا اس وقت ضروری ہے اور نہ ہی مناسب کیونکہ وہ ریورس نہیں ہو سکتے ، لیکن اب اور کئی معقول اور زیادہ اہم مواقع پیدا ہوگئے ہیں جن پر پرو ایکٹیو ہونے کی ضرورت ہے-

کشمیر کی گزشتہ 30 برس سے جو کیفیت ہے ، وہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اس سے پہلے شملہ سمجھوتہ کے تحت پاکستان عملی طور ذہنی دباؤ میں یہ قبول کر بیٹھا کہ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے ، اس لیے کبھی کسی با اختیار بین الاقوامی ادارے میں باضابطہ اور پرزور طور پر یہ مسئلہ نہیں اٹھایا گیا حالانکہ شملہ معاہدہ شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ “دو ملکوں کے درمیان تعلقات کا تعین یو این چارٹر کے مقاصد اور اصولون کے مطابق/ تابع ہو گا“ اس کے بعد بد قسمتی یا سفارت کاری کی نالائقی کی وجہ سے ہندوستان کے ساتھ ہر معاہدے ، مشترکہ اعلان اور مفاہمت کی دستاویز میں لکھا گیا کہ “ دونوں ملک اپنے سارے مسائل بشمول مسئلہ کشمیر بات چیت کے ذریعہ پر امن طریقے سے حل کریں گے”، انگریزی میں یوں لکھا اور کہا جاتا رہا:
All issues/ Disputes including the issue of Jammu & Kashmir
حالانکہ سوائے کشمیر کے پاکستان کا ہندوستان کے ساتھ اور مسئلہ ہی کیا تھا یا ہے؟ وہ کون سے مسائل ہیں جو کشمیر سے زیادہ اہم ہیں، جن کے ساتھ کشمیر کوبطور”چٹن” نتھی رکھا جائے گا ؟ باقی سب مسائل کشمیر سے منسلک اور کشمیر کے حل کے ساتھ ہی ان کا حل خود بخود ہو جائے گا، ان مسائل میں سیاچن ، کشمیر سے نکلنے والے تین دریا جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے ہیں، ان دریاؤں پر ہندوستان کے حق استعمال کی حدود، ان پر بننے والے ڈیم، وُولر بیراج اور اس سے منسلک دیگر معاملات –

اس وقت کشمیر اور کشمیریوں کی موجودہ صورت حال ، ہندوستان کی پاکستان کے ساتھ مخاصمت ہی نہیں جنگی کیفیت، ہندوستان کی کشمیر پر ہٹ دھرمی ، سلامتی کونسل ، شملہ معاہدہ ، من حیث القوم کشمیریوں کی ہندوستان کے خلاف بغاوت ، ریاست کا 1/3 حصہ پاکستان کے پاس ہونے کے باوجود ہندوستان کا پوری ریاست کو اپنا اٹوٹ انگ جتانا ہی نہیں ، بلکہ ان کی پارلیمنٹ کی 1994 کی متفقہ قرار داد ہے کہ ریاست کا جو حصہ پاکستان کے پاس ہے، اس سے واپس لیا جائے-

اس پس منظر میں وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو اب کشمیر پر اپنے قومی بیانیہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور زمینی حقائق کے مطابق تجدید کرنے کی ضرورت ہے جو یوں ہوں :

1-“ ہندوستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر ، اس سے متعلق دیگر ایشوز کے علاوہ باقی سارے مسائل پر امن طریقے سے حل کرنا

-To settle Kashmir and all issue related therewith and others , peacefully

یہ ایک ٹھوس ، جاندار، سفارتی ، بین الاقوامی اور زمینی حقائق کے مطابق قومی موقف اور بیانیہ ہے اور اسی سے پاکستان کی سنجیدگی کا دنیا کو احساس ہو گا اور خود کشمیریوں میں حوصلہ پیدا ہوگا-

2- مہاراجہ کشمیر کے ساتھ معاہدہ قائمہ (Stand still Agreement ) کی روح کے مطابق پوری ریاست جموں وکشمیر کو دعوت دی جائے کہ وہ پاکستان کے سات الحاق کریں ، ان کے ساتھ ان ہی خطوط اور شرائط پر الحاق کیا جائے گا ، جو مہاراجہ کشمیر اور حکومت پاکستان نے معاہدہ قائمہ ( Standstill Agreement )میں تسلیم کیے ہیں.

3- تیسرا اہم بیانیہ سلامتی کونسل کی قرار دادوں اور پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 کے مطابق مقبوضہ کشمیر کی مین اسٹریم Mainstream ریجنل جماعتوں , جن میں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریکٹ پارٹی سر فہرست ہیں اور جو ہندوستان سے اٹانومی اور سیلف رول مانگ کر رہی ہیں، کو دعوت دیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں، ان کے یہ مطالبے پاکستان پورے کرے گا کیونکہ آئین پاکستان کی دفعہ 257 واضح طور کہتی ہے کہ ”جب کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے تو ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کا تعین ان کی خواہشات کے مطابق کیا جا ئے گا”

اس وقت بھارتی زیر انتظام جموں‌وکشمیر کی غالب اکثریت نہ صرف ہندوستان کے خلاف ہے بلکہ پاکستان کے حق میں ہے، اٹانومی اور سیلف رول مانگنے والے بھی یہ نہ ملنے پر ہندوستان کے خلاف ہیں اور ریاستی اسمبلی کا الیکشن لڑنے والے اکثر امیدوار برملا پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہیں – ان جماعتوں کے سربراہ پلوامہ واقعہ پر اور پاکستان کی حدود میں فضائی در اندازی کی بھی مذمت کرتے رہے ہیں – ان کو یہ دعوت دے کر ان جماعتوں اور ہندوستان پر دباؤ بڑھ جائے گا ، جس سے حریت پسندوں اور پاکستان کے موقف کو اور تقویت ملے گی-

ایسا کرنا قانون آزادی ہند 1947, تقسیم ہند کے اصولوں ، زمینی اور بین الاقوامی حالات کے مطابق ہے اور کسی بین الاقوامی، اخلاقی یا باہمی معاہدے کی خلاف ورزی بھی نہیں ہے-

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کئی بار آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان ، بلوچ ، پختونوں اور مہاجروں کو اس پر اُکسا چکے ہیں بلکہ وہ اس پر کام بھی کرتے ہیں – پاکستان تو مہاراجہ وقت ، والئی ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ معاہدہ قائمہ standstill agreement کے تحت ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے ، سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے تحت دعویدار اور کشمیریوں کی پکار کے تحت ایسا کرنے کا قانونی، سفارتی، اخلاقی اور سیاسی طور پابند بھی ہے-

◦ پاکستان ریاست جموں و کشمیر پر جب تک ان خطوط پر تجدیدی اور سرگرم قسم کی پالیسی Innovative/ pro active policy نہیں بنائے گا، اس مسئلے کے حل میں کسی پیش رفت کا امکان نہیں ,، ایسے موقعے بار بار پیدا نہیں ہوتے -کشمیر کے لوگ یہ سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی راگ سن سن کے اکتا چکے ہیں- اس ایشو پر تجدیدی پالیسی کے تحت سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی طور عملی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ کشمیریوں کے حوصلے بلند ، تحریک میں تسلسل، بین الاقوامی رائےمتوجہ اور Focussed رہے-

پلوامہ کے واقعہ ، بالا کوٹ میں ناکام ہندوستانی حملہ، دو ہندوستانی جنگی جہاز گرانے ، پائیلٹ کو زندہ گرفتار کرنے کے بعد ہندوستان کے لوگوں اور فوج کے حوصلے پست اور کشمیریوں کے بلند ہوئے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ بھی دنیا میں توجہ کا مرکز بن گیا ہے ، اس کو تجدیدی عمل سے بحال رکھنے کی ضرورت ہے – اس کا ارباب اختیار ادراک کریں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے