آٹزم ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کا لوگوں سے بات کرنا متاثر ہوتا ہے.
ایلس رائے نامی برطانوی مصنفہ کا کہنا ہے کہ آٹزم کا شکار لڑکیاں اور خواتین بہت خاموش طبیعت، شرمیلی اور اپنے آپ میں گم رہنے والی ہوتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اکثر ان خاموش لڑکیوں کے مسائل لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
ایلس کو بتایا گیا کہ وہ آٹزم کا شکار تھیں لیکن وہ ان کم خواتین میں شامل ہیں جن کے مرض کی تشخیص ہوئی۔
آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے ایس ڈی ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کا لوگوں سے بات کرنا متاثر ہوتا ہے۔ انسان کی ذہنی استعداد کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے تاہم یہ مختلف افراد میں مختلف سطح پر ہوتا ہے کبھی یہ کم اور کبھی بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر 160 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے لیکن اگر ہم اس مرض کی تشخیص کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں مرد و خواتین میں تعداد کے اعتبار سے بہت فرق نظر آتا ہے۔
برطانیہ میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تقریباً سات لاکھ افراد آٹزم کا شکار ہیں، صنفی تناسب سے تقریباً ہر دس مردوں کے مقابلے ایک خاتون اس کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں کی جانے والی دیگر تحقیقات کے مطابق یہ تناسب 1:16 ہے۔
لیکن اگر تشخیص کے پیرائے میں صنف کے حوالے سے کوئی تعصب پایا جاتا ہو؟ آٹزم کے ادادرے برٹش نیشنل آٹسٹک سوسائٹی سینٹر کی ڈائریکٹر کیرول پووے کے مطابق اس مسئلے کی نشاندہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
برطانیہ کی نئی سائنسی تحقیق جس کا مقصد خواتین میں آٹزم کی علامات دیکھنا ہے، کے مطابق اصل میں یہ تناسب 3:1 کے قریب ہو سکتا ہے۔
اگر یہ درست ہے تو دنیا بھر میں ہزاروں لڑکیاں اس معذوری سے لاعلم اس کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔
[pullquote]اس بیماری کی تشخیص ضروری ہے[/pullquote]
ایلس کہتی ہیں ’ مجھ میں اس کی تشخیص اس وقت ہوئی جب میں 22 برس کی تھی۔‘
میں تب تک تمام عمر یہ سوچتی رہی کہ میں ’مختلف‘ کیوں ہوں، بہت خوف زدہ محسوس کرتت تھی کیونکہ میں مختلف تھی اور فٹ ہونے اور مختلف نہ لگنے کی کوشش کرتی رہی۔‘
لیکن تشخیص کے بعد ایلس کی زندگی بدل گئی: ’اب میرے پاس اس کے لیے ایک نام ہے اور ایک وجہ ہے کہ میں مختلف کیوں ہوں۔ مخلتف ہونا بہت زیادہ خوف ناک ہوتا ہے جن آپ کو یہ علم بھی نہ ہو کہ ایسا کیوں ہے- آپ سوچتے ہیں کہ آپ مکمل طور پر تنہا ہیں۔‘
’تشخیص کے بعد ذہنی سکون ملنے اور خود کو قبول کرنے سے اب میں اس قابل ہو رہی ہوں کہ اپنے طرز زندگی کو اپنی خاص ضروریات کے مطابق تبدیل کر سکوں۔‘
’میں اب اس قابل ہو چکی ہوں کہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بتا سکوں کہ مجھے مشکلات درپیش ہیں اور میری سوچ اور روئیہ تھوڑا سا مختلف ہو سکتا ہے۔‘
’اس سب سے میری دماغی صحت میں بڑے پیمانے پر بہتری آئی ہے اور زیادہ بامعنی اور لطف اندوز رشتوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘
ایلس کی طرح بہت سے لوگوں کو تشخیص کے ذریعے یہ جاننے میں مدد ملی کہ وہ ایسا کیوں محسوس کرتے ہیں اور دوستوں اور خاندان والوں اور دوستوں نے انھیں قبول کیا اور سمجھنے میں مدد ملی۔
آٹزم کی تشخیص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس میں مبتلا اکثر لوگ بے چینی، ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔
برطانیہ میں کی جانے والی ایک چھوٹی تحقیق کے مطابق بھوک کی کمی کی بیماری کا شکار ہو کر ہسپتال میں داخل ہونے والی 23 فیصد خواتین آٹزم کے تشخیصی معیار پر پورا اترتی ہیں۔
[pullquote]خواتین اور لڑکیوں میں اس کا پتہ کیوں نہیں لگایا جا سکتا؟[/pullquote]
لڑکیوں اور خواتین میں آٹزم کی علامات لڑکوں اور مردوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ شاید سب سے اہم بات یہ کہ وہ علامات باآسانی نظر انداز ہو سکتی ہیں، ایسا خاص طور پر تیزی سے کام کرتے ہوئے آٹزم کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
ایک اور مشکل جو محققین کو درپیش ہے وہ یہ کہ آٹزم کا شکار لڑکیوں کا رویہ اگر بہترین نہیں تو کم از کم قابل قبول ضرور ہوتا ہے- کیونکہ لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں کم گو، تنہائی کا شکار، دوسروں پر انحصار کرنے والی حتی کہ اداس رہتی ہیں۔
وہ آٹزم کا شکار لڑکوں کی طرح کئی شعبوں میں جذباتی اور غیر معمولی حد تک دلچسپی رکھ سکتی ہیں- لیکن وہ ٹیکنالوجی اور ریاضی کے شعبوں کی جانب جھکاؤ نہیں رکھتی ہیں۔
آٹزم کے مرض کا شکار ایک لڑکی کی والدہ کا کہنا ہے ’دکھ کے ساتھ لیکن مغربی معاشرے میں اس قسم کے رویے رکھنے والی لڑکیوں کو تشخیص یا علاج کے بجائے نظرانداز یا تنگ کیا جاتا ہے۔`
ایلس کہتی ہیں ’باہر سے دیکھنے والوں کے مطابق اس قسم کا فرد غیرجانبدار پس منظر رکھنے والا شخص ہوتا ہے۔ وہ چیلنج کرنے والی یا شرارتی نہیں ہے- اس لیے کوئی ان پر توجہ نہیں دیتا ہے۔`
[pullquote]تشخیص میں مشکلات[/pullquote]
ایلس جو کہ شرمیلی لیکن پر زور طریقے سے اپنا مؤقف پیش کر سکتی ہیں- ڈاکٹر کے پاس ان تمام نکات کی ایک فہرست لے کر گئیں جن کے ذریعے وہ بتا سکتی تھیں کہ وہ کیوں سوچتی ہیں کہ انھیں آٹزم ہے- جس کے بعد انھیں تشخیص کے لیے بھیجا گیا۔
لیکن اس صورت میں کیا ہو گا اگر آپ کم عمر ہیں؟ کیا ہو گا اگر آپ کو نہیں معلوم کہ اپنے آپ کو کیسے بیان کرنا ہے؟ یا کوئی اور آپ کی جگہ بولنے کی کوشش کر رہا ہو؟
میریلو کہتی ہیں ’ جب انھوں نے میری بیٹی میں اے ایس ڈی کی شناخت کی تو مجھے سکون ملا۔` لیکن ایک ماں کیسے سکون محسوس کر سکتی ہے جب اس کی دس سالہ بیٹی میں ایک ایسی بیماری کی تشخیص ہو جس کا کوئی علاج نہیں اور جو اس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہو گی۔‘
لیکن میریلو نے کئی سال جدوجہد کی تاکہ ڈاکٹر اور ٹیچرز یہ پتہ چلا سکیں کہ ان کی بیٹی صوفیہ کہ ساتھ کیا مسئلہ ہوا۔
وہ اس نقطے تک پہنچنے کو اس جنگ کی ایک سزا سمجھتی ہیں، جس کے ذریعے وہ سمجھ سکتیں کہ ان کی چھوٹی سی بیٹی کی انتہائی اداسی کی وجہ کیا ہے۔‘
اے ڈی ایس بچپن میں شروع ہوتا ہے اور لڑکپن اور جوانی تک جاری رہتا ہے تاہم ای ایس ڈی کا شکار کچھ افراد آزادانہ طور پر رہ سکتے ہیں جبکہ کچھ شدید قسم کی معذوری کا شکار ہوتے ہیں اور عمر بھر انھیں کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر والدین اور خیال رکھنے والوں کے پاس کے درست معلومات ہوں تو وہ ٹریننگ کے ذریعے خاص صلاحیتیں حاصل کر سکتے ہیں جیسا کہ بات چیت کرنے اور سماجی رویے کو سمجھنے میں مدد حاصل کرنا- جس سے اے ایس ڈی کا شکار افراد اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے طرز زندگی میں بہتری آ سکتی ہے۔
[pullquote]’انتہائی حساس، جذباتی` ماں اور اس کا ’بگڑا‘ ہوا بچہ[/pullquote]
میریلو کہتی ہیں ’میری بیٹی صوفیہ ایک مخصوص انداز میں بہت شرمیلی ہے۔ وہ سنجیدہ ہے اور بہت تخلیقی ذہین کی مالک ہے۔ اس کی ٹیچر اسے ایسے ہی بیان کرتی ہیں۔‘
’میں بہت پہلے سے اس بارے میں جانتی تھی۔ اسے اپنے ہم عمر لوگوں سے دوستی کرنے میں مشکل درپیش آتی ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں بہت چھوٹی تھی۔ میرا خیال تھا کہ اس کا تعلق اس کی قبل از وقت پیدائش سے ہے۔‘
لیکن میریلو نہیں چاہتی تھی کہ وہ ’کوئی جلدی کریں۔‘ میں اس وقت تک پریشان نہیں ہوئی کہ وہ مختلف ہے، جب تک میں نے سکول میں اس کی مشکلات کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ سوتے وقت کہتی تھی ’ممی میرے کوئی دوست نہیں ہیں، کوئی مجھے پسند نہیں کرتا ہے۔‘
میریلو کہتی ہیں کہ ’میں اسے بتاتی رہی کہ ہم سب کے اچھے اور برے دن آتے ہیں لیکن پھر مجھے فکر ہونے لگی اور میں اکثر ٹیچرز سے پوچھتی تھی کہ کیا انھوں نے سکول میں کچھ ہوتے دیکھا۔ ہر بات ایک ہی جواب آتا: کچھ بھی نہیں ہو رہا۔‘
لیکن صورتحال بدتر ہوتی گئی اور میریلو کو ٹیچرز کے پاس جانا پڑا۔
’میں بہت پریشان تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا صوفیہ کو تنگ کیا جا رہا ہے۔ میں جانتی تھی کہ کچھ غلط ہے۔ مجھے کہا گیا کہ میں بہت زیادہ ’جذباتی‘ اور ’انتہائی حساس‘ ہوں۔ حتیٰ کے مجھ پر اسے ’بگاڑنے‘ کا الزام بھی لگایا گیا۔‘
میریلو اور ان کا خاندان یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور وہ سب اس تکلیف سے دوچار تھے۔ ’ ایک دفعہ میں نے ایک دوست کو بتایا کہ صوفیہ کو سکول لے جاتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں اسے قربان گاہ لے کر جا رہی ہوں۔‘
’کچھ ہی مہینوں میں، میں نے اپنی بیٹی کو ناراض اور مایوس ہوتے دیکھا- گھر سے باہر ٹھیک ہونے کا بہانہ کرنا لیکن گھر آ کر مجھے سب کچھ بتا دینا۔‘
میریلو کہتی ہیں ’ میرے خیال میں گھر میں صورتحال کو میں نے خراب کیا۔ میں نہیں سمجھ سکی کہ سب کچھ اتنا مشکل کیوں ہو رہا ہے۔ میں نے اس کے رونے پر اسے چپ رہنے کو کہا جب وہ ضد کر رہی تھی کہ وہ پاجامہ پہننے سے پہلے اپنے دانت صاف کرے گی۔ مجھے نہیں نظر آیا کہ اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔‘
میریلو کہتی ہیں ’میں جانتی تھی کہ صوفیہ تکلیف میں ہے اور میں مدد نہیں کر پا رہی تھی۔ میں نے کوشش کی اور میں ناکام رہی۔ بدقسمتی سے میرے جذبات مجھ پر حاوی آ گئے۔ شاید اگر میں نے جذبات کے بجائے حقائق کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہوتی کہ کیا ہو رہا ہے تو جلد تشخیص ہو سکتی تھی۔‘
[pullquote]صنفی فرق کو ختم کیا جائے اور آگے بڑھا جائے[/pullquote]
ایلس کہتی ہیں کہ ابھی تک، ’کم گو لوگ جو اپنی زندگی خاموشی سے گزار لیتے ہیں، جو محنتی اور کافی مہذب ہوتے ہیں، وہ تعلیم اور صحت کے شعبے سے وابستہ پیشہ ورانہ افراد کی توجہ حاصل نہیں کر پاتے۔‘
لیکن سائنس کی دنیا میں تبدلی آرہی ہے اور صنفی تفریق کو آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن کم کیا جا رہا ہے۔
ایلس کہتی ہیں ’اگر آپ اس بارے میں کوئی مشورہ چاہتے ہیں کہ اے ایس ڈی کے متاثرین کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے تو آٹزم کے بارے میں پڑھیں اور سیکھیں۔ حتیٰ کہ آپ میں اس کی کبھی بھی تشخیص نہ ہوں، لیکن اس کے بارے میں بہت کچھ جان کر آپ دوسرے لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں- اس کا مطلب ہے کہ آپ ان تمام حکمت عملی سے آگاہ ہیں جو آٹزم کا شکار افراد استعمال کرتے ہیں۔ یہ واقعی زندگی میں تبدیلی لائے گا۔‘
’اگر آپ آٹزم کا شکار فرد ہیں جو پوری زندگی فٹ ہونے کی کوشش کرتے رہے ہیں، تو یہ یقین کرنا شروع کر دیں کہ فٹ نہ ہونا بھی ٹھیک ہے۔‘
آٹزم کے شکار افراد اور ان کے ارد گرد موجود لوگوں کی مدد کرنے والی سماجی مہم کرلی ہیئر پراجیکٹ کو چلانے والی ایلس کہتی ہیں ’درحقیقت آپ کے پاس دنیا کو دکھانے کے لئے بہت سی منفرد مہارت اور طاقت موجود ہے۔ اگر آپ ایسا کر سکتے ہیں تو ویسا کریں جیسا میں نے کیا اور اپنے مختلف پن کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیں۔‘
[pullquote]لیکن کیا ہو گا اگر آپ والدین یا خیال رکھنے والے ہیں؟[/pullquote]
پھر اپنے پچے کی ’مختلف‘ دلچسپیوں کو نوٹ کریں اور وہ جس طرح دنیا کو دیکھتے ہیں اس کی تعریف کریں اور اپنے دماغ میں یہ بات بٹھا لیں کہ جو آپ کے لیے آسان ہے وہ ان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔
صوفیہ خوش ہیں کہ آخر کار ان میں تشخیص ہو چکی ہے: ’میں سکون میں ہوں لیکن کچھ پریشان بھی ہوں۔ میں نہیں چاہتی کہ کلاس میں میرے ساتھیوں کو پتہ چلے کیونکہ میں مختلف لگنا نہیں چاہتی۔ اور میں نہیں چاہتی کہ کوئی میرا مذاق اڑائے۔
لیکن کیا وہ تشخیص نہ ہونے کو ترجیح دیتی؟ ’ نہیں نہیں میں جاننا چاہتی ہوں۔ اس سے میرے دل پر بوجھ کم ہوگا۔
نوٹ: میریلو اور صوفیہ کے ناموں کو رازداری کی بنا پر تبدیل کیا گیا۔