گزشتہ ماہ آٹھ مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے متعدد شہروں میں عورت مارچ کے عنوان سے ریلیاں نکالی گئیں۔ ان اجتماعات میں ہماری وہ مائیں اور بہنیں بھی شریک تھیں، جنہوں نے چالیس برس قبل ضیاءالحق کے استبدادی اور امتیازی قوانین کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اب اس نسل کے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے۔ پاکستان کی ان بہادر بہنوں کے بالوں کی سفیدی ہمارے اجتماعی ضمیر میں روشنی کا نشان ہے۔ ہماری تاریخ کی تاریکی میں یہ چاندنی پہلی بار اپریل 1948میں چھٹکی تھی، جب ہماری مائوں نے لاہور میں ایک کانفرنس منعقد کر کے عورتوں کے حقوق کا مطالبہ کیا تھا۔ ستر برس بعد اسی جدوجہد کے تسلسل میں گزشتہ ماہ ہماری بیٹیوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکلی۔ اس نوجوان نسل کی جدید تعلیم، مہارتوں اور فکری اپج کی ہمارے فلک کو بھی خبر نہیں۔ عورت مارچ میں شریک ان نوجوان خواتین نے کچھ پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر درج نعروں سے تقدیس مشرق کے ثناخواں خاصے جزبز ہوئے۔ عمومی ردِعمل یہ تھا کہ عورتوں کی تعلیم، صحت، روزگار اور دوسرے بنیادی معاملات کو چھوڑ کر خلوت کے ان پہلوؤں کی نشاندہی کیوں کی گئی، جن کا اظہار ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے۔
فروری 1922میں محی الدین ابوالکلام آزاد نے انگریز کی عدالت میں ’قولِ فیصل‘ کا آغاز اس جملے سے کیا تھا ’تاریخِ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں‘۔ مولانا آزاد تاریخ کے ایک اہم موڑ پر انسانی آزادی کا مقدمہ لڑ رہے تھے۔ وقت آ گیا ہے کہ مولانا کی بیان کردہ کائناتی سچائی کا اگلا ورق پڑھا جائے۔ میدان جنگ اور عدالتوں میں ہونے والی ناانصافیاں غیرمتواتر انحراف کی صورت میں رونما ہوئی ہیں۔ انسانی تاریخ کی بدترین اور مسلسل ناانصافیاں خوابگاہ میں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ عورت مارچ میں شریک بیٹیوں نے ان اوجھل بدصورتیوں کی نشاندہی کی تو ان کا تمسخر اڑایا گیا۔ انہیں معاشرتی حقیقتوں سے نابلد، مغرب زدہ اور بھٹکی ہوئی اقلیت قرار دیا گیا۔ ابھی اس ہنگامے کی گرد بیٹھی نہیں تھی کہ لاہورمیں ایک چالیس سالہ خاتون اسما عزیز پر خاوند کے بہیمانہ تشدد کی خبر آ گئی۔ بتایا گیا ہے کہ شوہر موصوف اپنے دوستوں کی دل لگی کے لئے تین جوان بچوں کی ماں سے رقص کا تقاضا کر رہے تھے۔ خاتون کے انکار پر اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اسما عزیز کے ہاتھوں، چہرے، آنکھوں، سر اور گردن پر سولہ زخموں کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس کے بال مونڈ دیے گئے جو ہماری ثقافت میں شخصی توہین کا آخری درجہ سمجھا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ذرائع ابلاغ میں اس بھیانک جرم کو حرم کی رنگینی بنا کر پیش کیا گیا۔ مضروب خاتون کے بدن پر زخم تو شاید مندمل ہو جائیں، اس کی عزتِ نفس پر لگنے والے کچوکوں کا اندمال نہیں ہو سکے گا۔ یہ واقعہ ہماری معاشرت کے تاریک گوشوں کی محض ایک جھلک بیان کرتا ہے۔ عورت مارچ پر سوال اٹھانے والوں کو شاید جواب مل گیا ہو کہ عورت مارچ اسما عزیز اور اس جیسی ان گنت مظلوم عورتوں کے لئے نکالا گیا تھا، جو چار دیواری کی ناقابلِ رسائی قید میں ناقابلِ بیان ناانصافیوں کا شکار ہیں۔
مولوی ممتاز لاہور کے ابتدائی تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنی تصنیف’’حقوق نسواں‘‘ کا مسودہ سر سید احمد خان کی خدمت میں پیش کیا تو روایت کے مطابق سید صاحب نے مشتعل ہو کر کہا،’ممتاز علی، ہماری حکومت چلی گئی۔ کیا تم چاہتے ہو کہ ہماری عورتیں بھی ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں‘۔ خوش قسمتی سے مولوی ممتاز علی نے اپنے محترم استاد کی رائے تسلیم نہیں کی۔ حقوق نسواں 1902میں شائع ہوئی۔ ممتاز علی نے دارالاشاعت پنجاب قائم کیا۔ مولوی صاحب کی اہلیہ محمدی بیگم کی ادارت میں تہذیبِ نسواں نامی رسالہ جاری کیا گیا۔ ممتاز علی، محمد علی ردولوی اور علی گڑھ کے شیخ عبداللہ جیسے رہنماؤں کے جلائے ہوئے چراغوں کی روشنی میں ہم نے ایک صدی کی مسافت طے کی۔ راجہ رام موہن رائے نے 1829میں ستی کے خلاف قانون منظور کروایا تھا۔ ٹھیک سو برس بعد قائداعظم محمد علی جناح نے 1929میں امتناع ازدواج بچگان ایکٹ منظور کروایا۔ تب بھی قدامت پسندی کے کچھ پتلوں نے اس قانون پر احتجاج کرتے ہوئے ہزاروں کم سن بچیوں کے نکاح پڑھوا دئیے تھے۔ اب یہ یاد دلانے سے کیا حاصل کہ کس مذہبی پیشوا نے 1948میں قائداعظم پر اینگلو محمڈن کی پھبتی کسی تھی۔ آج قوم کی سیاسی پسماندگی، معاشی بدحالی اور علمی بے مائیگی کی تحقیق کرنا ہو تو علامہ اقبال کی تصنیف ضربِ کلیم کا انتساب پڑھ لیجئے، ’’اعلان جنگ دور حاضر کے خلاف‘‘۔ صاحب، اگر آپ اپنے عہد کے علمی، اخلاقی اور فکری حقائق سے جنگ کریں گے تو ہمیں اس عہد کے امکانات سے اپنا حصہ کیسے مل سکے گا؟ ہمارے حصے میں تو وہ نسل ہی آئے گی، جسے منافقت کے لحاف کا حیاتیاتی سانحہ کہنا چاہئے۔ کیسا المیہ ہے کہ پاکیزہ اقدار کا پرچار کرنے والے غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ دو دنیاؤں میں بٹی ہوئی اس نسل کے اعصابی تشنج کا یہ عالم ہے کہ دلیل نہیں دیتے، استاد کو قتل کر دیتے ہیں۔ اگر مزاج عالی پر گراں نہ گزرے تو ملکی دستور کا آرٹیکل 25پڑھ لیجئے۔ آئین کی یہ شق شہریوں کو صنفی مساوات کی ضمانت دیتی ہے۔ عورتوں کے حقوق اور آزادیوں کی حدود طے کرنے پر مردوں کا اجارہ نہیں۔
پاسٹرناک کے ناول ڈاکٹر ژواگو کے ایک منظر میں ڈاکٹر مرتے ہوئے مریض کے سرہانے کھڑا ہے۔ سرکاری کارندے بار بار پوچھتے ہیں کہ اسے ٹائیفس تو نہیں۔ وجہ یہ کہ انقلابی حکومت نے ماسکو میں ٹائیفس کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے اور اہل کار اس اعلان کی تکذیب سے خائف ہیں۔ جھنجھلایا ہوا ڈاکٹر طنز کرتا ہے کہ یہ شخص ٹائیفس سے نہیں مرا بلکہ اس کی موت ایک اور بیماری سے ہوئی ہے جو ماسکو میں ختم کی جا چکی ہے۔ یہ شخص بھوک کے ہاتھوں مرا ہے۔ عورت مارچ کے مخالف ہمیں بتا رہے تھے کہ پاکستان میں عورتوں کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے نیز یہ کہ اس ملک میں عصمت فروشی کا کوئی وجود نہیں۔ گھروں کی چار دیواری میں الفت اور احترام کی ہوائیں چل رہی ہیں۔ کم عمر اور ان پڑھ ہندو بچیاں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر جوق در جوق بھرچونڈی شریف کا رخ کر رہی ہیں۔ لاہور کی اسما عزیز نے اپنے اوپر ہونے ظلم کی کہانی بیان کر کے ہمیں بتایا ہے کہ آٹھ مارچ کا عورت مارچ اسما عزیز کے لئے نکالا گیا تھا۔ اسما عزیز پر شوہر نے تشدد نہیں کیا کیونکہ ہمارے ملک میں گھریلو تشدد نہیں پایا جاتا۔ وہ ایک اور ناانصافی کا شکار ہوئی ہے۔ اسما عزیز کے جسم پر مردانہ بالادستی کے نشان پائے گئے ہیں۔