پاکستان کی داخلی سیاست میں میاں نواز شریف کو چھے ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کیا گیا ہے اور یہ عمل نہایت ہی اہم ہے۔ایک طویل عرصے سے حکومت پاکستان سمیت انتظامیہ اس دباؤ کا شکار تھی کہ جناب نواز شریف کا اعلاج صیحح انداز میں نہیں کیا جا رہا۔ سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو بہت سے مرض لاحق ہیں اور انجیوگرافی کروانا بھی ضروری ہے۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات احتساب بیورو آسلام آباد میں ہو رہی ہیں۔ آپ سمیت بلاول بھٹو پر الزام ہے کہ دونوں کرپشن میں ملوث ہیں۔ جبکہ نیب کی تحقیقات کے حوالے سے نہ صرف سیاسی شخصیات بلکہ غیر سیاسی شخصیات بھی سوالات اٹھا چکی ہیں کہ نیب کو ‘سیاسی انجیرنگ’ کا ادارہ کہا جا رہا ہے۔ کچھ روز قبل نیب اس وقت شدید تنقید کا نشانہ بنا جب برگیڈیئر (ر) اسد منیر نے نیب کے ناروا سلوک کے نتیجے میں خودکشی کر لی اور یہ بات ایک خط کے ذریعے عام بھی کروا دی۔
نیب کے حوالے سے تحفظات میں بات بھی شامل ہے کہ اس ادارے کو بظاہر نظر نہ آنے والا عنصر جس کو روایتی انداز میں ‘اسٹیبلشمنٹ’ کا نام دیا جاتا ہے’ وہ اثر انداز ہوتا ہے۔یہ وقت کا آنا جانا ہی ہے کہ ایک وقت میں جناب نواز شریف اور آصف علی زرداری اسٹیبلشمنٹ کو اچھا کہتے تھے اور جب اپنی غلطیوں کی خبریں اور احتساب کا عمل سامنے آنا شروع ہوا تو دوستی دشمنی میں تبدیل ہو گئ۔ میاں نواز شریف کا اسی نیب کے ذریعے احتساب کیا گیا اس وقت آصف علی زرداری نے یہ بول کر بات ختم کر دی کہ میاں صاحب کو ہم ہاتھ ملانے کا کہتے رہے لیکن آپ نے نہیں سنا تو ہم کیوں آپ کا ساتھ دیں۔آصف علی زرداری نے یہ بھی کہا تھا کہ میاں صاحب ملک کے حقیقی دشمن کو چیلنج کرنے کے بجائے پاکستان پیپلزپارٹی اور دیگر سیاسی مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ میاں صاحب کی سزا میں 6 ہفتوں کے لیے بظاہر کی گئ نرمی کیا اس نظام میں خدا ترسی کی بہترین مثال ہے؟ تاریخ کا مطالعہ کر کے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے تو اس پر بات ہونی چاہئیے کہ فیصلہ قانونی ہی رہے گا یا سیاسی حوالے سے بھی کچھ لوگوں کے لیے اس میں فوائد ہیں۔
سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری پر مشکل وقت آ پہنچا ہے۔ میاں نواز شریف کی رہائ ہو سکتا ہے چھے ہفتوں سے کچھ زیادہ بھی ہو جائے’ سیاسی حوالے سے جناب آصف علی زرداری کے لیے حکمت سے عاری ہے۔ اگر اسی خیال کو سامنے رکھ لیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے نیب کسی پریشر میں ہے تو کیا دو محاذوں پر ایک ساتھ جنگ ممکن ہو سکے گی؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ میاں نواز شریف اشارے ہی کے ذریعے پیغام دے دیں کہ آصف علی زرداری صاحب آپ اکیلے ہی اپنے کیے کی سزا پر اتفاق کریں ہم آپ کے ساتھ نہیں۔
یہ اہم ہے کہ پاکستان کی موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کو میاں نواز شریف کے چھے ہفتوں کی رہائ کا کا کیا سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو اس عمل سے تحریک انصاف کو فائدہ ہوا ہے کہ ذہنی پریشانی کچھ کم ہوئی ہے۔
آ ئے روز کسی نہ کسی کے ذریعے یہ پیغام پہنچتا تھا کہ میاں نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ حکومت نیب کے ذریعے سیاسی انتقام لے رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ تو میاں نواز شریف کو نشانہ عبرت بنانا چاہتی ہے۔ کارکنان کو سوشل میڈیا کے استعمال سے یہ پیغامات بھی دیے جا رہے تھے کہ وہ جارحانہ پالیسی اختیار کریں۔ حکومت اس عارضی ریلیف کے بعد اب آصف علی زرداری صاحب کی طرف سے ذہنی دباؤ کا سامنا کیسے کرتی ہے’ یہ اس کی مہارت کا امتحان ہو گا۔ دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ ایک رائے قائم ہو جائے کہ احتساب سب کا ہو گا۔ میاں نواز شریف کا ہوا ہے اب جناب آصف علی زرداری کے خلاف کیسز زیر سماعت ہیں۔ حکومت اس خیال کو حقیقت کے روپ میں ڈالنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ نیب میں موجود تحفظات کی کوئ حقیقت نہیں یہ سب خود کو قانون کے سامنے نہ پیش کرنے کی ایک چال ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کا اہم کردار رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نئ جماعتوں کے سامنے آنے سے جماعتوں کی قیادت اور کارکنان کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ پاکستان کی بہتری کے لیے ضروری نہیں کہ کسی ایک جماعت کو اچھی کارکردگی پر تمغہ امتیاز ملے بلکہ جو بہتر ہے اس کا انتخاب کیا جائے۔ نیب کی کاردگی پر موجود تحفظات اور سیاستدانوں کی کرپشن’ دونوں سے پاکستان کو نقصان ہو رہا ہے۔ موجودہ دور میں پاکستان کو سیاسی و معاشی حوالے سے بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے’ اس وقت پاکستان کی منفی تصویر کا سامنے آنا درحقیقت بیرونی دنیا سے آنے والوں کے لیے مثبت پیغام نہیں ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ سیاستدان تو قدرتی وسائل کا استعمال کر کے انسانیت کو ترقی دیتا ہے۔ پاکستان میں انفرادی حیثیت کو چار چاند لگانے کا فلسفہ معاشرے کے لیے زہر سے کم نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ میاں نواز شریف پر الزامات یہ ہیں کہ اپنی ذات اور خاندان کو فائدہ پہنچانے کے لیے کرپشن کی۔ اسی طرح جناب آصف علی زرداری کے حوالے سے بھی یہ بات اہم ہے کہ ذاتی حیثیت میں سب کچھ اپنا سمجھ بیٹھے’ جس پر عوام کا حق تھا۔
ضرور اس امر کی ہے کہ احتساب ہر اس شخصیت کا ہو جس نے کرپشن کی ہے’ جو پاکستان کے عوام کی دولت کو پاکستان میں استعمال کرنے کے بجائے باہر لے گیا ہے۔ لیکن کوئ بھی عمل انتقام کے لیے نہ ہو اگر ایسا ہو گا تو اداروں کا کردار مشکوک ہو گا۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں ایک دوسرے کو فتح کرنے کی جنگ سے پاکستان کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے’ گھر کے اندر کے معملات کو اتفاق سے حل کر لینا ہی پاکستان کے مستحکم وجود کے لیے نہایت ضروری ہے۔ حالات کے تناظر میں میاں نواز شریف اور مسلم۔لیگ(ن) کے ذہنی سکون کا وقت شروع ہو چکا ہے جبکہ جناب آصف علی زرداری اور ان کے حامیوں کے ذہنی سکون کا وقت ختم ہو چکا ہے