’’بوڈا پسٹ‘‘ دریائے ڈینیوب کا موتی

بوڈا پسٹ، ملک ہنگری کا سب سے بڑا شہر اور اس کا دارالحکومت ہے۔ یہ دریائے ڈینیوب کے دونوں کناروں پر ہنگری کے شمالی حصہ میں واقع ہے۔ اس شہر میں ہنگری کی 20فی صد آبادی (تقریباً پونے اٹھارہ لاکھ) مقیم ہے۔ بوڈا پسٹ اس ملک کی ثقافت اور صنعت کا اہم مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یورپ کے سب سے خوبصورت شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ یہ صنعتی، ثقافتی اور ذرائع نقل و حمل کا مرکز ہے۔ یہ شہر مشینری، لوہے ، فولاد، کیمیائی اشیا اور کپڑے کی تیاری میں شہرت رکھتا ہے۔ یہ مالیات، آرٹ اور فیشن کا بھی مرکز ہے۔ ہنگری کی اکیڈمی آف سائنس کے علاوہ کئی تعلیمی اور سائنسی ادارے یہاں واقع ہیں۔ اس کا شمار یورپ کے گنجان آباد ترین شہروں میں ہوتاہے۔ ہنگری کی کل داخلی پیداوار کا نصف اسی شہر سے حاصل ہوتا ہے۔

بوڈاپسٹ ایک قدیم شہر ہے، یہاں پہلے کلٹ قوم آباد تھی جبکہ ہنگری قوم یہاں نویں صدی میں آباد ہوئی۔ رومن سلطنت کے عہد میں موجود بوڈا اور پسٹ دو علاقوں پر مشتمل الگ الگ شہر تھے۔ 1241ء میں دونوں کوہی منگول حملہ آوروں نے تباہ کر دیا تھا۔ 1361ء میں یہ سلطنت ہنگری کا صدر مقام بنی اور تہذیبی طور پر زبردست ترقی کی۔ ترکوں نے 1526ء میں پسٹ پر اور 1541ء میں بوڈا پر قبضہ کر لیا۔ 1686ء میں ہیپس برگ خاندان نے اسے آزاد کروا لیا اور پھر یہ مختلف حکمران خاندانوں کے تحت رہا۔ پہلی عالم گیر جنگ میں آسٹریا کو شکست ہو ئی تو دونوں حصوں کو ملا کر بوڈاپسٹ مملکت ہنگری کا صدر مقام بن گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہنگری میں کمیونسٹ حاکم بن گئے اور بوڈاپسٹ ایک بار پھر صدر مقام بن گیا۔ 1873ء میں تین قصبوں بوڈا، پسٹ اور اوبڈا کو اکٹھا کردیا گیا اور اسے نئے خود مختار ہنگری کا دارالحکومت بنا دیا گیا۔ ہنگری کے رہنے والے اس شہر کے لئے پسٹ کو ایک عرفی نام کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

بوڈا پسٹ کی آب و ہوا معتدل ہے، موسمِ بہار عام طور پر اپریل کے مہینے کے شروع میں آتا ہے۔ اس کے بعد گرمیوں کا موسم شروع ہوجاتا ہے، جو گرم اور مرطوب ہوتا ہے۔ جولائی کے مہینے کا اوسط درجہ حرارت22سینٹی گریڈ (F 72°) ہوتا ہے اور سردیوں کے موسم میں یہاں پر زیادہ تر بادل چھائے رہتے ہیں۔ یہاں فروری کے مہینے کا اوسط درجہ حرارت منفی2ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ان دنوں شدید برف باری ہوتی ہے۔ بوڈا پسٹ کا رقبہ525مربع کلو میٹر (یا پھر203مربع میل) ہے۔

بوڈا پسٹ کا علاقہ ’بوڈا‘، ڈینیوب دریا کے مغربی حصہ پر واقع ہے، جو شہر کا ایک تہائی حصہ ہے۔ پسٹ کا علاقہ ڈینیوب دریا کے مشرقی کنارے پر واقع ہے اور یہ علاقہ شہر کے دو تہائی حصہ کو گھیرے ہوئے ہے۔

اس دارالسلطنت نے 2,250مربع کلو میٹر کا رقبہ گھیرا ہوا ہے اور اس میں آٹھ دوسرے شہر اور ستر دیہات موجود ہیں، جن میں سے چند کو کچھ عرصہ پہلے ہی شہرت حاصل ہوئی ہے کیونکہ بہت سے لوگ بوڈا پسٹ سے با ہر منتقل ہور ہے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم Vac اور Godollo شامل ہیں جو کہ ڈینیوب دریا کے مشرقی کنارے پر واقع ہیں۔ Budaors اور Budakeszi جو کہ ڈینیوب دریا کے مغربی کنارے پر واقع ہیں۔

بوڈا میں انتہائی شاندار اور یادگار انوکھی نشانیاں کیسل ہِل پر موجود ہیں جبکہ بہت سی یادگار گیلرٹ ہل پر واقع ہیں جو کہ بوڈا کے جنوب میں ہے۔ رائل پیلس، کیسل ہل کی چوٹی پر واقع ہے اور دوسری جنگ عظیم (1945-1939) کے بعد اُسے ایک میوزیم کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت زیادہ قابلِ تعریف Gothic Matthias Church جو کہ کیسٹل ہِل پر واقع ہے، جسے انیسویں صدی کے اختتام پر پندرھویں صدی کے تہذیب و تمدن کے مطابق تعمیر کیا گیا۔

1851ء میںگیلرٹ ہل کی چوٹی پر آسٹریلیا نے Citadel تعمیر کیا۔ اُس وقت ہنگری پر آسٹریلین ہی حکمران تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس کو اپنی فوج کی نقل و حرکت کے لئے استعمال نہیں کیا تھا۔

لبریشن مونیومنٹ بھی گیلرٹ ہل کی چوٹی پر واقع ہے، جو 1947ء میں یونین آف سوویت سوشلسٹ ریپبلک (USSR) کی فوج نے تعمیر کیا تھا لیکن ان کے جانے کے بعد جب ہنگری کی کمیونسٹ پارٹی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو انہوں نے1990ء میں اس لبریشن مونیومنٹ (آزادی کی یادگار) کو گرا دیا۔

دریائے ڈینیوب پر آٹھ پُل ہیں، جو بوڈا اور پسٹ کو ملاتے ہیں۔ ان میں سے سات پُل دوسری جنگِ عظیم سے پہلے تعمیر کئے گئے تھے اور ان تمام کو دوسری جنگِ عظیم میں نقصان پہنچا مگر بعد میں ان کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ پسٹ گنجان آباد علاقہ ہے اور زیادہ تر لوگوں کا تعلق صنعتوں سے ہے۔ شہر کے اندرونی حصے میں موجود ٹاؤن ہال1749ء میں بنیادی طور پر افواج کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ سٹی پارک پیسٹ کے شمال مشرقی حصے میں گریٹ بولیورڈ کے عقب میں واقع ہے، جس میں کئی خوبصورت میوزیم بھی ہیں، جن میں Vajda Hunyad Castle بھی ہے جسے انتہائی مہارت سے تعمیر کیا گیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے