۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کبھی تو سکون سے سولینے دیا کرو، ہروقت یہ لادو وہ کردو۔۔
کیوں مشکل بنی ہوئی ہو۔۔میں مشین نہیں ہوں۔۔صبح اٹھوں تو تمھارے کام ،شام تو تمھارے کام۔۔۔
(چادر تان کر سونے کی کوشش)
لیکن دن کام کیلئے بنا ہے عوام کی خدمت کیلئے تخلیق کیا گیا ہے، ڈریں اس وقت سے جب نکیرین سوالات کریں گے اور آپ کے پاس جواب میں کچھ نہ ہوگا۔۔۔
(پاؤں پٹختے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی)
آئی بڑی دین کی دعوے دار ۔۔ مجھے ڈرارہی ہے ، میں کوئی چھوٹا بچہ ہوں ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت تو تھا، بستر بھی گرم تھا اور چادر بھی منہ تک تھی ، چلّانے والی بھی جاچکی تھی، لیکن آنکھیں بند ہونے کے باوجود نیند نہ آئی اور دماغ کسی لکڑی کی کھپچی میں اٹک کر رہ گیا،
واقعی اگر سوال کا جواب نہ ہوا تو؟؟؟کیا میں کچھ غلط کرتا ہوں، بیوی بچوں کیلئے صبح سے شام محنت، مشقت سے ان کا پیٹ پالنا کیا گناہ ہے؟ وہ خدمت خلق میں شمار نہیں ہوگا،دفتر میں بھی صاحب کی خدمت کرتاہوں اور چھوٹوں کی مدد کرتاہوں ،
اوہ ہو! جب کی جب دیکھی جائے گی 10 یا پچاس سے تو کام چل ہی جائے گا۔۔۔
(شیطانی مسکراہٹ کے بعد نیند تو غارت ہوگئی تھی ، اٹھا اوردفتر جانےکی تیاری پکڑ لی )
ناشتے کی ٹیبل پربیگم سے چائے مانگی۔چہرے پر آنے والی ہنسی نےبیگم کا موڈ بھی بہتر کردیا،
خیر تو ہے آج اتنے مہربان۔!اتنا سننے کے بعدموڈکیسے صحیح ہوا؟ کون آئی تھی خواب میں ؟ یا پھر نکیرین ؟
(وہ ہنستی ہوئی کچن میں چلی گئی)
سب باتیں اپنی جگہ،لیکن دماغ کی سوئی کہیں اٹکی ہوئی تھی ۔۔۔اگر جواب نہ ہوا تو۔۔۔؟
دل ہی دل میں ٹھان لی ، آج کچھ الگ کرنا ہے یا پھر آج سے سب کچھ الگ کرنا ہے
سورج کی روشنی میں تپش نہیں تھی، آہستہ آہستہ چلنے والی ہوا بھی ٹھنڈی محسوس ہورہی تھی اور یا پھر یہ سب سوچ کااثر تھا،اندر کا موسم اچھا ہوتو باہر بھی سب اچھا ہوجاتا ہے، اور گڑبڑ ہوتو بھی سب چہرے پر عیاں ہوتا ہے ، کیاہمارے اچھے برے اعمال بھی اسی طرح چہرے سےجھلکتے ہیں ،
ڈیوٹی پر پہنچا، چہرے پر ہنسی تھی لیکن اطمینان اور خوشی غائب، حاضری لگائی، فائلوں کا پیٹا بھرا اورمعمول کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد سڑک پر فرائض کی انجام دہی کے لیے پہنچا،
نارمل سی زندگی پہلی جیسی ہی چل رہی تھی ، ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی تو سایہ دار جگہ سے نکل کر اہمیت جتا دیتے،کہیں کسی کی گاڑی پھنسی تو داد وصول کرنے پہنچ گئے،لیکن کیا اتنا کافی ہے؟کیا جو کیا یا کررہے ہیں ، اچھا ہے ،صبح سے شام ہونے لگی ، سورج ،عمارتوں اور درختوں کے پیچھے سے اپنے گھر کی طرف رواں دواں تھا، کارساز سے اسٹیڈیم کی طرف آئیں اور قاسم شاہ پل کے نیچے سے لیں توایک روڈ سیدھی حسن اسکوائر کی طرف جاتی ہے، ایک آغا خان یونیورسٹی اسپتال کی طرف مڑجاتی ہے ، اس اہم جنکشن پرتعینات تھا، کہ اک موٹر سائیکل سوار میرے آگے سے رانگ وے پر جانے کی کوشش کرنے لگا، نہ روکتا تو اپنے پیشے سے غداری کرتا ، روک لیا تو کم بخت لے دے کر جانے کی باتیں کرنے لگا۔ اب نیا ایک امتحان ۔۔
جانے دو بھائی ، بہت جلدی ہے، وہاں سے آیا تو رش اور سگنل پر پھنس جاؤں گا۔آپ اور ہم خیال سے چلیں گے تو دونوں کام کرسکیں گے۔صبح سے شام دھوپ میں کھڑے ہیں ، پانی شربت پی لیں ، مجھے جانے دیں ،میری بھی مشکل آسان ہوجائےگی،
ارے بھائی کیوں روزی خراب کرتے ہو، کیمرادیکھ رہا ہے ، سی سی ٹی وی کے علاوہ سوشل میڈیا بھی اتنا ہٹ ہوگیا ہے کہ چلتے پھرتے لوگ ویڈیو بنا کر بدنام کردیتے ہیں ،
آپ گھبرائیں نہیں ، ہمارے ہاں پاکستان بالخصوص کراچی میں سی سی ٹی وی کیمرے چلتے کہاں ہیں جو بدنامی کا ڈر ہو اور یہ تو معمول کی بات ہوگئی ہے ، ٹھنڈا پانی پیو ، آپ بھی خوش میں بھی خوش۔۔
بہت خوب کہی دوست ۔۔ آج پورادن سوچتا رہا کہ کیسے کچھ الگ کرسکتے ہیں یا پھر الگ نہ کریں درست کام درست سمت میں کرنے سے سب کچھ درست ہوجائے گا،
’رائٹ نمبر آن رانگ وے‘
آپ میرے لیے رائٹ نمبر ہوجورانگ وےسے آئے اور میرے لیے سب رائٹ کرنے کاسبب بن گئے،
کیوں ٹائم خراب کررہے ہو، مجھے جلدی ہے اور آپ دماغ پکا رہے ہو، کس دنیا میں رہتے ہو، ابھی تو صرف لال نوٹ ہی آپ کی طبیعت ہری کرسکتا ہے ، وقت نہیں ہے جانے دومجھے۔۔
سمجھنے کی بات ہے دوست،سوپچاس کیلئے میں اپنا ایمان برباد کردوں ،نوکری میں خیانت کروں ، ڈرو اس وقت سے جب نکیرین سوالات کریں گے اور آپ کے پاس جواب میں کچھ نہ ہوگا۔۔کیمرا دیکھے نہ دیکھے ، کوئی کچھ کہے نہ کہے،کل قیامت میں کیا جواب دو گے۔کیونکہ اللہ تو دیکھ رہا ہے ۔