انگریزی میں تقریر کرنے سے بات شروع ہوئی، لیکن بلاول کی اردو بھی ٹھیک نہیں، الفاظ کی ادائیگی تک درست نہیں، مذکر مونث بھی ٹھیک نہیں، زبان کے مسائل کے علاوہ بھی کافی مسائل ہیں، لیکن کشمور سے سمندروں میں دور تک مچھیرے ہوں، چھابڑی والے، اس کے نانا کی محبت میں گرفتار ہیں، کیوں کہ وہ رسی پر جھول گئے، یہی وجہ ہے کہ پہلے اس کی والدہ اور پھر اس کے والد تخت پر بیٹھے، اسی محبت نے اس سے اس کی ماں چھینی، عوام کے لئے بے نظیر قربان ہوئیں۔ الزام لگتے رہے “ٹین پرسنٹ” کے لیکن پھر آصف زرداری تخت پر براجمان ہوئے۔ ایک پر دوسرا آمر تاراج ہوا لیکن زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
گندے نالے، کچی سڑکیں، زندگی کسمپرسی اور حالات بدتر لیکن وہ آج بھی یہی نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں، جس تبدیلی اور انقلاب نے “شیر” کو کچھار تک محدود کردیا، اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کروایا ، وفاقی حکومت چھینی ، پنجاب میں بھی حکومت نہ بنانے دی، بلوچستان میں بھی قدم جمائے، کے پی میں حکومت کا مسلسل دوسرا دور شروع کرکے خیبرپختونخوا میں ہر بار نئے کو آزمانے کی روایت توڑ ڈالی، کسی واہمے کی طرح تبدیلی کی ہوا پورے ملک میں چلی، لیکن سندھ میں چند برج الٹ سکے، بھٹو کی محبت سندھیوں کے دلوں سے نکلی نہ سندھی حکومتی ایوانوں سے، اور تبدیلی اسی بات پر غصے میں ہے۔ کسی ایک انسان کے گرد گھومتی اس محبت نے “خان” کو “کپتان” سے “وزیراعظم” بنا دیا، جسے سب تبدیلی کہتے ہیں۔
لیڈراور کپتان میں زیادہ فرق نہیں، کپتان کسی ٹیم سے منسوب ہے اور لیڈر قوم سے،،، کپتان اس ٹیم کا، جو صلاحیتوں سے مالا مال ہو، اور قوم میں سے چنی گئی ہو، اور وہی کپتان جب لیڈر بنے تو لیڈروں کے چھکے چھڑا سکتا ہے، لیکن لیڈر بننے کے بعد کپتانی جاتی رہتی ہے، ٹیم کے بجائے قوم کو راستہ دکھانا مشکل ہے، خان اور بھٹو میں یہی فرق ہے، ایک کپتان ہے اور ایک لیڈر، لیکن دونوں کی محبت دلوں میں بس رہی ہے، ایک آج تک زندہ ہے، اور ایک آج عروج پر۔۔۔۔۔
بھٹو نے بھی عروج دیکھا، آئین سازی، ایٹم بم کی بنیاد، شناختی کارڈ غریبوں کی بات کرنا، روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ، وہ تبدیلی کا خواب ہی تھا، جب پاکستان بننے کے بعد سے حکومت اور اقتدار چنا جاتا تھا، چند بنیادی جمہوریتوں میں یا چند ایلیٹ کلاس کے لیڈرز میں، بھٹو وہ سیاست اٹھا کر گلیوں میں لے آیا، اور عوام کو لگا کہ وہ اقتدار میں ہیں، تبھی وہ خواب آمر نے توڑا ۔
وزیراعظم کے اپنے مذکر مونث کچھ زیادہ ٹھیک نہیں، لیکن لوگ ان غلطیوں کو خاطر میں نہیں لاتے، پیٹرول کی قیمت بڑھے یا ڈالر کی، سب ٹھیک!!! سب اچھا!!! کیوں کہ انہیں “کپتان” سے محبت ہے، وہ چاہے تو تاریخ غلط بتائے، جوش خطابت میں کچھ بھی بول جائے، معاف! کیوں کہ محبت ہے۔ پہلے بھی “بھٹو” کے نام پر سیاہ و سفید حاکم ہوئے، یہی بھٹو ازم آج بھی ہے، اور اسی محبت “بھٹو ”کے نام پر آج بلاول “لیڈر” ہے۔ اور کل بختاور، آصفہ ہوں گی، اور پھر ان کی اولادیں ۔۔۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ خان کے آگے کوئی نہیں، اس کے بچوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، لیکن یہ محبت ہے، زرداری بھی بھٹو کا بیٹا نہیں ۔۔۔ !!!