یہ کلچر نہیں چلے گا
آئین اور قانون میں تمام پاکستانی شہری برابر ہیں ، کوئی قانون سے بالا تر نہیں ۔ مگر جس ملک کے مقتدر حلقے آئین اور قانون کو محض کاغذ کا ٹکڑاسمجھ کر اس کی بے حرمتی کرتے ہوں وہاں شہریوں کے برابری کے حقوق کی بات تقریروں اور تجزیوں کی حد تک رہ جاتی ہے۔ ایسے میں برابری کا حق دینے یا برابری کے قانون پر عمل درآمد کی بات کتابی تحریر سے زیادہ اہم نہیں ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اشرافیہ کی نقاب پہنے کچھ شہری قانون سے بالا تر ہیں تو کچھ قانون کی چھڑی کے نیچے۔ قانون کسی کے گھر کی لونڈی تو کسی کے سر پر لٹکتی تلوار۔ قانون کے نفاذ کی بات کریں تو عوام اور خواص کے فرق کو اکبر الہٰ آبادی کے ایک شعر میں بھی سمجھایا جا سکتا ہے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے تو چرچا نہیں ہوتا
جو خودکو قانون سے بالا تر اور پہنچ سے دور سمجھتے ہیں انہیں ” اہم شخصیت” یا وی آئی پی جبکہ ان سے اوپر والوں کو ” اہم ترین شخصیت ” یا وی وی آئی پی کا لقب دیا جاتا ہے۔ ان افراد کے فرعونی انداز کے سامنے کھڑے ہونے سے بڑے بڑے گھبراتے ہیں۔
پاکستان میں سیکیورٹی معاملات کی تشریح کے لیے تحریر کی گئی کتاب کو "بلیو بک” کہا جاتا ہے۔ اس کتاب میں اہم اور اہم ترین افراد کی اہلیت اور عہدےاور ان کی حفاظتی اقدامات تحریر کیے گئے ہیں یعنی کس وی آئی پی کو کیسی سیکیورٹی فراہم کی جانی ہے ۔
تاہم گزشتہ کئی برسوں سے دیکھنے میں آیا ہے کہ حقیقی اور خود ساختہ "اہم اور اہم ترین شخصیات” نے "پروٹوکول” کے نام پر حکومت کی فراہم کردہ سیکیورٹی کے ساتھ ذاتی اسلحہ برداروں کے ساتھ سفر کرنا اپنا استحقاق بنا لیا ہے اور ان کے قافلوں کو روکنے کی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ ان کے سامنے پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی تماشائی اور بے بس بنے رہے ہیں ۔ جس کا کام قانون پر عملدرآمد کروانا ہوتا ہے وہ ہی ان افراد کی کھلے عام لاقانونیت کو مسلسل نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔اس کی ایک وجہ ان اہم اور اہم ترین افراد کی ان کے افسران سے راہ و رسم ہوتی ہے جو قانون پر عمل درآمد کروانے کی سزا اپنے عملے کو ذلیل کرکے دیتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یہ وی آئی پی شخصیات ہی افسران کی ترقی کی سیڑھی ہوتے ہیں۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ جابرانہ اور وڈیرانہ ذہنیت رکھنے والے اہم اور اہم ترین افراد کا ناسور معاشرے میں گہرائی تک سرائیت کر گیا ہے ۔ ان کی پیروی میں اب چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار "شہری بابو” بھی خود ساختہ "وی آئی پی” بن کر عوام اور پولیس پر رعب جمانا اور گالیاں دینا اپنا حق سمجھنے لگے ہیں ۔ان کی گاڑی کے ساتھ چلنے والے سیکیورٹی گارڈز راستے بھر گاڑیوں کو سامنے سے ہٹنے کا اشارہ کرتے اور راستہ دینے میں دیر کرنے والوں سے بدتمیزی کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں کراچی کے "ریڈ زون” میں وزیر اعلیٰ کی قیام گاہ کے نزدیک شہر کے سابق ایڈمنسٹریٹر فہیم الزمان اور پولیس والوں کے درمیان ہونے والی تلخ کلامی کا واقعہ بد قسمتی تو تھا لیکن یہ ایک "خود ساختہ اہم ترین شخصیت” سے عام لوگوں جیسا سلوک کرنے کوشش بھی تھی۔ ملک کے آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتا یہ "وی آئی پی” کلچر جہاں عوام کے لیے زحمت ، اذیت اور حقارت کا باعث ہے وہیں یہ حفاظتی اقدامات کے لیے انتہائی مہلک اور خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
جب ایک دھیمے لہجے اور ٹھنڈے مزاج کے حامل فہیم الزمان کی پولیس اہلکاروں سے غصے میں گالیاں دیتے ہوئے رعب و دھونس دھمکیوں کی ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلی تو نا صرف انہوں نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا بلکہ اپنی غیر شائستہ گفتگو پر معافی بھی مانگی۔فہیم الزمان نے مجھے سے کہا ، ” اس بات سے قطعہء نظر کہ مجھے غصہ کیوں آیا اور پولیس اہلکار کا کیا قصور تھا ، میرا رویہ نا مناسب اور غیر ضروری تھا۔ میں نے وہ ویڈیو دیکھی تو احساس ہوا کہ جس زبان میں میں نے پولیس اہلکار سے بات کی وہ ناصرف غیر شائستہ تھی اور اس سے میری ساکھ کو بھی نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔ لہٰذا میں ایک مرتبہ پھر اپنے گھر والوں، دوستوں اور شہریوں سے معافی چاہتا ہوں”۔
وہ صورت حال واقعی فہیم الزمان کے لیے ندامت کا باعث تھی کیوں کہ وہ ایک معروف شخص ہیں اور لوگ ان سے بہتر اور شائستگی کی توقع کر تے ہیں۔لیکن اس واقعہ سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار کا کسی شہری کی ویڈیو بنا نا اور یک طرفہ انداز میں اسے سوشل میڈیا پر جاری کرنا کہاں تک درست ہے ؟ اور اس عمل کی اجازت اس اہلکار کو کس نے اور کس قانون کے تحت دی ؟
پولیس اہلکار کا دیانتداری اورغیر جانبداری سے ڈیوٹی انجام دینا تو ایک اچھا قدم تھا لیکن کسی کی ویڈیو بنا کر اس طرح سوشل میڈیا پر جاری کرنے کے عمل کو کسی طور درست قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ کراچی کے ایک سابق ایڈمنسٹریٹر کے کسی غیر قانونی اقدام پر ان کی گاڑی کا چالان کیا جا سکتا تھا، انہیں گرفتار کیا جا سکتا تھا یا ان کی گاڑی تحویل میں لے لی جاتی تو غلط نہیں ہوتا ۔ اس کے ساتھ اگر پولیس اہلکار نے ثبوت کے طور پر واقعے کے ویڈیو بھی بنا لی تھی تو کیا اس نے سوشل میڈیا پر جاری کرنے کی اعلیٰ افسران سے اجازت لی تھی؟
یہ صورت حال 10 سے 15 منٹ تک جاری رہی اور اس دوران وہاں سے بے شمار گاڑیاں بغیر کسی روک ٹوک گزرتی رہیں ۔ اس مدبھیڑ کے نتیجے میں وہاں سے کو ئی مجرم با آسانی "ریڈ زون” میں داخل ہو سکتا تھا ۔
فہیم الزمان بے نظیر دور حکومت میں بلدیہ کراچی کے ایڈمنسٹریٹر رہے اور ان کی دو سالہ تعیناتی میں شہر کی تعمیر و ترقی کے کام بھی ہوئے ۔ وہ کراچی کی سیاسی اور تعمیری صورت حال سے متعلق نہایت جرات مندانہ خیالات کا برملا اظہار کرنے کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ اور یہ چند منٹ کی ویڈیو نے ان کی نیک نامی پر ایک دھبہ ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ فہیم الزمان صاحب نے غیر شائستہ گفتگو کا احساس کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔
اس واقعے کے دوران فہیم الزمان نے جو جملہ استعمال کیا وہ طاقتور اشرافیہ کا خاص جملہ ہے، ” تم مجھے نہیں جانتے ، میں فلاں ہوں یا فلاں رہ چکا ہوں، مجھے تمہارے افسران جانتے ہیں میں ابھی ان سے بات کرتا ہوں، وغیرہ وغیرہ۔۔یعنی وہ ایسا بھرم کرواتے ہیں کہ الامان و الحفیظ ، اس قدر بد تمیزی سے پیش آتے ہیں کہ جیسے پولیس اہلکار نے انہیں رکنے اور شناخت معلوم کرنے کہہ کر جرم کر دیا ہو۔ طاقت نے نشے میں مست اشرافیہ کی اکثریت کو احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کا انداز گفتگو شرافت سے گرا ہوا ہے اور جب ان کا احساس ہی مر چکا ہو تو معافی مانگنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
کراچی میں گزشتہ روز پیش آنے والے اسی طرح کے واقعے میں جب حکومتی اہلکاروں نے ایک صوبائی وزیر کو روکنے کی کوشش کی تو وہ آپے سے باہر ہو گئے۔ اہلکار کو مار پیٹ کے وہاں سے چلتے بنے۔ بعد میں عدالت پہنچ کر ضمانت قبل از گرفتاری کے درخواست دائر کر دی۔ ان بے لگام لوگوں کے نزدیک قانون کی کوئی حیثیت نہیں کیوں کہ ان کو لا قانونیت کے سزا کا ڈر نہیں ہوتا ۔
گو کہ فہیم الزمان کے معاملے میں وردی پر ہاتھ ڈالنے یا پولیس اہلکار پر ہاتھ اٹھانے کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔
لیکن المیہ یہ ہے کہ پولیس اہلکاروں اور دیگر ادارے کے اہلکاروں کو عوام سے بات کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔ ممکن ہے کہ ان سے کہا جاتا ہو کہ تمیز سے پیش آیا کریں مگر زمینی حقائق اس بات کی نفی کرتے ہیں ۔ عوام کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں پر ہاتھ اٹھانا یا وردی پر ہاتھ ڈالنا سنگین جرم اور کار سرکار میں مداخلت ہے لیکن اشرافیہ کے لیے معمولی بات کیوں کہ جس کے لیے قانون بے معنی ہو اس کے لیے اہلکار کی کیا حیثیت۔ معذرت کے ساتھ ، اس کی ایک بڑی وجہ ان اداروں کے سربراہان کی اپنے اہلکاروں کے بجائے طاقتور اشرافیہ کی طرفداری ہے۔
ایسی صورت میں یہ "وی آئی پی شخصیات” بشمول ارکان اسمبلی، وزراء، بیوروکریٹس ، جاگیردار ، وڈیرے اور دیگر خود ساختہ طاقتور افراد لا قانونیت کو اپنا حق اور استحقاق سمجھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر اپنے سادہ لباس اسلحہ بردار وں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے عام لوگوں اور قانون نافذ کرنے والوں پر رعب جماتے، ٹریفک اور دیگر قوانین کو پامال کرتے ہیں۔ حکومتی اداروں کی بے بسی کی ایک مثال ائیرپورٹس پر بنے "وی آئی پی” کاونٹرز ہیں جہاں سے ان لوگوں کو بغیر کسی روک ٹوک جانےدیا جاتا ہے ۔
"طاقتور ” اشرافیہ کی پہچان سڑک پر ان کی قیمتی گاڑیوں کی فینسی نمبر پلیٹ اور اس پر غلاف چڑھی گول سی چیز، کالے شیشوں اور اسلحہ برداروں کی فوج ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس جھوٹی شان و شوکت کے مظاہرےکو ختم کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا کیوں کہ "پروٹوکول” کے مزے طاقتور اشرافیہ کے ساتھ قانون بنانے والے اور اس کے نگہبان سب مل کر لوٹ رہے ہیں۔ رہ گئے بے چارے عوام تو ان پر ہی یہ رعب ڈالا جا تا ہے ورنہ اپنے سے بڑے کے سامنے یہ خود ساختہ اشرافیہ بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔
پولیس کی "وی آئی پی سیکیورٹی ” کے اصولوں پر مشتمل کتاب ” بلیو بک” میں وی آئی پی اور وی وی آئی پی کی اہلیت اور حفاظت کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ان میں صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر، وزراء، سفیر، جج صاحبان اور دیگر اہم شخصیات کی سیکیورٹی کے معیار درج ہیں۔ سابق پولیس افسر نے مجھے بتایا کہ ” بلیو بک پر عمل درآمد سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ وی آئی پی شخصیات خود قوانین کی خلاف ورزی کا کہہ کر اداروں کو مشکل میں ڈال دیتی ہیں کیوں کہ سیکیورٹی کے ذمہ داران کے لیے ان افراد کو "قانون پر عمل ” کرنے کا کہنا ممکن نہیں ہوتا۔
فہیم الزمان کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار نے ان سے شناختی کارڈ نا ہونے پر بد زبانی کی جو نہیں کرنی چاہیے تھی کیوں کہ انہوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ وہ ضلع جنوبی کے حساس ترین علاقے "ریڈ زون” سے گزر رہے تھے۔اس علاقے میں وزیراعلیٰ ہاؤس، گورنر ہاؤس، اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس، کمشنر ہاؤس، سندھ رینجرز کا ہیڈ کوارٹر، سندھ ہائی کورٹ ، پاسپورٹ آفس، سندھ اسمبلی بلدنگ، آرمی اور نیوی کے دفاتر، سپریم کورٹ ، فائیو اسٹار ہوٹل اور دیگر اہم عمارتیں واقع ہیں۔ حفاظت کے نام پر کیے جانے والے اقدامات عوام کے لیے انتہائی تکلیف کا باعث ہوتے ہیں ۔
کئی مرتبہ اس سیکیورٹی کے حصار میں ایمبولینسیں بھی پھنس جاتی ہیں اور مریضوں کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں اور مریض کے ایمبولینس میں مرنے کی شکایات بھی ملتی ہیں۔
2002 سے 2005 کے درمیان شہر کے اس حساس علاقے میں ہونے والے پے در پے بم دھماکوں کے بعد اسے "ریڈ زون” قرار دیا گیا۔ 2002 میں یہاں ہوٹل میریٹ اور امریکی قونصل خانے کے باہر ہوئے خودکش دھماکےمیں درجنوں افراد مارے گئے۔ کچھ عرصے بعد پی آئی ڈی سی ہاؤس کے سامنے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے باہر ہوئے فرانسیسی انجنیئروں کی بس کے قریب خوکش حملہ کیا گیا اس کے علاوہ پانچ امیریکیوں کو بھی اسی علاقے میں قتل کیا گیا تھا۔
اس حساس علاقے کو پوری طرح حفاظت حصار میں لینا ممکن نہیں کیوں کہ یہاں قائم پرائیویٹ دفاتر اور عمارتوں میں دن بھر لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔ ایک تجویز یہ بھی تھی کہ یہاں سے اہم ترین عمارتوں اور دفاتر کو کسی محفوظ جگہ منتقل کر دیا جائے تاہم نا معلوم وجوہات کے باعث اس پر عمل نہیں ہوا۔
حفاظتی اقدامات کی وجہ سے عوام اور پولیس اہلکاروں میں تند و تیز جملوں اور بحث و تکرار کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اکثر لڑائی جھگڑے اور ہاتھا پائی کی نوبت بھی آ جاتی ہے جو حفاظتی اقدامات کے لیے مہلک ہو سکتی ہے کیوں کہ اس دوران مبینہ مجرمان با آسانی نکل سکتے ہیں ۔ فہیم ا لزمان کے ساتھ پیش آئے واقعے میں پولیس اہلکار گاڑی کا چلان کر سکتا تھا یا نمبر نوٹ کر کے اعلیٰ افسران کو رپورٹ بھیج سکتا تھا ، ثبوت کے طور پر وہ ویڈیو بھی بھیج سکتا تھا لیکن اسےسوشل میدیا پر پھیلانا کسی طرح درست نہیں کہا جا سکتا۔
جس طرح سیکیورٹی کے نام پر لوگوں کو پریشان کرنا غلط ہے اسی طرح وی آئی پی کے نام پر طاقتور اشرافیہ کا عوام اور حکومتی اہلکاروں کی توہین کرنا زیادہ شرمناک ہے۔ سیکیورٹی کی آڑ میں خودساختہ پروٹوکول اور لاقانونیت کرنے والوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ سب مل کر قانون کا احترام اور پابندی کریں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اہلکار عوام کے ساتھ قانون کے نام پر لاقانونیت اور دھونس دھمکی سے رشوت لینے کا کاروبار بند کریں ۔ اس کے ساتھ خود ساختہ وی آئی پیز کا روپ دھارے طاقتور اشرافیہ کے سامنے قانون کے آہنی شکنجے کو موم نہیں ہو جانا چاہیے۔ کیوں کہ لا قانونیت کسی بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے اور اب تو عوام کی برداشت ختم ہونے کے آثار نمایاں ہوتے جا رہے ہیں۔میں یہی کہہ سکتا تھا کیوں کہ عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے ۔ ورنہ بھینس کے آگے بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں