آٹھ ماہ میں عمران خان صاحب کے نظریات اور دعووں کے سامنے کئی سوالیہ نشان کھڑے ہو چکے ہیں‘ اور ان میں ہر روز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
عمران خان صاحب کے نظریات اور دعوے وقت نے مسترد کر دیے۔ جب انہیں تجربات کے ترازو پر پرکھا گیا، وہ کم وزن نکلے۔ مثال کے طور پر یہ نظریہ کہ ”تبدیلی اوپر سے آتی ہے‘‘۔ وہ یہ تصور پیش کرتے رہے ہیں کہ اگر حکومت کا سربراہ کرپٹ نہ ہو تو کرپشن کا خاتمہ محض نوے دنوں کی بات ہے۔ وزیرِ اعظم پیسہ بنانے کے کھیل کا حصہ نہ ہو تو ایک مختصر کابینہ کے ساتھ سب کچھ سنوارا جا سکتا ہے۔ نوے دن کیا، اب تو آٹھ ماہ گزر چکے۔ ملک کے معاشی نظام کی چولیں ہل گئیں۔ کرپشن کیا ختم ہوتی کہ نظام کی بقا ہی خطرات میں گھر گئی۔
عمران خان صاحب نے دعویٰ کیا کہ ماہرین کی ایک ٹیم انہیں میسر ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کر سکتی ہے۔ ان کو ایک دفعہ اقتدار تک پہنچا دیں، پھر دیکھیں کیسے معجزات برپا ہوتے ہیں۔ وہ اقتدار تک پہنچ گئے مگر تا دمِ تحریر کوئی معجزہ رونما نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ ان کے پاس کوئی ایک بھی ایسا ماہر نہیں ہے جو سیاسی یا معاشی نظام کا راز آشنا ہو۔ اسد عمر صاحب کے بارے میں یہ تاثر قائم کیا گیا کہ ایک نابغہ ہیں جو معیشت کے اسرار و رموز سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اسد عمر صاحب اصلاً کیا تھے؟ اب کسی کو کوئی ابہام باقی نہیں رہا۔
ندرتِ خیال تو دور کی بات، وہ تو موجود نظام کو چلانے کی صلاحیت کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ وہ ملک کو کوئی متبادل معاشی نظام کیا دیتے کہ لکیر کے فقیر نکلے اور فقیر بھی ایسا کہ لکیر پیٹ رہا ہے اور کچھ نتیجہ برآمد نہیں ہو رہا۔ معاشی پالیسیاں وہی ہیں جو برسوں سے جاری ہیں۔ وہی قرض، ٹیکس میں اضافہ، آئی ایم ایف کی دریوزہ گری۔ سابقہ حکومت پر لاکھ تنقید کریں، یہ بتایا جا سکتا ہے کہ ان کے اہداف کیا تھے اور وہ کس حد تک پورے ہوئے۔ موجودہ حکومت کے بارے میں ایسی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔
پھر یہ کہا گیا کہ تحریکِ انصاف پڑھے لکھوں کی جماعت ہے۔ تاثر یہ دیا گیا کہ نئے لوگ سامنے آ رہے ہیں اور ملک ایک نئے سیاسی کلچر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ملک نئے کلچر کی طرف بڑھا تو ہے، مگر یہ کیسا کلچر ہے، اس کے مظاہر ہمارے چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ اگر یہ کلچر پڑھے لکھوں کی عطا ہے تو پھر اس نظامِ تعلیم کو فی الفور لپیٹ دینا چاہیے‘ جس نے اخلاقیات کے یہ شاہکار تخلیق کیے ہیں۔ اس سے وہ ان پڑھ لاکھ درجے بہتر تھے جو کم از کم اختلاف کے آداب تو جانتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اُس دن کے انتظار میں ہیں‘ جب پاکستان میں عمران خان جیسا نیک اور دیانت دار آدمی وزیر اعظم بنے۔ پھر دیکھیے کیسے گھن برستا اور سرمایہ ملک کا رخ کرتا ہے۔ لوگ اپنی صلاحیتوں اور سرمایے سمیت پاکستان کا رخ کریں گے‘ اور یہاں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ عمران خان بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں بہت مقبول ہیں۔ یہ مقبولیت مگر انہیں آمادہ نہ کر سکی کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان کا رخ کرتے۔ اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب تو جو پہلے آئے تھے، وہ بھی جا رہے ہیں۔
یہ دیگ کے چند دانے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینل آئے دن پرانی تقریریں دکھاتے اور بتاتے ہیں کہ کیسے آٹھ ماہ میں نظریات اور دعووں کا ایک قبرستان وجود میں آ چکا۔ نظریات کا معاملہ یہ ہے کہ تجربہ ان کو پرکھنے کا ذریعہ ہیں۔ نظریہ عمل کی کسوٹی پر پورا نہ اترے تو مسترد ہو جاتا ہے۔ عمران خان اس نظریے کے واحد حامل نہیں کہ تبدیلی اوپر سے آتی ہے۔ یہ نظریہ بیسویں صدی میں زور و شور سے پیش کیا گیا اور بہت سے اہلِ علم بھی اس کے قائل رہے ہیں۔ اس کے بر خلاف بھی ایک نظریہ زیرِ بحث رہا ہے کہ تبدیلی ایک سیاسی نہیں، سماجی عمل کے نتیجے میں آتی ہے۔ معاشرہ جب شعوری سطح پر کسی مؤقف اور نظامِ اقدار کو اپنا لیتا ہے تو پھر اس کا عکس حکومتی طرزِ عمل میں بھی دکھائی دینے لگتا ہے۔ میں اس دوسرے نقطۂ نظر کا قائل ہوں۔ اس کے دلائل میں بکثرت بیان کرتا رہا ہوں۔ خان صاحب کے نظریے کی غلطی تاریخی تعامل سے ثابت ہے۔ ان کے اپنے عمل نے اس پر ایک مہرِ تصدیق مزید ثبت کر دی ہے۔
دعوے اگر الہامی نہ ہوں تو وہ عملی حقائق کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ عمران خان صاحب کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کی افرادی قوت کیا ہے؟ وہ کون کون سے ماہرین ہیں جو مختلف شعبوں میں کوئی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں۔ آٹھ ماہ ناطق ہیں کہ وہ ایسے افراد سامنے نہیں لا سکے۔ میں اگر حسنِ ظن سے کام لوں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ بعض لوگوں کے بارے میں ان کا گمان تھا کہ وہ ماہرین ہیں۔ وقت پڑا تو معلوم ہوا کہ ان کا گمان درست نہیں تھا۔ یہ ایک لیڈر کی دیانت پر نہیں تو بصیرت پر ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔ ایک سپہ سالار اگر یہ نہیں جانتا کہ اس کی صفوں میں کس طرح کے سپاہی ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی قیادت میں لڑی جانے والی لڑائی کا انجام کیا ہو گا۔ ایسی ہی ایک جنگ کا انجام اب ہم نے بچشمِ سر دیکھ لیا۔
آج پاکستان اس نقصِ فہم، خوش گمانی یا پوسٹ ٹروتھ کی وجہ سے مسائل میں گھِر گیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ حکومت ان سے نکلنے کے لیے فوج اور دوسرے ریاستی اداروں پر انحصار کر رہی ہے۔ وزیرِ اعظم خود اس کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عرب امارات سے پاکستان کو جو مالی معاونت میسر آئی ہے، وہ آرمی چیف کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ یہ ایک منتخب حکومت کا اپنی زبان سے ناکامی کا اظہار ہے۔ اس اعتراف کے بعد حکومت کو اپنے وجود کے جواز کے بارے میں خود ہی کوئی رائے قائم کر لینی چاہیے۔
میں حکومت کے خاتمے کے حق میں نہیں‘ اور یہ موقف محلِ نظر ہے کہ آٹھ ماہ میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔ ابھی انہیں وقت ملنا چاہیے۔ وقت ضرور ملنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی توقع بھی وابستہ کی جا سکتی ہے۔ توقعات کے لیے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔ ان آٹھ ماہ میں کوئی ایسی وجہ سامنے نہیں آ سکی۔ نہ ندرتِ خیال نہ لائحہ عمل۔ اب تو داخلی صفوں کا اضطراب بھی سامنے آنے لگا ہے۔ یہ بھی حکومتی کمزوری کی ایک علامت ہوتی ہے۔ ناکامی مشتعل کرتی ہے اور لوگ طرح طرح سے اس کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔
عمران خان صاحب بھی جان چکے ہیں کہ ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ وہ اپنے کسی دعوے کے حق میں کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے۔ وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ دیکھو! میں نہ کہتا تھا‘ وزیر اعظم دیانت دار ہو تو نوے دن میں کرپشن ختم ہو جاتی ہے۔ اب ان کا مقدمہ دو ستونوں پر کھڑا ہے۔ ایک یہ کہ کرپشن کے اس بیانیے پر مزید اصرار کیا جائے اور مخالفین کو برا ثابت کیا جائے۔ دوسرا یہ کہ لوگوں کو کسی معجزے کی امید دلائی جائے‘ جیسے دو ہفتے بعد تیل نکلنے والا ہے۔ ان کے مشیر ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ جیسے ہی تیل نکلے گا، ہمارے سارے دکھ دور ہو جائیں گے۔ یہ دونوں ستون اتنے کمزور ہیں کہ تادیر کسی خوش گمانی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔
2018ء میں جنہوں نے یہ بساط بچھائی تھی، سنا ہے وہ بھی مایوس ہو چکے۔ اب قوم کو صدارتی نظام کے ٹرک کے پیچھے لگایا جا رہا ہے۔ ایک نئی ناکامی۔ پھر ایک نیا تجربہ۔ دیکھیے یہ ملک کب تک تجربہ گاہ بنا رہے گا۔ ایک محفوظ راستہ ہمارے پاس موجود ہے۔ پارلیمانی جمہوریت اور عوام کی رائے پر اعتماد۔ مجھے لیکن یہ معلوم ہے کہ ہم اس پر نہیں چلیں گے۔