اقوال زریں کے معاملے میں ہم بڑے حریص ہیں جہاں کہیں بھی کوئی قول زریں سنتے ہیں، پڑھتے ہیں یا دیکھتے ہیں گانٹھ باندھ لیتے ہیں چاہے وہ رولڈ گولڈ ہی کیوں نہ ہو جو اکثر بعد میں اقوال’’پتلین‘‘ ثابت ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک عارفہ صادقہ صوفیہ کا کہنا ہے کہ یہ دنیا ’’پتل دی‘‘ اور جب دنیا ہی ’’پتل دی‘‘ ہو تو اس کا سب کچھ اقوال ہوں یا افعال بھی’’پتل دی‘‘ ہوئے۔
عبدالحنان اب تو عمر کے اس مرحلے میں ہے کہ اس کے اقوال وافعال بلکہ حال احوال سب کچھ روبہ زوال ہیں لیکن ہمارے پاس اس کے دو اقوال زریں لازوال ہیں بلکہ ہم اسے اقوال زریں سے بھی زیادہ اقوال گوہرین و جوہرین سمجھتے ہیں۔ایک قول زریں تو اس نے اس وقت ارشاد کیا تھا جب ہم گاؤں کے پرائمری اسکول میں تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے۔ اسکول گاؤں کے دوسرے سرے پر تھاچنانچہ چھٹی ہونے پر جب ہم گھروں کے لیے چل پڑتے تو ہجوم آہستہ آہستہ چھدرا ہوتا چلاجاتا آخر میں صرف ہم اور عبدالحنان رہ جاتے۔اس کا گھر بھی پہلے پڑتا تھا اور ہم سب کے ’’دی ہینڈ‘‘ ہوتے تھے وہ اپنے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا اور ساتھ ہی پکارتا۔
خان گل پری خان۔دروازہ کھولو
پہلی بار جب ہم نے اس کے منہ سے ’’خان گل پری خان‘‘ سنا تو کہا یہ کیا۔تم لڑکی کو ’’خان‘‘ کہتے ہو گل پری اس کی چھوٹی بہن تھی،اس زمانے میں ’’خان‘‘ کا لفظ صرف’’مردانہ‘‘ تھا آج کل تو کوئی بھی اپنے نام کے ساتھ’’خان‘‘ لکھ سکتاہے لیکن اس زمانے میں بلکہ ہمارے ہاں اب بھی ’’خان‘‘ ایک مذکر نام ہے اور اس کی مونث لیکن عبدالحنان نے جو جواب دیا وہ آب زر بلکہ آب لعل وگہر سے لکھنے کے قابل ہے۔بولا۔اس وقت ماں باپ تو سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور صرف اس کی یہ بہن گل پری جاگ رہی ہوتی تھی اور اگر میں اسے ’’خان‘‘ نہ کہوں تو دروازہ نہیں کھولتی۔یہ قول زریں ہم نے پلے باندھا ہواہے۔بہت کچھ بھول بھال گئے۔یہاں تک کہ خود کو بھی لیکن یہ قول زریں یاد رہا۔
بھول گئے سب کچھ۔یاد نہیں اب کچھ
ایک تیری یاد نہیں بھولی۔جولی اور میری جولی
کیونکہ اس قول زریں کو ہم ہر جگہ پرمقام دیکھتے رہے۔اور اس کے نتائج سے آشنا ہوتے رہے ہیں کہ جس نے ’’گل پری‘‘ کو ’’خان‘‘ کہنا سیکھ لیا اس کے لیے ہر دروازہ کھل جاتاہے لیکن جنہوں نے گل پری کو خان بلکہ ’’خان گل پری‘‘ نہیں سیکھا۔اس کے لیے بند دروازے تو کیا کھلتے ہوئے دروازے بھی گڑاب سے بند ہوجاتے ہیں۔یہ خان گل پری خان گویا جدید زمانے کا کھل جاسم سم ہے بلکہ ہمیں شک ہے کہ کہانی میں کہانی کار نے ڈنڈی ماری ہے علی بابا اس خزانے والے غار کے دروازے کو ’’کھل جاسم سم‘‘ نہیں بلکہ خان گل پری خان کہتاہوگا کیونکہ یہ جو ’’خان‘‘ کہلاتے ہیں وہ
رفتہ رفتہ وہ مری’’بستی‘‘ کے شیطان ہوگئے
پہلے خان پھر خان جی پھر خان خاناں ہوگئے
دوسرا قول زریں گوہر جواہرین عبدالحنان نے اس وقت ارشاد کیا جب وہ پڑھائی کے بعد سرکاری ادارے میں بھرتی ہوگیا وہاں صحت کے شعبے لیبارٹری سے منسلک ہوا اور پھر پنشن لے کر گھر آگیا۔تو گاؤں کے ایک عطائی نے جو ڈاکٹر امرود مردود جتنا ہی پڑھا ہوا تھا یعنی صبح آٹھ بجے سے جب باپ نے اسے داخل کیا اور پھر بارہ بجے تک جب استاد نے اسے چار مسٹنڈے لڑکوں کے ذریعے ڈنڈا ڈولی کرکے اپنے دروازے پر پھینکودیا تھا دوسرے دن اس کا باپ شکایت کرنے آگیا۔تو استاد نے بڑی نرمی سے اسے سمجھایا کہ تم ایسا کرو کہ حکومت کو ایک درخواست دے دو کہ مجھے اسکول کے لیے دس اور اساتذہ کی منظوری دی جائے باقی اسکول کو میں سنھبال لوں گا وہ دس کے دس تمہارے بیٹے کو پڑھائیں گے اگر پڑھاسکتے ہو تو؟
لیکن افغان مہاجرین کے آنے پر وہ اپنا جدی پشتی پیشہ بھیڑیں چرانے کا چھوڑ کر ڈاکٹر بن گیا۔ اور گاؤں کے قریب مہاجرین کیمپ میں ایک بڑی سی دکان کھول ڈالی۔ان ہی دنوں اس کے بارے میں لوگ کہنے لگے کہ اتنے افغانی روسیوں نے نہیں مارے ہوںگے جتنے ڈاکٹر امرود مردود نے مارے ہیں۔
چنانچہ اس نے دکھاوے کے لیے عبدالحنان کو بھی رکھ لیا جو ایک کباڑی خوردبین سے ملیریا کے جراثیم دیکھنے کے لیے بہترین خوردبین اور چالیس سال سے کم بینائی کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ عبدالحنان ہاتھی گھوڑے کو بھی بھیڑ بکری اور تربوز کو انگور سمجھتاتھا۔اس لیے ہم نے ایک روز یونہی گپ شپ میں پوچھا کہ کبھی تم نے کسی مریض کو یہ بھی بتایاہے کہ اسے ملیریا نہیں ہے۔تب عبدالحنان نے نہایت معصومیت سے دوسرا قول زریں ارشاد کیا ’’ کیوں بتاؤں‘‘کیونکہ اگر وہ مریضوں کو یہ بتانے لگتا کہ تمہیں ملیریا نہیں ہے تو ڈاکٹر امرود ان دو نمبر کی دواؤں کا کیاکرتا جو روزانہ ایک پک اپ بھر کر پیٹیوں کے حساب سے اس کی دکان میں لائی جاتی تھیں اور نکالی جاتی تھیں۔عبدالحنان بہت ہی سادہ دل معصوم اور بھولا بھالا سا شخص ہے اسے پتہ نہیں کہ وہ کتنے بڑے اقوال زریں ارشاد کرچکاہے۔
ہم کبھی جب اس کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں بلکہ چھیڑتے ہیں اور یہ اقوال زریں یاد دلاتے ہیں تو صرف دانت نکال کر سر کو جھٹک دیتاہے اور کہتاہے مجھے تو یاد نہیں۔ اب اس آخری قول زریں کو لے لیجیے کیوں بتاؤں؟ اسے اگر ہم ڈاکٹروں، حکمیوں، طبیبوں اور معالجوں اور ان سب کی ان داتا دواساز کمپنیوں پر لاگو کریں تو بالکل ٹھیک بیٹھے گا، کیوں کہ اس دولفظی جملے میں علاج و معالجے کا سارا راز بلکہ کچا چٹھا چھپا ہے۔کیونکہ یہ بہت ہی پہلودار جملہ یا قول زریں ہے۔
اس میں ’’بتاؤں‘‘ کے ساتھ ساتھ کیوں علاج کروں کیوں اپنی دودھیل گائے ماروں کیوں اپنا پھل دار درخت اجاڑوں۔ مزید وضاحت کے لیے ڈاکٹر امرود مردود کا وہ واقعہ سند ہے کہ جب عمرے کے لیے گیا تو اپنی جگہ اپنے ایم بی بی ایس بیٹے کو بٹھاگیاتھا۔ واپس آنے پر بیٹے نے گویا اسے خوش خبری دیتے ہوئے کہا، ابا وہ جو تمہارا فلاں فلاں مریض تھا۔ان سب کو میں نے ٹھیک کردیاہے اب وہ بھلے چنگے ہیں اس پر ڈاکٹر امرود مردود چلا چلا کر اس کی ’’ماں‘‘ کے بارے میں پوست کندہ حالات سنانا شروع کیے تو رکنے کا نام نہیں لے رہاتھا، درمیان میں یہ بھی کہتا رہا کہ کم بخت ان ہی مریضوں کی وجہ سے تو میں نے تجھے ڈاکٹر بنایا جائیدادیں خریدیں بنگلے بنائے اور تم نے میری دودھیل گائیوں کو…