چار اپریل کی کہانی، پانچ جولائی کی زبانی

کیا آج ہماری سیاست کا چالیسواں ہے؟

اگر ہے تو کیا اس کے بعد سیاسی حالات، مرگ کے چالیسویں کے بعد لواحقین کی معمول کی جانب لوٹتی زندگی کی طرح، اپنے اصل کو لوٹ سکیں گے؟

اور اگر نہیں تو4 اپریل کے آس پاس، ملکی سیاسی افق پر چالیسویں کی سی کیفیت کیوں نظر آتی ہے؟

گزرت چالیس برسوں میں ہر برس 4 اپریل کو منائی جانے والی ایک شخص کی برسی پر، پورے ملک میں، چالیسویں سے پہلے پایا جانے والا، میت کے گھر کا سا ماحول کیوں پیدا ہوجاتا ہے؟

آج سے 40 برس قبل 4 اپریل 1979 کو پاکستان کے سابق صدر اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا، کہانی 3 اور 4 اپریل 1979 کی درمیانی رات دو بج کر چار منٹ پر اپنے اختتام کو پہنچ گئی تھی، مگر اس کہانی کا پہلا باب ٹھیک چھ سو چالیس دن پہلے پانچ جولائی 1977 کو لکھا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں 5 جولائی 1977 کا دن بھلایا نہیں جا سکتا، یہی وہ دن تھا جب پاکستان میں سورج طلوع ہونے سے قبل ہی پورے ملک میں مارشل لا نافذ ہوچکا تھا، فوج کی اس کارروائی کو آپریشن فیئر پلے کا نام دیا گیا تھا،یہ کوئی اچانک اور غیر متوقع اقدام نہیں تھا، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد عرصے سے اس خدشے کا اظہار کر رہے تھے، اس کے لئے پس پردہ تیاریاں ہو رہی تھیں اور فضا کو ایسا سازگار بنایا جارہا تھا، کہ مارشل لا لگنے کے بعد قوم اسے درپیش مسائل کا واحد حل سمجھ کر خوش دلی سے قبول کرسکے، جون کے آخر اور جولائی کے ابتدائی چند دنوں میں قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات کے مدو جزر نے اس مارشل لا کے لئے مزید راہ ہموار کردی۔

پانچ جولائی 1977 کی صبح چھ بج کر چار منٹ پر مسلح افواج کے ترجمان کی جانب سے اعلان کیا گیا، کہ مسلح افواج نے پانچ جولائی کی صبح سے ملک میں نظم و نسق سنبھال لیا ہے اور تمام سیاسی رہنما عارضی طور پر مارشل لا حکومت کی حفاظت میں ہیں، اٹھائیس جولائی 1977 کو جب مارشل لا حکام نے پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کے سرکردہ رہنماوں کو رہا کیا تو پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور ملک کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسلام آباد، لاہور، لاڑکانہ اور پشاور کا طوفانی دورہ کیا اور مارشل لا حکومت کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہو ئے تقاریر کیں۔

انہی دنوں مارشل لا حکومت کی ایما پر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات تلاش کرنے کا آغاز ہوا اور بالآخر ریاستی اداروں نے ایک ایسا مقدمہ تلاش کرلیا، جس کے شکنجے میں ذوالفقار علی بھٹو کی گردن پھنسا کر بالآخر انہیں تختہ دار دار تک پہنچایا گیا، یہ پیپلز پارٹی کے رہنما احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ تھا جنہیں گیارہ نوممبر 1974 کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک شادی میں شرکت کے بعد اپنے گھر واپس جا رہے تھے۔

مارشل لا حکام نے اس مقدمہ کی فائل از سر نو کھول دی۔ ایف اسی ایف کے سابق ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود نے وعدہ معاف گواہ بنائے جانے کے وعدے پر بیان دیا کہ یہ قتل ایف ایس ایف کے اہلکاروں نے کیا تھا ور انہیں اس کا حکم خود سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا،تین ستمبر 1977 کو بھٹو کو اس قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا مگر دس دن بعد تیرہ ستمبر 1977 کو پنجاب ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے ایم اے صمدانی نے انہیں ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔

سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ضمانت پر رہائی جنرل ضیاالحق اور ان کے رفقا کو سخت ناگوار گزری، ان دنوں جنرل اقبال پنجاب کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے، انہیں اس بات پر جنرل ضیاالحق کے عتاب کا سامنا کرنا پڑا کہ انہوں نے بھٹو کو رہا کیوں ہونے دیا اور اگر عدالت نے ضمانت منظور کر لی تھی تو انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کیوں نہیں کر لیا گیا۔

ضمانت پر رہائی کے بعد بھٹو ملتان میں ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد کراچی پہنچے اور وہاں بھی ایک جلسہ عام منعقد کرنے کا اعلان کردیا، مارشل لا حکومت اور فوجی حکام کے لئے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہوگیا، اس دفعہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لا کے ضابطہ نمبر بارہ کے تحت گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، تاکہ کسی اپیل، دلیل اور وکیل کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے اور کوئی عدالت ان کی ضمانت نہ لے سکے، نئی منصوبہ بندی کے تحت ان کی گرفتاری سترہ ستمبر 1977 کو عمل میں لائی گئی، یہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی آخری نظر بندی تھی جو ان کی موت تک مختلف صورتوں سے قید میں تبدیل ہوتی رہی۔

گیارہ اکتوبر 1977 کو پنجاب ہائی کورٹ میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے اہم مقدمہ قتل کی سماعت کا آغاز ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کو نواب احمد خان کے قتل کے الزام میں اٹھارہ مارچ 1978 کو سزائے موت کی سزا سنا دی گئی، انہوں نے اس سزا کے خلاف پچیس مارچ 1978 کو سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر وہاں یہ اپیل چھ فروری 1979 کو مسترد ہوگئی ۔ پھر سپریم کورٹ نے چوبیس مارچ 1979 کو نظر ثانی کی اپیل بھی مسترد کردی، دنیا بھر کے 54 سربراہان مملکت ، بہت سی عالمی تنظیموں اور ملک کے اندر بہت سی نمایاں شخصیات نے صدر ضیاالحق سے رحم کی اپیل کی مگر یکم اپریل 1979 کو صدر مملکت نے ان تمام اپیلوں کو مسترد کرکے بھٹو کی قسمت کا فیصلہ کردیا۔

تین اپریل 1979 کو محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کی ، یہ ملاقات تقریبا چار گھنٹے جاری رہی۔ تین اور چار اپریل کی درمیانی رات دو بج کر چار منٹ پر ذوالفقارعلی بھٹو کو راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی۔ ان کی میت صبح سات بج کر دس منٹ پر ایک سی ون تھرٹی طیارے کے ذریعے جیکب آباد پہنچائی گئی جہاں سے اسے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے گڑھی خدا بخش لے جایا گیا۔

بھٹو کے قریبی رشتہ داروں کومیت کی آمد کے بارے میں پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا اور فوجی جوانوں نے ان کے آبائی قبرستان میں ان کی قبرپہلے تیار کررکھی تھی۔ بھٹو کی میت آٹھ بج کر دس منٹ پر گڑھی خدا بخش پہنچی، جہان اس لاش کو مرحوم کے رشتہ داروں اور سول حکام کے حوالے کردیا گیا۔

لاش کے آخری دیدار کے بعد صبح نو بج کر بیس منٹ پر گڑھی خدا بخش کی جامع مسجد کے امام محمود احمد بھٹو نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کے کے خاندان کے علاوہ دیگر چند افراد نے شرکت کی۔ نو بج کر چالیس منٹ پر میت کو اس مسجد کے نزدیک بھٹو کے آبائی قبرستان لے جایا گیا جہاں دس بج کر تیس منٹ تک تدفین کی رسومات مکمل ہوچکی تھیں، اس کے ساتھ ہی پاکستان کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔

پاکستان کے سیاسی اور جمہوری حلقوں کا واضح ترین موقف ہے کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پاکستانی سیاست کا ایک ایسا المیہ ہے جس نے ہمارے قومی دھارے کا رخ تبدیل کردیا۔ ان کا ماننا ہے کہ پانچ جولائی 1977 سے چار اپریل 1979 کے درمیان چھ سو چالیس دنوں نے ہماری سیاسی تاریخ بدل کر رکھ دی جس کے اثرات آج 40 برس بعد بھی واضح طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔

ذولفقار علی بھٹو کا سیاسی جنم غیر معمولی تھا اور کتنی عجیب بات ہے کہ ان کی موت کا حکم نامہ بھی غیر معمولی بن گیا۔ اس وقت کے ہوم سیکرٹری پنجاب نے بھٹو کی پھانسی کے لئے جیل خانہ جات کے صوبائی محکمہ کو جو حکم نامہ بھجوایا وہ کچھ یوں تھا۔

” موت کی سزا پانے والے مسٹر ذولفقار علی بھٹو کو 4 اپریل کی صبح 2 بجے پھانسی دی جائے اور جو قوانین صبح 2 بجے پھانسی دینے سے منع کرتے ہیں۔ ان کو معطل کیا جاتا ہے”

کبھی کبھی یوں کیوں لگتا ہے کہ آج 40 برسوں بعد بھی بہت کچھ معطل ہے؟؟؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے