پاکستانی کرکٹ کے موجودہ ڈھانچے میں تبدیلیوں کی بازگشت تو گرزے برس ہی سنائی دینے لگی تھی جب پاکستان تحریک انصاف نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ جس کے نتیجے میں سابق کرکٹر اور 1992 میں پاکستان کی ون ڈے ورلڈ کپ ٹیم کے فاتح کپتان عمران خان ، ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔
گزشتہ ماہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ون ڈے میچز میں آسٹریلیا کے ہاتھوں عبرتناک شکست کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ سوال شدومد کے ساتھ اٹھنے لگا ہے کہ پاکستانی کرکٹ کے ڈھانچے اور اس کی ساخت میں کن تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ کرکٹ ولڈ کپ سر پر ہے اور ہمارے ارباب اختیار ایک بار پھر 1992 کے ورلڈ کپ کی طرح قومی کرکٹ ٹیم سے عالمی اعزاز کے حصول کی امیدیں لگا بیٹھے ہیں۔
آج جب میں اپریل 2019 کو یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو 21 برس قبل اپریل 1998 میں پیدا ہوئی پاکستان کی پوری ایک نسل جوان ہوچکی ہے۔ ملکی انتخابات میں ووٹ کی طاقت رکھنے والی یہ نوجوان نسل شاید نہیں جانتی کہ پاکستان میں کھیلوں کی دنیا کا پہلا اعزاز کرکٹ یا ہاکی نے نہیں بلکہ اسکواش نے دلوایا تھا اور المیہ یہ ہے کہ ملک میں اسکواش کا زوال بھی ہاکی اور کرکٹ سے پہلے ہی آیا۔
آج سے کوئی 68 برس پہلے 9 اپریل 1951 کو لندن میں پاکستان کے کھلاڑی ہاشم خان نے مصر کے کھلاڑی محمود الکریم کو پہلی مرتبہ ہرا کر برٹش اوپن اسکواش چیمپئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ہاشم خان نے 1951 سے 1955 تک لگاتار 5 مرتبہ یہ چیمپین شپ جیت کر مصر کے کھلاڑی محمود الکریم کا 4 مرتبہ لگاتار یہ ٹورنامنٹ جیتنے کا ریکارڈ توڑ دیا۔
1956 میں چھٹی مرتبہ لگاتار برٹش اوپن اسکواش چیمپین شپ جیت کر انہوں نے اپنا ریکارڈ مزید بہتر بنا لیا۔ ہاشم خان 1958 تک اسکواش کے افق پر چھائے رہے۔ اس دوران انہوں نے صرف ایک مرتبہ 1957 میں فائنل میں روشن خان سے شکست کھائی۔ انہوں نے 7 مرتبہ برٹش اوپن اسکواش چیمپیئن شپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا۔
1959 میں یہ بیڑہ اٹھایا اعظم خان نے، جنہوں نے 1962 تک لگاتار 4 برس یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ 1963 میں ان سے یہ اعزاز اپنے ہی ہم وطن محب اللہ خان سینئر نے چھینا۔ اگلے 12 برس پاکستان یہ ٹائٹل جیت تو نہ سکا مگر ہمارے کھلاڑی آفتاب جاوید، گوگی علاؤالدین، محب اللہ سینئر اور محب اللہ جونیئر مسلسل اس ایونٹ کا فائنل کھیلتے رہے۔ 1975 میں ایک مرتبہ پھر پاکستانی کھلاڑی قمر زمان نے برٹش اوپن چیمپئن شپ کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ 1976 سے 1981 تک پاکستانی کھلاڑی گوگی علاؤالدین، محب اللہ جونیئر، قمر زمان اور جہانگیر خان نے برٹش اوپن چیمپین شپ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
1982 سے 1997 تک کا 16 سال کا عرصہ بلاشبہ اسکواش کے میدان میں پاکستان کا سنہری ترین دور تھا۔ 1982 سے 1991 تک پاکستان کے اسکواش کے عظیم کھلاڑی جہانگیر خان نے لگاتار 10 برس برٹش اوپن چیمپئن شپ کا ٹائٹل جیت کر اسکواش کے ماضی کے تمام تر ریکارڈ روند ڈالے۔ 1992 میں پاکستان ہی کے ایک اور عظیم کھلاڑی جان شیر خان نے برٹش اوپن اسکواش چیمپئن شپ میں اپنے ہم وطن جہانگیرخان کی کامیابیوں کا سلسلہ توڑا اور یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ 1992 سے 1997 تک لگاتار 6 برس جان شیرخان نے یہ اعزاز اپنے پاس رکھا اور یوں اپنے ہم وطن ہاشم خان کا ریکارڈ برابر کردیا۔
آج سے ٹھیک 21 برس قبل 6 اپریل 1998 کا دن پاکستان میں اسکواش کے کھیل کی تاریخ میں ایک درد ناک موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ 6 اپریل 1998 کو پاکستان کے جان شیر خان برٹش اوپن اسکواش ٹورنامنٹ کے فائنل میں اسکاٹ لینڈ کے کھلاڑی پیٹر نکول سے شکست کھا گئے۔ جان شیر خان اس سے قبل یہ ٹورنامنٹ 6 مرتبہ جیت چکے تھے اور گزشتہ برس انہوں نے یہ ٹورنامنٹ پیٹر نکول کو شکست دے کر ہی جیتا تھا۔ اس ٹورنامنٹ کے بعد آج تک پاکستان کا کوئی کھلاڑی بھی برٹش اوپن اسکواش ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
اسکواش کے کورٹ میں ماضی میں پاکستانی کھلاڑیوں نے ریکارڈ 30 بار سبز ہلالی پرچم لہرایا، آخری بار 1997 میں جان شیر خان نے ٹائٹل جیتا۔ وہ اگلے برس فائنل میں ہار گئے اور کھیل کو خیر باد کہہ دیا۔ اس کے بعد اب تک کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی ٹورنامنٹ کے فائنل میں بھی رسائی نہیں حاصل کرسکا۔ 10بار چیمپئن کا اعزاز اب بھی پاکستان کے سابق سپر اسٹار جہانگیر خان کے پاس ہے۔ ہاشم خان نے 7 اور جان شیر خان نے 6 بار فاتح کا اعزاز پایا۔
پاکستان کے 7 کھلاڑیوں نے یہ چیمپین شپ 30 مرتبہ جیتی جبکہ 25 مرتبہ دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پاکستان کے جو کھلاڑی یہ چیمپئن شپ جیتنے میں کامیاب رہے، ان میں ہاشم خان، روشن خان، اعظم خان، محب اللہ سینیئر، قمر زمان، جہانگیر خان اور جان شیر خان شامل ہیں جبکہ پاکستان کے جو 5 کھلاڑی فائنل میں پہنچنے کے باوجود یہ چیمپئن شپ جیتنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ان میں آفتاب جاوید، محمد یاسین، گوگی علاؤالدین، محب اللہ خان جونیئر اور ہدایت جہاں شامل ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان 14 بار ورلڈ اوپن جیتنے کا منفرد ریکارڈ رکھتا ہے، 8 بار جان شیر خان اور 6 بار جہانگیر خان نے ملک کو سرخرو کیا۔ پاکستانی کھلاڑی ایونٹ میں 9 بار رنرز اپ بھی رہے، قمر زمان 4 مرتبہ فائنل ہارے، جہانگیر خان 3، جان شیر خان اور محب اللہ خان ایک ایک فیصلہ کن معرکہ میں ناکام رہے۔ 14 مرتبہ ایسا ہوا کہ ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلنے والے دونوں کھلاڑی پاکستانی تھے۔
جہانگیر خان اور جان شیر خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی بھی پاکستانی کھلاڑی ٹاپ ٹین تک بھی نہیں پہنچ پایا۔ بیسویں صدی کا دوسرا نصف حصہ، بلاشبہ اسکواش کی دنیا میں پاکستان کے نام رہا لیکن 21 ویں صدی کا جیسے ہی آغاز ہوا پاکستان اسکواش میں اتنا پیچھے چلا گیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ گزشتہ 21 برسوں میں ورلڈ اوپن اور برٹش اوپن میں فتح حاصل کرنا تو درکنار ایشیا کی سطح پر بھی رسوائیاں پاکستان کا مقدر بن رہی ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں اسکواش، ہاکی اور کرکٹ جیسے مشہور کھیلوں میں زوال کا آغاز بیسویں صدی کے آخر ہی میں ہوگیا تھا۔ پاکستان برٹش اوپن اسکواش کا فائنل اپریل 1998 میں اسکاٹ لینڈ سے ہارا، ہاکی چیمپئن ٹرافی کا فائنل نومبر 1998 میں ہالینڈ سے ہارا، جبکہ کرکٹ ورلڈ کپ میں شکست جون 1999 کو آسٹریلیا کے ہاتھوں ہوئی۔
گزرے دو عشروں میں کرکٹ اور کسی حد تک ہاکی کو بھی بچانے کی چند کوششیں کی گئیں جن کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکلا مگر اس سارے عرصے کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ اعزاز دلوانے والے کھیل اسکواش کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ اسکواش کا موسمِ بہار کے مہینے اپریل سے خاص تعلق رہا ہے۔ اسکواش کے کھیل پر بہار اور خزاں، دونوں ہی اپریل کے مہینے میں آئیں۔ کیا ماہ اپریل اور اس بہار کےموسم میں ہم، وزیراعظم عمران خان سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ کرکٹ ڈھانچے کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ، اسکواش پر بھی کوئی نظر کرم کی جائے گی کیونکہ کرکٹ سے کہیں پہلے اسکواش اور کرکٹر عمران خان سے برسوں پہلے اسکواش پلیئر ہاشم خان نے پاکستان کو کھیلوں کا پہلا عالمی اعزاز دلوایا تھا۔