ہم جیسے سوشل میڈیا کے رسیا جنہیں سوشل میڈیا استعمال کیے بنا کھانا ہضم تو درکنار منہ میں صحیح طرح سے نوالہ بھی نہیں لیا جاتا ہر لمحہ فیک نیوز کا سامنا رہتا ہے۔
ایک طرف منہ میں کھانا جس کی لئے انسان ساری تگ ودو کرتا ہے اور سوشل میڈیا کے استعمال کیے بنا کھانے کو بے ذائقہ محسوس کرتا ہے کیسے فیک نیوز سے بچ سکتا ہے۔
بھانت بھانت کے پیجز اور پھر ایڈیٹنگ ایسی کے انسانی عقل دنگ ہی نہیں رہ جاتی بلکہ عقل ساتھ چھوڑ جاتی ہے ہم نا صرف لائک،کمنٹ اور اسکے بعد شئیرنگ کا آپشن تک استعمال کرنے کے بعد بعض اوقات ہر آنے والی فون کال پر بھی اس فیک نیوز کا ذکر یا اپنی محافل میں اس فیک نیوز کو بنا تحقیق کئے یوں پھیلاتے ہیں گویا یہ خبر یا سٹوری اگر آپ نے دوسروں سے ڈسکس یا شئیر نہ کی تو شاید جنت میں داخلہ نہ مل سکے۔
اسکی بنیادی وجہ ہمارے معاشرے میں ہر کام میں دوسروں سے سبقت لینے کی ناجائز خواہش ہے اور اس خواہش کا شکار ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی کئی بار ہو چکا ہے۔ایسی ایسی جھوٹی خبروں کو مرچ مصالحہ لگا کر واشگاف انداز میں پھیلایا گیا کہ پوری قوم اضطرابِ کی کفیت سے دو چار ہوتی رہی۔
کئی نامور شخصیات سوشل میڈیا میں پوسٹوں کے ذریعے یا پھر اپنے بیانات کے ذریعے فیک نیوز کا شکار ہوئے اس عمل کے شکار نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح کی کئی نامور شخصیات اور حکمرانوں بھی رہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال اس حد تک ہو چکا ہے کہ فیسبک کو پاکستان آرمی کے شعبہ ISPR سے متعلق تقریباً 103 اکاؤنٹس کو بلاک کرنا پڑا اور اسکے باوجود بھی آئے روز کئی اور نئے پیجز اور اکاؤنٹس کا وجود پذیر ہو رہا ہے کہ شاید فیسبک اور اس طرح کی سوشل سائٹس کو پہلے سے زیادہ احتیاطی تدابیر متعارف کرانے کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
ہم سب کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح سے ہم ان فیک نیوز سے بچ سکتے ہیں؟کیونکہ ہم کئی مرتبہ اسکا شکار ہوتے ہیں۔اسکا فوری اور آسان حل یہ ہے کہ ہم جب بھی سوشل میڈیا پر کوئی ایسی پوسٹ جس کہ بارے میں حتمی طور پر یقین کی صورتحال نہ ہو اسکو کچھ گھنٹوں یا پھر ایک دو دنوں کے لئے اگنور کرتے ہوئے لائک،کمنٹ اور شیئر کا آپشن استعمال نہ کریں۔
دوسروں پر ناجائز سبقت لیجانے کے عمل کا حصہ بننے سے بہتر ہے کہ خبر کی مکمل تحقیقات کے بعد ہی ایسے تمام آپشنز کا استعمال کیا جائے کہ معاشرے میں نہ تو افراتفری کا باعث بنیں اور نہ ہی شرمندگی اٹھانی پڑے۔
اپنے رویوں میں احساس زمہ داری پیدا کرتے ہوئے جس کا کام اسی کو ساجھے کے تحت اخباری رپورٹر یا ٹی وی رپورٹر کی زمہ داری نبھانے کے بجائے اپنے کام سے کام رکھنے پر توجہ دے کر ایس سرگرمیوں سے بچا جا سکتا ہے جن سے خود بھی ذہنی کوفت کا شکار ہوں اور معاشرے میں بھی جھوٹ کا فروغ عام ہو۔
اسوقت سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بے شمار برے اثرات کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔
اسکی ایک بڑی مثال متعدل پاکستانی معاشرے میں دن بدن مذہبی تفریق پہلے سے ذیادہ ہوتی جارہی ہے۔نا صرف تفریق بلکہ نفرت انگیز پروپگنڈا کی وجہ سے کئی قیمتی جانوں کا ضیاع مثلآ مشال اور افضل کوہستانی اسکے تین بھائیوں کے قتل کی مثالیں پوری قوم کے سامنے ہیں۔
اسکے ساتھ ساتھ صحت کے مسائل بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہوتے جا رہے ہیں مثلاً،جو وقت ہم ورزش یا کسی کھیل میں صرف کرتے تھے وہ اب سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے گزرتا ہے جس سے آنکھوں کی بینائی متاثر ہونے کہ ساتھ وزن بڑھنے سے کئ اور بیماریوں سے بھی واسطہ پڑتا جارہا ہے۔
روحانی طور پر بھی سوشل میڈیا کے بے دریغ استعمال نے نیند،نماز،عبادات میں یکسوئی کو متاثر کیا ہے۔آج معاشرے میں باپ بیٹا بیوی ماں بہن دوست سب ہی سوشل میڈیا پر اتنے مصروف ہیں کہ آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کے بجائے لائک کمنٹ اور شئیر کے آپشن کے ذریعے ایک دوسرے کی خبر رکھتے ہیں۔
اس تحریر کو پڑھنے والے تمام احباب سے درخواست ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال ضرور کریں لیکن اپنی زندگی کے باقی امور کو بھی مناسب توجہ اور وقت دیں۔ذندگی اللہ تعالیٰ کی طرف انمول تحفہ ہے اسکی قدر کیجئے ۔