‘تارکین ِ وطن ‘صرف امریکہ کا ہی نہیں ‘کئی ممالک کے پیچیدہ مسائل میں سے ایک ہے‘جو ان کی معیشت پر بوجھ اور اندرونی سکیورٹی کے لیے بڑا خطرا تصور کیے جاتے ہیں۔بیشتر ممالک ان کے لیے خصوصی پالیسیاں بنا رہے ہیں‘اقوام متحدہ کا ایک الگ ڈیپارٹمنٹ عالمی سطح پر تارکین ِوطن کے حقوق اور مسائل پر کام جاری رکھے ہوئے ہے ۔ 31 اکتوبر 2018ء کو امریکہ نے مزید فوجی اہلکاروں کی میکسیکن سرحد پر تعیناتی کا اعلان کیا ‘جب لاطینی امریکی ممالک کے تارکین ِ وطن پر مشتمل ایک بڑا قافلہ میکسیکو سے امریکہ کی سرحد کی طرف بڑھ رہاتھا۔یقینا یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔
صدر ٹرمپ اس سے قبل کئی بارکہہ چکے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت ان غیر قانونی تارکین ِ وطن کو امریکہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیں گے۔امریکی میڈیا کے مطابق ؛تارکین ِوطن کی بڑی تعداد ‘ مختلف بنیادوں پر پناہ کے حصول کی امید پر‘ امریکہ میں داخلہ چاہتے ہیں۔اسی طرز کی خبریں گزشتہ ہفتے بھی ملیں۔مرکزی امریکی تارکین وطن ‘ایک قافلے کی شکل میںگزشتہ ہفتے میکسیکو کے شہر ” تاپہ چولا‘‘ سے امریکی سرحد کی طرف روانہ ہوتے دکھائی دئیے۔قافلے میں 1500افراد شامل تھے‘امریکی میڈیا کے مطابق ؛قافلے میں حاملہ خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ قافلے کے ساتھ ” چیاپاس ‘‘سیکرٹری برائے شہری تحفظ‘ کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے قافلے کے ہمرا رہے۔امریکی حکام کا کہنا تھا کہ تین ہزار تارکین ِ وطن پر مشتمل ‘ایک دوسرا قافلہ گوئٹے مالا اور میکسیکو کی سرحد پر موجود ہے‘ اس قافلے کی منزل بھی امریکہ ہے۔سرحدوں پر فوج کی تعیناتی امریکہ میں ایک غیر روایتی اقدام سمجھا جاتاہے۔
امریکہ میں سرحدوں کی نگرانی ‘ سرحدوں پر نقل و حرکت پر نظراور اسے منظم کرنے کا کام سول حکام ‘سول سکیورٹی ادارے سرانجام دیتے ہیں۔
میکسیکن سرحد امریکہ ا ور اس کے سکیورٹی اداروں کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے ‘تارکین وطن کی روک تھام کے لیے ‘امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دیوار کی تعمیر کے لیے 5.7 بلین ڈالرز منظور کرنے کا مطالبہ کیا‘ تاہم کانگریس ‘ ڈیموکریٹس دیوار کی فنڈنگ کی منظوری سے مسلسل انکاری ہیں‘ ان کے درمیان ڈیل بھی جاری ہے‘ڈیل میں کیا بات طے پائی‘ اس سے متعلق مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئیں‘ مگرامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح کیا کہ میکسیکو کی سرحد پر ہرصورت دیوار تعمیر کی جائے گی‘ دیوار کی فنڈنگ کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں کیا جائے گا۔ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف امریکا کی مختلف ریاستوں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوچکے ہیں‘ تاہم امریکی صدر اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔
گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیا بیان سامنے آیا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر امریکہ کی جنوبی سرحد بند کردیں گے؛ اگر میکسیکو ‘تارکین وطن کو امریکہ جانے سے روکنے کے لیے مزید اقدامات نہیں کرتا۔سرحد کی بندش سے نا صرف آمد و رفت متاثر ہوگی ‘بلکہ تجارت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود ہے۔امریکی صدر کے بیان کے رد عمل میں ‘میکسیکو کے صدر آندریس مینوئل لوپیز نے کہا ”ہم نہیں چاہیں گے کہ اس معاملے پر انہیں کسی تصادم کی جانب دھکیلا جائے‘‘۔میکسیکو کے وزیر خارجہ مارسیلو ایبرارڈ نے ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ ”امریکہ کے لیے میکسیکو ایک عظیم ہمسایہ ہے‘میں پرُ امید ہوں‘امریکہ ان دھمکیوں کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کرے گا‘‘۔
صدر ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ ”اس بات کے بہت امکانات ہیں کہ میں اگلے ہفتے سرحد بند کردوں‘ یہ میرے لیے بالکل مناسب ہوگا‘‘امریکی صدر کا اندازِ گفتگو جارحانہ تھا۔ٹرمپ نے مزید کہا کہ ” میکسیکو کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ لوگوں کو یہاں آنے سے روکیں ‘مگر وہ ایسا نہیں کرتے‘‘۔اس حوالے سے صدر ٹرمپ کے متعدد ٹویٹس دیکھے گئے‘ جن کا لب لباب یہی تھا کہ امریکہ منشیات کی روک تھام اور میکسیکن سرحد کی سکیورٹی کے لیے بھاری قیمت چکا رہا ہے ‘اگر یہ سرحد بند کی جائے ‘تو انہیں اربوں ڈالر کے اخراجات میں کمی کی صورت میں بچت ہو گی ۔
میکسیکن صدر لوپیز نے جمعرات کو تارکین وطن کے معاملے پر کہا کہ ”میکسیکنزکی روک تھام ‘ان کے بس میں نہیں‘ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے ‘جو میکسیکو کی بجائے وسطی امریکی ممالک سے جنم لیتا ہے ‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ”میکسیکو کا شہری اب ملازمت کے حصول کے لیے امریکہ نہیں جاتا‘ بیشتر تارکین وطن دراصل دیگر دوسرے وسطی امریکی ممالک کے باشندے ہیں۔‘‘گزشتہ روزصدر ٹرمپ کی ٹویٹس منظر عام پر آنے کے بعد‘میکسیکن صدر لوپیز نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘ ‘میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ہم امریکی حکومت سے لڑنا نہیں چاہتے‘ امن اور محبت چاہتے ہیں‘‘۔انہوں نے تارکین وطن کے معاملے کو ‘انسانی حق‘ قرار دیااور کہا کہ وسطی امریکہ میں لوگوں کے پاس کوئی راستہ نہیں‘ اس لیے وہ روزی کمانے کے لیے دوسری جگہوں پر جاتے ہیں۔اس حوالے سے ‘ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹن نیلسن کا بیان بھی سامنے آچکا ہے‘ جس میں کہا گیا کہ سرحدی فورس ‘حیران ہے کہ پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد تشدد سے تحفظ کے لیے ایل سلواڈور‘ ہنڈورس اور گواتیمالا سے امریکہ آرہے ہیں۔
ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی (ڈی ایچ ایس) کے مطابق ؛مارچ میں جن لوگوں کوسرحد پر گرفتار کیا گیا‘ ان کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے‘ جو اس دہائی کی سب سے بڑی تعداد تصور کی جارہی ہے۔ ایک ہزار سے زائد ایسے بچے حراست میں ہیں ‘جن کے والدین ان کے ساتھ نہیں۔امریکہ کی ڈوبتی معیشت میں ان خاندانوں کی کھانے پینے اور دیگر کاموں میں بھاری اخراجات ہو رہے ہیں‘ کانگریس اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور ہے‘تاہم یہ بات بھی واضح نہیں کہ داخلی راستوں کو بند کردینے سے ‘تارکین ِ وطن کی تعداد میں کمی آئے گی‘ کیونکہ بیشتر لوگ غیر سرکاری داخلی راستوں سے ملک میں داخل ہوتے ہیں‘ امریکی زمین پر قدم رکھنے کے بعد قانونی طور پر مدد کی درخواست کرتے ہیں۔امریکی سرکاری ادارے کے مطابق ؛سرحد کی بندش سے‘معاشی طور پرسنگین اثرات مرتب ہوں گے‘ امریکہ اور میکسیکو کے مابین سیاحت وتجارت بھی متاثر ہوگی‘ جس کا حجم گزشتہ سال 612 ارب ڈالر تک ہے‘تاہم کیا امریکہ اس مسئلے کا ٹھوس حل تلاش کر پائے گا‘ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔