پولیس اور شرم و حیا

ثناء نے سب سے پہلی غلطی یہ کی وہ پاکستان میں پیدا ہوگئی، دوسری غلطی اس کی یہ تھی کہ وہ لڑکی پیدا ہوئی اور اس کا تیسرا اور ناقابل معافی جرم یہ تھا کہ وہ ایک کمزور اور غریب گھرانے میں پیدا ہوئی۔ اوّل تو پہلی غلطی کا احساس ہونے کے فوراً بعد ہی اسے چاہیے تھا کہ وہ کسی مغربی ملک میں ہجرت کر جاتی چاہے اس کی ماں ابھی چھلے میں ہی کیوں نہ ہوتی، مگر کوئی بات نہیں، پہلی غلطی تھی سو معاف کرنے میں کوئی حرج نہیں، البتہ دوسری غلطی کی معافی ملنا مشکل ہے۔

غضب خدا کا، لڑکی پیدا ہونا کوئی چھوٹا جرم ہے اور وہ بھی پاکستانی معاشرے میں، اصولاً اسے چاہیے تھا کہ وہ اپنی پیدائش سے قبل اس بات کو یقینی بناتی کہ وہ لڑکا پیدا ہوگی، مگر وہ ناکام رہی، اب اگر ہم رو پیٹ کر اس کی یہ غلطی بھی معاف کر دیں تو ثناء کا تیسرا جرم اس قدر سنگین ہے کہ اس کی معافی دینا کسی کے بس میں نہیں، اور وہ جرم ہے غربت اور لاچارگی۔ ایک غریب اور کمزور گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود ثناء نے ہمت نہیں ہاری اور کچھ نہ کچھ پڑھ لکھ گئی، پڑھائی سے فراغت کے بعد نوکری حاصل کرنے کا مرحلہ درپیش ہوا، خوش قسمتی سے پنجاب پولیس میں کانسٹیبل کی اسامیوں پر بھرتی جاری تھی، ثناء نے بھی درخواست دے ڈالی اور میرٹ پر بھرتی ہوگئی، بطور کانسٹیبل اس کی تربیت پولیس کے تربیتی مرکز میں ہوئی جہاں اس نے بڑی محنت سے تمام مراحل پاس کیے جس کے بعد اس کی تعیناتی کر دی گئی۔

جنوری 2018میں ثناء کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ پاکپتن میں بابا فرید کے دربار میں دوران ڈیوٹی رقص کرتی نظر آرہی ہے، رقص کا لفظ تو خیر میں نے یونہی استعمال کر لیا ورنہ رقص تو دور کی بات اس ویڈیو میں تو لڑکی کی شکل بھی صاف نظر نہیں آرہی، پھر وہی ہوا جس کی امید تھی، دن ہی دن میں ویڈیو وائرل ہوگئی ، پنجاب پولیس میں یوں کھلبلی مچ گئی جیسے ثناء نے جعلی پولیس مقابلے میں چار بندے مار دئیے ہوں، انکوائری کا حکم جاری ہوگیا، گریڈ سترہ کے تین پولیس افسران پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے چار ماہ کی تحقیقات کے بعد کانسٹیبل ثناء تنویر اور امبرین(وہ لڑکی جس نے ویڈیو بنائی تھی)، کو اس جرم کی پاداش میں نوکری سے برطرف کر دیا کہ انہوں نے محکمانہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کی اور محکمے کا تشخص مجروح کیا۔ یہ بات فرشتہ سیرت ڈی پی او پاکپتن نے کہی جو خود بھی ایک خاتون ہیں۔

چلو بہت اچھا ہوا، خس کم جہاں پاک، پولیس فورس کو دو ایسی خطرناک لیڈی کانسٹیبل سے چھٹکارا مل گیا جو مستقبل میں شاید جعلی پولیس مقابلوں میں بےگناہ شہریوں کا قتل عام کر دیتیں، مگر نہیں، ایک منٹ، پولیس میں تو اس وقت بھی لاتعداد افسران اور اہلکار ایسے ہیں جن پر جعلی پولیس مقابلوں کے سنگین الزامات ہیں مگر وہ پورے طنطنے کے ساتھ نہ صرف حاضر سروس ہیں بلکہ کچھ تو پرکشش عہدوں پر بھی تعینات ہیں، تو پھر ثناء اور امبرین کا جرم تو زیادہ سنگین ہوا؟ بےشک۔ جعلی پولیس مقابلے کی معافی مل سکتی ہے، بےگناہ بندے مار کر آپ پولیس میں ہیرو بن سکتے ہیں، مگر ایک غریب لیڈی کانسٹیبل کی اتنی جرأت کہ وہ ڈیوٹی پر غفلت کی مرتکب ہو اور یہی نہیں بلکہ ڈانس کرکے ویڈیو بنائے، اصولاً تو اسے پھانسی کی سزا دینی چاہئے تھی مگر چونکہ فرشتہ سیرت پولیس افسران پر مشتل کمیٹی کے اختیار میں فقط ان بیچاریوں کو نوکریوں سے برخاست کرنا تھا سو وہ انہوں نے کر دیا۔

میری تجویز تو اب یہ ہوگی کہ جن فرشتہ سیرت پولیس افسران نے اس قدر عرق ریزی کے ساتھ اس ویڈیو کی ’’تحقیقات‘‘ چار ماہ میں مکمل کی ہیں انہیں اپنی ڈی پی او صاحبہ کے ساتھ تین انکوائریاں مزید دے دی جائیں تاکہ ایک ہی دفعہ اس ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہو جائے۔ پہلی انکوائری ان فرشتے افسران کو پرویز مشرف کی دی جائے، مجھے یقین ہے کہ پارسائی کے یہ پتلے پرویز مشرف کے خلاف ایسا مضبوط کیس بنائیں گے کہ ان کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگے گے، اس انکوائری کے دوران یہ کسی کے آگے جھکیں گے نہ کسی کے دبائو میں آئیں گے، بالکل اسی طرح جیسے اپنی ڈی پی او کی سرپرستی میں یہ فرشتہ سیرت پولیس والے ثناء اور امبرین کیس میں بھی کسی دبائو میں نہیں آئے(حالانکہ وہ بیچاریاں دبائو ڈلوانے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھیں)، مگر نہیں، میں کچھ غلط کہہ گیا۔

جس زمانے میں پرویز مشرف کا طوطی بولتا تھا اس وقت تو اوپر سے لے کر نیچے تک تمام پولیس افسران اس کے سامنے دست بستہ رہتے تھے، کسی کی مجال نہیں تھی کہ چوں کر سکے، ثبوت اس کا تین نومبر 2007کی ایمرجنسی ہے، ڈکٹیٹر کا حکم آیا کہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو ان کے گھروں میں نظربند کر دیا جائے اور پھر ہم نے دیکھا کہ اس ملک میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو اس پولیس نے غیر قانونی حکم کی تعمیل میں نظربند کر دیا، کاش کہ اس وقت یہ پولیس افسران اتنی ہی ہمت دکھا دیتے جتنی انہوں نے آج ثناء اور امبرین کے کیس میں دکھائی ہے تو شاید ہماری تاریخ کچھ مختلف ہوتی۔

اصل میں قصور ان فرشتہ سیرت پولیس افسران کا نہیں، ہم سب کا ہے، ہمارا تمام میرٹ، تمام اصول وقواعد اور ڈسپلن وہاں فراٹے بھرتا ہوا لاگو ہو جاتا ہے جہاں ہمیں یقین ہو کہ اس غریب کی کوئی سفارش نہیں ہوگی، ثناء اور امبرین کا کیس اس کا ثبوت ہے، کانسٹیبل سے نیچے عہدہ کوئی نہیں اور غربت سے بڑا جرم کوئی نہیں لہذا نکال باہر کرو ان لڑکیوں کو جنہوں نے ہمارے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی شہرت کو داغ لگایا ہے ، گویا پولیس کی شہرت جعلی پولیس مقابلوں، بے گناہ شہریوں پر تشدد اور سرعام شریف لوگوں کو ذلیل ورسوا کرکے اتنی خراب نہیں ہوئی جتنی ان دو لڑکیوں نے کر دی ہے۔ خود ساختہ راست باز پولیس افسران پر مشتمل انکوائری کمیٹی کو دوسرا کیس راؤ انوار کا دینا چاہیے اور اگر اس کیس کی تفتیش کی ہمت بھی یہ کمیٹی نہ کر سکے(جو یقیناً نہیں کر سکے گی) تو پھر عابد باکسر کا کیس انہیں دے کر دیکھ لیں، شاید یہ تھوڑی بہت ہمت دکھا سکیں، ورنہ اپنے کندھوں پر تمغے سجانے کے لیے ثناء اور امبرین کا کیس تو ہے ہی۔

میرا مقدمہ یہ نہیں کہ ثناء اور امبرین نے ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کی، یقیناً انہوں نے کی مگر جو سزا انہیں دی گئی وہ وہی سزا تھی جو کسی بھی اور سنگین جرم میں ملوث کسی پولیس والے کو دی جاتی، گویا ہمارے معاشرے کی برادشت کا عالم اب یہ ہوگیا ہے کہ اگر کوئی لیڈی کانسٹیبل رقص کرکے ویڈیو بنائے تو اسے اتنا سنگین جرم سمجھا جائے کہ نوکری سے برخواستگی کے علاوہ جس کی اور کوئی سزا ہی نہ ہو۔ پولیس قواعد کے مطابق ڈسپلن کی خلاف ورزی پر نرم اور سخت مختلف قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں، جن میں تنبیہ سے لے کر نوکری سے برطرف کرنا شامل ہے، زیادہ سے زیادہ دونوں لڑکیوں کو تنبیہ کرکے چھوڑا جا سکتا تھا، مگر چونکہ ان کی کوئی سفارش نہیں تھی، ان کے پیچھے تین نومبر جیسے ڈنڈے کی طاقت نہیں تھی سو ہم نے سوچا کہ یہ اچھا موقع ہے اپنی ساکھ بہتر بنانے کا، سارا قانون انہی دونوں پر لاگو کردو، نشانہ عبرت بنا دو انہیں تاکہ آئندہ کوئی پولیس فورس میں ڈسپلن کی خلاف ورزی کا مرتکب نہ ہو۔ ’’شرم ہم کو مگر نہیں آتی۔‘‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے