طاقت کا تصور ایک پیچیدہ تصور ہے۔ مختلف ادوار میں اس کی مختلف توضیحات کی گئیں ۔اکثر توضیحات میں طاقت کا مشترک وصف لوگوں یا واقعات کو کنٹرول کرنے کی اہلیت یا حق ہے ۔انسانی تاریخ میں اکثر دوسروں کو کنٹرول کرنے کے لیے بے رحمانہ طاقت کا استعمال کیا گیا۔ ایک زمانے میں طاقت کا مطلب فوجوں کی کثیر تعداداور خون آشام ہتھیارہوتے تھے‘ رفتہ رفتہ اس حکمت عملی میں تبدیلی آتی گئی اور اب فوجوں کی کثیر تعداد کی بجائےSoft Power کا تصور سامنے آیا ہے۔ ایک چیز جو تاریخ میں ابھی تک نہیں بدلی وہ طاقتور ممالک کی دوسرے ممالک پر کنٹرول کی خواہش ہے۔ایک طویل عرصے تک کنٹرول اور بالادستی کی اصطلاحات طاقت کے استعمال سے وابستہ تھیں۔اطالو ی مفکر انتونیوگرامچی نے اپنی اہم کتاب ــPrison NoteBookمیں بالا دستی کے حصول کا ایک مختلف نظریہ پیش کیا ۔
اس کے مطابق بالادستی کے حصول کے دو معروف طریقے ہیں‘ پہلا پولیٹیکل سوسائٹی کے ذریعے اور دوسرا سول سو سائٹی کے توسط سے ۔ پولیٹیکل سو سا ئٹی میںریاست طاقت ”قانونی‘‘ طور پر استعمال کرتی ہے‘تا کہ معاشرے میں ان گروہوں کو لگام دی جا سکے ‘جو ریاست کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے ۔بالادستی کا دوسرا طریقہ سول سوسائٹی کے ذریعے ہے‘ اس میں طاقت کا استعمال نہیں کیا جا تا۔ اس طریقے میں مختلف گروہوں کو ان کی ”رضا مندی‘‘ سے تسخیر کیا جا تا ہے۔ تسخیر کے اس عمل میں زورآو ر گروہ معاشرے میں اپنی بہتر حیثیت کی بدولت معاشرے کے کمزور گروہوں کی سوچ کو تسخیر کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کمزور گروہ ذہنی طور پر زور آور گروہوںسے اس قدر مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کا اپنی اقدار ‘ اپنی زبان‘اپنے ادب‘اپنے کلچر ‘اپنے طرزِتعمیر اور اپنے ماضی سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اور وہ زورآور گروہوں کو خود تسخیر کی دعوت دیتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک زور آور گروہ ہر لحاظ سے اعلیٰ اور ارفع ہوتے ہیں اور ان کا تسلط کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔
گرامچی کے مطابق بالادستی کے لیے سول سوسائٹی کا طریقہ زیادہ موثر ہے۔اس میں طاقت کا استعمال بھی نہیں ہوتا اور ذہن اس طرح تسخیر ہو جاتے ہیں کہ وہ حکمرانوں کے خیالا ت میں رنگے جاتے ہیں۔یوں طاقت کے ساتھ کنٹرول کے علاوہ اثرو رسوخ کا عنصر بھی شامل ہے۔اس پاور کا نیا مفہوم دوسر و ں کے برتائو ‘ افعال اور انتخاب کو متاثر کرنے کی اہلیت کا نام ہے۔سٹیون لوک اپنی کتاب Power:A radical view میں پاور کے تین پہلوئوں کا ذکر کرتا ہے۔ پہلے دو پہلوئوں کا تعلق فیصلہ سازی اور ایجنڈا سیٹنگ سے ہے۔اس کا تیسرا پہلو نظریات ‘تصورات اور Norms کی تشکیل سے ہے۔
اس طرح ان کے تصورات کو تسلیم کر لیتے ہیں اور ترجیحات کی یوں تشکیل کر لی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں اپنے کردارکو تسلیم کر لیں کیوں کہ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس کردار کا کوئی نعم البدل نہیںیا پھر یہ کردارہی فطری ہے اور قدرت کی طرف سے عطا کردہ ہے ۔طاقت کے تیسرے پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے Luke کا کہنا ہے : کیا یہ طاقت کادزدیدہ اظہار نہیں ہے کہ لوگو ں کو شکایات (چاہے کسی درجے تک) سے روک دیا جائے ۔طاقت کے تصور کا یہ پہلو گرامچی کے بالادستی کے اس تصور سے قریب ہے ‘جس میں لوگوں کی سوچ کو اس حد تک تسخیر کر لیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ـ”رضامندی‘‘ سے بالادستی کے اس عمل کو قبول کر لیتے ہیں۔
معروف فرانسیسی مفکر فوکو ((Focault نے بھی پاور پر بحث کی ہے۔ علم کی تاریخ پر اپنی تحقیق کے دوران اس پر انکشاف ہوا کہ انسانی تاریخ میں علم اور طاقت کا گٹھ جوڑ رہا ہے۔ فوکو کے مطابق جوں جوں انسان علم کے زینے طے کرتا ہے پاور اور کنٹرول کے نت نئے طریقے بھی ایجاد کرتا ہے ۔ عصرِحاضر میں روایتی طور پر متشدد طاقت کا استعمال کر کے دشمن کا قلع قمع کرنے کے بجائے جدید ٹیکنالوجی سے کنٹرول کرنے کی نئی حکمتِ عملی بنائی گئی ہے۔
اپنی معروف کتاب Discipline and Punish میںفوکو طاقت کے جدید تصور کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس کے استعمال سے وہ لوگ تجویز کردہ طریقے سے کام کرتے ہیں۔یوں طاقت کے جدید تصور سے لوگوںکے ذہن پوری طرح مسخر ہو جاتے ہیںاور ان کے جسم ”Docile Bodies‘‘ یعنی ہدایات کو فی الفور قبول کر لینے والے اجسام میں بدل جاتے ہیں۔ علم اور طاقت کی تکنیک پہلے جیلوں‘ فیکٹریوں اور سکولوں میں استعمال کی گئی اور اب زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اس کا استعمال عام ہے۔ یوں طاقت کا منبع اب روایتی ہتھیار نہیں علم اور اس سے جڑا ہوا Discourse ہے۔طاقت کا جدید تصور ایک پراسیس ہے لہٰذاآج کا زورآور کل کا کمزور اور آج کا کمزور کل کا زور آور ہو سکتا ہے۔طاقت کے اس غیر مستحکم تصور میں مزاحمت کے امکانات چھپے ہوتے ہیں۔ فوکو اپنی کتابHistory of Sexuality میں مزاحمت کے انہی امکانات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
طاقت کا جدید تصور اس لیے اہم ہے کہ یہ طاقت کا ارتکاز ایک جگہ پرنہیں کرتا اس تصور میں طاقت کے ذرائع مختلف نیٹ ورکس کی شکل میں ہمارے چاروں طرف موجود ہیں۔ رجائیت کا یہی پہلو مزاحمت کرنے والوں کے راستے کا چراغ ہے۔اس سارے پس منظر میں ہم اپنے تعلیمی اداروں میں تعلیمی عمل کا جائزہ لیں تو انکشاف ہوتا ہے کہ تنقیدی سوچ اور تفکر کی وہ صلاحیتیں جو مستقبل میں طاقت کے توازن کا یقین کریں گی ہمارے تعلیمی نظام میں عنقا ہیں۔ بیشتر تعلیمی اداروں کے نصاب فرسودہ اور کتابیںبے کشش ہیں۔امتحانی نظام صرف یادداشت کا امتحان ہوتا ہے۔
کلاس رومز میں سوالات کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ ہمارا امتحانی نظام اور ہمارا طریقہ تدریس مل کر تخلیقی صلاحیت کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔طلباکی ایک کثیر تعداد اچھے گریڈز لے کر پاس ہو جاتی ہے‘ لیکن ان میں سے کتنے ہیں ‘جن سے جدتِ فکر کی توقع کی جا سکتی ہے؟استاد کی رائے سے اختلاف ایک ناقابل معافی جرم بن جاتا ہے ‘یوں ہمارے بیشتر تعلیمی اداروں سے ایسے طالب علم تیار ہوتے ہیں‘جو معاشرے میں جا کر رہٹ کے بیل کی طرح دائروں میں گھومتے رہتے ہیں۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہمارے ہاںباصلاحیت بچوں کی کمی ہے ‘یہی بچے جب باہر کی یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں تو ان کے جوہر سامنے آتے ہیں اور ان کا شمار کلاس کے بہترین بچوں میں ہوتا ہے‘ ضرورت اس بات کی ہے پاکستان کے تعلیمی نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے‘ جس میں انفرادی آزادی‘تخلیقی سوچ کی حوصلہ افزائی اور بنیادی انسانی اقدار کی نشونما شامل ہو۔
موجودہ صدی علم کی صدی ہے‘ ہمارے تعلیمی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طالب علموں میں نئی سوچ کے چراغ جلائیں‘ انہیں آزادی ِفکر اور آزادیِ رائے کی لذت سے آشنا کریں۔ ایسے ہی طلبا تعلیمی اداروں سے نکل کر اس معاشرے کے شہر ی بنیں گے‘ جن کی تحقیق معاشرے کے معاشی اور معاشرتی مسائل سے جڑی ہو گی اور جو علم کا پرچم تھامے پاکستان کا نام ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرائیں گے۔
موجودہ صدی علم کی صدی ہے‘ ہمارے تعلیمی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ طالب علموں میں نئی سوچ کے چراغ جلائیں‘ انہیں آزادی ِفکر اور آزادیِ رائے کی لذت سے آشنا کریں۔