تہہ در تہہ بے حسی اتنی ہے کہ چونکنا تو دور کی بات، اس ٹائپ کی خبروں پر کوئی ایک نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا کیونکہ ہمارے معاشرہ میں اس بدترین لعنت کو پرکاہ جتنی اہمیت بھی نہیں دی جاتی حالانکہ اک جدید ترین ریسرچ کے مطابق قوموں کے عروج و زوال میں یہ رویہ فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہے۔ کمال یہ کہ نماز کے ’’مقاصد‘‘ میں بھی سرفہرست ہے یعنی ’’پابندیٔ اوقات‘‘ جسے پنجابی زبان کے اس محاورے کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے یعنی ’’ویلے دی نماز تے کویلے دیاں ٹکراں‘‘ہمارے معاشرہ میں دیگر ETHICSکا جو حال ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے لیکن WORK ETHICSکا تو سرے سے وجود ہی نہیں حالانکہ قوموں کے عروج و زوال میں اسی کا کردار انتہائی بنیادی اور کلیدی ہے۔مجھے یہ ساری باتیں یہ خبر پڑھ کر یاد آ رہی ہیں کہ افسروں اور اہلکاروں کے تاخیر سے کام پر آنے کی عادت بھی ریلوے کی تباہی کا بڑا سبب ثابت ہوئی ہے جس سے تنگ آ کر ریلوے ہیڈ کوارٹرز میں حاضری کے لئے بائیو میٹرک مشینیں لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مشینیں نصب کرانے کے لئے ٹینڈرز جاری کر دیئے گئے ہیں جس سے افسروں اور اہلکاروں میں ’’تشویش‘‘ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ڈویژنل دفاتر میں بھی بروقت حاضری کے لئے رجسٹر رکھے جائیں گے جنہیں دفاتر کھلنے کے بعد اٹھا لیا جائے گا۔ لیٹ آنے پر پورےدن کی تنخواہ کے کٹنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے حالانکہ سزا اس سے کہیں کڑی ہونی چاہئے۔یہ ہے حال اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اک ڈوبتے ہوئے تباہ حال ادارے کا جس کے بیشمار لوگ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی بھرپور پریکٹس بھی کرتے ہوں گے، ثواب کمانے کے لئے آئوٹ آف دی وے بھی جاتے ہوں گے مگر بدقسمتی سے یہ نہیں جانتے کہ اوقات کار میں کمی بیشی بھی کم تولنے، جھوٹ بولنے، ملاوٹ کرنے کی ہی ایک مکروہ ترین شکل ہے۔ یہاں مجھے 80کی دہائی میں ملنے والا ایک امریکن جم گونسکی یاد آتا ہے جو ریاض سعودی عرب میں میرا کولیگ تھا۔
سوا چھ فٹ قد کا یہ گورا ’’چیوانگ تمباکو‘‘ کھانے کی وجہ سے میرا دوست بن گیا اور کچھ عرصہ بعد ہمارے درمیان گاڑھی چھننے لگی۔ جم گونسکی دراصل فارم منیجر تھا اس لئے ریاض سے ذرا فاصلہ پر ’’الخرج‘‘ نامی شہر میں ہوتا لیکن ہم اکثر ریاض اور الخرج کے درمیان شٹل کرتے رہتے۔ اسی دوران اس کا بیٹا امریکہ سے اسے ملنے آیا تو اس نے بڑے اہتمام سے اسے مجھ سے ملوایا۔ انہی دنوں ایک دن میں فارم پر تھا، جم ڈرلنگ کے کام میں مصروف تھا کہ اس کا اکلوتا ہینڈسم بیٹا بھی وہاں آ گیا اور اس نے ’’ڈیڈ‘‘ کو دو تین آوازیں لگائیں لیکن جم نے ہر بار سنی ان سنی کر دی۔ لڑکا باز نہ آیا بلکہ زیادہ اونچی آواز میں باپ کو بلانے لگا کہ شاید مشینوں کی گڑگڑاہٹ کے باعث باپ سن نہیں پا رہا۔
تنگ آ کر جم قریب آیا اور گالی دیتے ہوئے کہا کیا تم اندھے ہو اور دیکھ نہیں سکتے کہ میں کام میں مصروف ہوں، نوجوان لڑکے نے ’’سوری‘‘ کہا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے برا منائے بغیر واپس اپنے کنٹینر کی طرف پلٹ گیا کہ ان دنوں ابھی کنٹینرز میں ہی رہائش ہوتی تھی۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ امریکنوں کے درمیان بعض گالیاں گالی کم اور تکیہ کلام زیادہ ہیں۔یہ ہے WORK ETHICSکی اک معمولی سی جھلک کہ انسان کا بچہ کام میں مگن ہو تو ’’ہیلو‘‘ کا جواب دینا بھی ’’گناہ‘‘ سمجھتا ہے۔ گناہ و ثواب کی اقسام ہی شاید اقوام کی تقدیروں کے فیصلے کرتی ہیں۔
کچھ قومیں سپر پاورز کا درجہ پا لیتی ہیں اور کچھ کے ’’دیوالیہ‘‘ ہونے کی خبریں گرم رہتی ہیں۔کرپشن کی فہرست بہت طویل ہے اور مالی کرپشن صرف اس کا ایک حصہ ہے۔ اوقات کار میں ڈنڈی مارنا بھی خیانت اور کرپشن ہے جس کا ہمارے ہاں تو تصور ہی موجود نہیں۔ پرائیویٹ اداروں میں ڈنڈا سر پر ہونے کی وجہ سے نہ کوئی جرأت کر سکتا ہے نہ کرتا ہے اور اسی لئے ان کا انجام سٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے وغیرہ جیسا نہیں ہوتا جبکہ سرکاری اداروں میں یہ خیانت بھی اپنے عروج پر ہے اور المیہ ملاحظہ ہو کہ اسے خیانت سمجھا بھی نہیں جاتا بلکہ سچ پوچھیں تو یہاں خیانت کو بھی خیانت کم ہی سمجھا جاتا ہے۔ کسٹمز میں تو رشوت کے لئے باقاعدہ ’’سپیڈ منی‘‘ کی باعزت اصطلاح استعمال ہوتی ہے یعنی یہ حرام نہیں تیزی سے کام کرنے کا انعام ہے۔اوقات کار کے ساتھ ٹمپرنگ کرنے والا بھی بدکار اور بدکردار ہی ہوتا ہے لیکن کوئی اس کا شعور تو دے… ہماری تو ساری ترجیحات ہی مہذب دنیا سے یکسر مختلف اور نرالی ہیں۔