امریکی سرمایہ داری کی بقاء اور اخلاقی اقدار…(1)

2020ء میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم کے گردایک بڑا خلاء موجود ہے۔ماحولیاتی پالیسیاں‘ قومی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر کافی حد تک تبدیل ہوئی ہیں۔”معاشرتی‘‘ لیبل کو بائیں اور دائیں کیا جا رہا ہے ‘جس کی وجہ سے امریکی سرمایہ داری کی بقاء اور اخلاقی اقدارکے بارے میں سوال اٹھ رہے ہیں۔ عالمی سطح پر مقابلے کے لیے نئی پالیسیاں ترتیب دی جا رہی ہیں‘جن میں ایندھن سر فہرست ہے۔ یقینی طور پر یہ مسائل نئے نہیں ‘ فی الحال فرائض اوران کی تکمیل کے حوالے سے غیر معمولی درجوں پر بحث جاری ہے۔

جغرافیائی طور پر نظر ڈالیں‘ہم بچوں کو اعلی تعلیم کا تعاقب کرنے اور ان کے مستقبل کو ترجیح دیتے ہیں‘یہ حقیقت بھی ہے۔بہت سے دیہی علاقوں سے علم کی پیاس بجھانے کے لیے عوام شہروں کا رخ کر رہے ہیں‘شہری آبادی میں اضافہ روز بروز بڑھنے لگا ہے‘ ایک ہی وقت میں‘ جدید طب اور مجموعی طور پر صحت مند رہنے کے لئے‘میڈیکل سائنس میں ترقی ‘نئی تحقیق جاری ہے۔ریٹائرمنٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد ‘کارکنوںکے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے‘ وہ65 سال کی عمر میں پنشن کی ادائیگی کی توقع رکھتے ہیں۔ حکومتوں کے پاس ابھی تک بڑے مالی بوجھ کو کم کرنے ‘ اسے نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے کندھوں پر منتقل کرنے کے بارے میں کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔

1970 ء کے عشرے کے آغاز سے آٹومیشن کی شرح ‘مسلسل تیز رفتار میں بڑھ رہی ہے ‘ ایک ہی وقت میں‘ بین الاقوامی تجارتی روابط گہرے ہوئے ہیں۔1980 ء کے آغاز سے چین کے صنعتی پاور ہاؤس کے ساتھ‘ ترقی پذیر دنیا نے کاربن کے اخراجات کے ساتھ ساتھ خوشحالی کی مجموعی سطح پر کئی تجربات کیے‘ غیر ملکی کمپنیاں دنیا بھر میں کارپوریٹ سپلائی زنجیروں کے ویب میں داخل ہوئی ہیں۔مارکیٹوں میں 8‘ 10 یا اس سے بھی زیادہ 15 فیصد تک مجموعی گھریلو مصنوعات کی شرح میں اضافہ ہوا۔ ”ابھرتی ہوئی مارکیٹوں‘‘ کی اصطلاح پیدا ہوئی‘ واشنگٹن کے نقطہ نظر سے‘ عالمی سرمایہ کار کمپنی ” بونانزا‘‘ کے راستے میں کئی مقابلہ دارآ کھڑے ہوئے۔آزاد خیال اور قدامت پسندوں نے اسی طرح تبلیغ کی ہے‘ ایک سرمایہ دارانہ ماڈل کی فضیلت نے ‘دنیا بھر میں‘ طاقتور جمہوری قوتوں کو بدلنے کے لیے نئی راہیں ہموار کیں‘ جہاں تک امریکی صارفین سستی مصنوعات تک رسائی حاصل کر رہے تھے‘ اس میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ۔ 1970ء سے خاص طور پر‘ امریکی خفیہ ادارے‘ قانونی طور پر‘چھوٹے کاروباری افراد کی حفاظت کے نام سے‘ نجی معاملات میںزیادہ مداخلت کا باعث بنے‘جس سے کئی مسائل پیدا ہوئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد تین عشروں میں‘ امریکی پیداوار اور تنخواہوں کے تناسب میںاضافہ ہوا‘نوکریوں‘ کارکنوں اور حکومت کے درمیان ‘ایک نسبتاً مستحکم معاشرتی معاہدے نے نوکری سے متعلق ‘ صحت کی دیکھ بھال کی بنیاد پر‘ ایک نیاامریکی نظام قائم ہوا‘لیکن اس رجحان کو1970ء کے ابتدائی دنوں میں‘وقفے وقفے سے دیکھا گیا۔ اوسط امریکی مزدور کے لئے گھنٹہ وار اُجرت میں اضافہ ہوا‘ پیداوار بھی بڑھتی ہوئی دیکھی گئی۔

اقتصادی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق؛ 1973ء سے 2017ء تک‘ امریکی پیداوار میں 77 فی صد اضافہ ہوا‘ عام کارکن کا گھنٹہ وار معاوضہ بڑھ کر 12.4 فی صد تک رہا۔اس عمل سے درمیانی اور کم آمدنی والے کارکنوں کی اجرت کو مستحکم کیاگیا‘زیادہ تر امریکی ویسے ہی مالدار ہیں۔اقتصادی تحقیقات کے نیشنل بیورو برائے اقتصادی تحقیقات کے ” جابریل زیکمان‘‘ کے مطابق؛اپنے ذاتی گھر رکھنے والے امریکیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں دیکھا گیا‘ان کی تعداد اوسطاً دنیا کی مقابلے میں کم رہی۔ 1980ء کے عشرے کے بعد سے ان کی تعداد میںتھوڑا بہت اضافہ ہوا ۔ یہ ایک پریشان کن پس منظر ہے ‘ نوجوان امریکیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جو یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے خواہاں ہیں‘قرض لینے والوں کی تعداد میںبھی اضافہ دیکھنے کو ملا ۔قرض لینا 1980ئکے مقابلے میں‘ آج زیادہ آسان ہے‘شرائط میں نرمی برتی گئی۔ صارفین کے پیٹرن میں تبدیلیاں اور زندگی کے فیصلے میں اس رجحان کو فروغ دینے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے‘ ریٹائرمنٹ سے تو کئی نہیں بچ سکتا ‘مگر بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسے موزوں پلیٹ فارم بنایا گیا۔حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکی عوام سیاسی مباحثوںسے‘ آگے بڑھتے ہوئے‘ ماحولیاتی پالیسی کوقابوکرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ کافی تعداد میں تعلیم یافتہ ہیں اور وہ اپنی زندگی کے اندر گلوبل وارمنگ کے سنگین اثرات سے نمٹنے کے لیے ‘اس کا حل جانتے ہیں۔

2018ء کے گیلپ سروے کے مطابق؛گلوبل وارمنگ کے بارے میں 18 سے 34 سال کی عمر میں 70 فی صد امریکی آگاہ ہیں‘حال ہی میں زیادہ گلوبلائزڈ معیشت میں اضافہ دیکھا گیا‘ جس کی بدولت امریکہ میں زیادہ تر ساحل سمندر کے مرکز میں ‘بڑے پیمانے پر معاشی فوائدحاصل کیے گئے‘ آبادی کی ترقی کو فروغ ملا‘ جبکہ ”سیسپی بیسن‘‘ پر مشتمل امریکی مڈویسٹ کااستحکام خطرے میں دیکھا گیا۔ 2016ء میں صدارتی مہم کے دوران‘ میڈ ویسٹ میں شہری ووٹروں نے حالیہ عشروں میں قابو پانے والے صنعتی شعبوں کو دیکھا‘ جو تجارتی تحفظ پر مبنی سیاسی ایجنڈا کے اہم سامعین بن گئے ہیں‘ جس کے نتیجے میں اپنے دیہی ہم منصبوں کے عمل سے‘ امریکی زراعت کا بنیادی مقصد وجود میں آیا۔تجارت کی واپسی‘غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ہیر پھیر سے بچنے کے لیے‘ آزاد تجارت کے معاہدوں کو فروغ دیا گیا‘ عوام کے وعدوں پر بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال نے ‘ سیاست کو کئی گنا زیادہ طاقتور بنا دیا ہے‘لیکن حال ہی میں پالیسیوں کا اسر نوع جائزہ لیاگیا‘دنیا بھر میں معیشت پر انحصار کرنے اور تجارتی رکاوٹوں کو دوبارہ بحال کرنے کے لئے پالیسیوں کونئے سرے سے ڈیزائن کیا گیا۔ قواعد و ضوابط کی بنیاد پر ٹریڈنگ آرڈر ” پوسٹر‘‘ کے دور سے باہر ہوا‘جسے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی طرف سے تیار کیا گیا۔

امریکہ میں مسلسل سیاسی فریکچرنگ اور فرائڈنگ سماجی معاہدے ‘ایک ایسے وقت میں ہوئے‘ جب واشنگٹن بین الاقوامی مقابلے میں مشغول ہے ۔جیسا کہ گزشتہ نصف صدی میں چین کی سپلائی زنجیروں نے‘ دنیا کوایک کمبل میں لپیٹا ہوا ہے‘ چین کی فوج نے اس کی معیشت کے ساتھ مل کر ترقی کی اور امریکی عالمی پرائمری کو چیلنج شروع کر دیا۔

اگلے دس عشروں کے دوران‘ تائیوان میں ایک ممکنہ تنازعہ کو بنیاد بنا کر‘ عالمی سطح پر نیا تنازعہ پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں‘ دونوں اقتصادی عطیات کے درمیان تکنیکی استحکام کی دوڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔بیجنگ قومی وسائل کے اعتبار سے طاقتور ہے‘ جسے عالمی سطح پر مصنوعی انٹیلی جنس کی ترقی میں‘ دنیا کے رہنما کے طور پر جانا جاتا ہے ‘ جبکہ مغربی لبرل آرڈر کے بدلے ‘حکومتوں کو ڈیجیٹل اتھارٹی ازم کی آزمائشی ماڈل پیش کرتا ہے۔ (جاری)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے