ابھی کچھ دیر پہلے ٹوئیٹر پر وزیراعلیٰ پنجاب کا ویڈیو کلپ دیکھا ‘جس میں وہ راولپنڈی کی پناہ گاہ کا دورہ کررہے تھے۔ اس ٹوئیٹ میں لکھا تھا: وزیراعلیٰ پناہ گاہ میں جا کر عام لوگوں سے گھل مل گئے اور ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا ۔ویسے حکمرانوں کو عام لوگوں سے گھلنے ملنے کے لیے اسلام آباد کے سستے اتوار بازار اورراولپنڈی کی پناہ گاہیں ہی کیوں چنی جاتی ہیں؟
جب ٹی وی چینلز نئے نئے کھل رہے تھے تو روز ٹی وی رپورٹرز نے کیمرہ لے کر نکلتے اور پنڈی میں پھر پھرا کر عام لوگوں سے کمنٹس لے کر چلاتے تھے۔ ان سب کی دوڑ پنڈی تک تھی کہ قریب تھا اور دو تین گھنٹوں میں کام ہوجاتا تھا ۔ برسوں تک یہی چلتا رہا۔ کبھی ہمارے رپورٹرز پنڈی سے باہر نہ نکلے۔ لگتا تھا سب مسائل پنڈی میں ہیں‘ باقی پورے ملک میں سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے بھی اس کام کے لیے اتوار بازار اور پنڈی کی پناہ گاہوں کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔
ایک دن وزیراعظم شوکت عزیز کو شوق چرایا کہ وہ عام لوگوں میںگھل مل جائیںاور اپنی حکومت کے فوائد اور مقبولیت کا جائزہ لیں۔ اس کام کے لیے بیوروکریسی کو ٹاسک دیا گیا کہ بتایا جائے موصوف کو کہاں لے جایا جائے ‘جہاں ان کی جان بھی محفوظ رہے ‘ان پر کوئی جملہ بھی نہ کسا جائے اور عوام میں بھی بلے بلے ہوجائے۔ بیوروکریسی ایسے کاموں میں بڑی ماہر ہے۔ انہیں پتا ہوتا ہے کہ حکمران کیا چاہتاہے ۔ مطلب یہ کہ زیادہ مشکل بھی نہ ہو اور مشہوری بھی ہوجائے۔ اس کے لیے ہمیشہ اتوار بازار کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ پھر سوچا جاتا ہے کہ اب کن کن صحافیوں کو ساتھ لے کر جانا ہے‘ جنہوں نے موصوف کی عظمت اور مقبولیت کے کارنامے عوام کو بتانے ہیں‘ جن کا پتہ عوام کو ہے نہ وزیراعظم کو۔ ان صحافیوںنے دو تین باتیں ضرور لوگوں کو بتانی ہوتی ہیں کہ وزیراعظم کو اپنے درمیان پا کر لوگ حیران رہ گئے۔ خوشی سے خریداری کرنا بھول گئے۔ وزیراعظم کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ عوام نے وزیراعظم کے ساتھ فوٹو بنوائے۔ وزیراعظم نے موقع پر چند غربا کی مدد کی بھی ہدایت کی۔ افسران کو بتایا کہ مہنگائی کم کی جائے۔ ذخیرہ اندوزوں کو سزائیں دی جائیں۔
عوام کو سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اور جب وزیراعظم روانہ ہونے لگے تو لوگوں نے ان کے حق میں نعرے لگائے۔ اس کے لیے بڑی احتیاط کے ساتھ صحافیوں کو انتخاب کیا جاتا ہے کہ کوئی ایسی خبر یا بات نہ رپورٹ ہو جائے جس سے وزیراعظم پر کوئی حرف آئے۔ یہی ہوا۔ شوکت عزیز کو کراچی کمپنی اسلام آباد لے جایا گیا ۔ ان کے لیے اتوار بازار کا خطرہ مول نہ لیا گیا۔ انہیں ایک سرکاری سٹور پر لے جایا گیا‘ اور وہاں عوام بھی موجود تھے۔ پھر وہی ہوا‘ کہ عوام اپنے محبوب وزیراعظم کو اپنے درمیان پا کر خوشی سے پھولے نہ سمائے اور وزیراعظم کے ساتھ تصویریں بنوائیں ۔ شام کے خبر نامے میں ویڈیو چل گئی کہ دیکھیں آپ کا وزیراعظم آپ کا کتنا خیال رکھتا ہے اور سٹور پر اشیا کی قیمتیں چیک کرتا رہا۔ اسی مقبول وزیراعظم کو پاکستان سے گئے بارہ برس گزر گئے لیکن دوبارہ اپنے ملک میں قدم رکھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ اپنی مقبولیت چیک کرتے۔
پھر نواز شریف وزیراعظم بنے تو انہیں بھی یہی شوق ہوا کہ عوام میں گھلا ملا جائے۔ پھر وہی ہوا‘ ان کے لیے اسلام آباد کے ایک بازار کا انتخاب کیا گیا۔ وہی پرانی مشق دہرائی گئی ‘وہاں کون کون لوگ ہوں گے‘ کس کس کو وزیراعظم سے عام گاہک کے طور پر ملایا جائے گا ‘ کیا باتیں ہوں گی‘ کون کون سے صحافی ساتھ ہوں گے جو واپسی پر وزیراعظم کی عوام میں مقبولیت کی دیومالائی کہانیاں اپنے ناظرین اور قارئین کو سنائیں گے۔ رات کو تمام چینلز وہی ویڈیوز چلائیں گے کہ وزیراعظم بازار میں عام لوگوں سے گھل مل گئے۔ ان کی شکایتیں سنیں‘ موقع پر احکامات جاری کیے۔ انتظامیہ کو مزید سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ دو تین غریبوں کی جیب سے مدد کی۔ روانہ ہونے لگے تو عوام میں زندہ باد کے نعرے لگ گئے۔
شہباز شریف نے اس ڈرامہ سٹائل کو بالکل نئی سائنس بنا دیا ۔ انہوں نے ہیلی کاپٹرز کا بے دریغ استعمال کیا ۔ ان کا بھی یہی کام تھا کہ چند صحافیوں کو ہیلی کاپٹر میں بٹھائو‘واپسی پر وہ ان کی عظمت کی کہانیاں لکھتے کہ ان کا حکمران رات کو بھی نہیں سوتا ۔ ایک دفعہ مجھے فون آیا کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف چاہتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر بہاولپور چلیں۔ میں نے معذرت کر لی کہ میں سست انسان ہوں اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر کرنا عذاب لگتا ہے۔ جواب ملا ہم آپ کو جہاز کی ٹکٹ بھیج دیتے ہیں۔ میں نے کہا آپ سمجھے نہیں‘ میں سست انسان ہوں۔ اب پتہ چلا ہے یہ سب محنت حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو ارب پتی بنانے پر ہورہی تھی۔ آج دس سال بعد پنجاب کی حالت دیکھیں تو رونا آجائے۔ دس سال شہباز شریف وزیراعلیٰ رہے‘ وہ ہیلی کاپٹر پر سواری کرتے رہے لیکن اصلی مسائل حل نہ ہوئے۔ چار سو کلومیٹر ایم ایم روڈ ‘جس پر لاکھوں انسان سفر کرتے ہیں‘ اس پر ایک روپیہ لگانے کی خدا نے ہمت نہ دی۔
وہاں روزانہ خاندان اجڑ رہے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے لاہور سفر کریں تو آپ ایم ایم روڈ کو بھول جائیں۔ پنجاب کے دو بڑے روڈز تباہ ہوگئے‘ لوگ ذلیل ہوگئے ہیں مگر شہباز شریف کی سب توجہ لاہور پر رہی۔ جب بھی لاہور گیا ہر دفعہ نئی سڑک پر کام ہوتے دیکھا ۔ ایک سڑک اکھاڑ کر نئی بنائی جارہی ہوتی تھی۔ اربوں روپوں کی میٹرو شہر میں کھڑی کر دی گئی۔ جی ٹی روڈ اور ایم ایم روڈ یا انڈس ہائی وے ‘جہاں عام لوگ سفر کرتے ہیں‘ ان کے لیے کوئی فنڈز نہ نکالے گئے۔ اخباروں میں پنجاب کی وہ ترقی دکھائی گئی جو شہباز شریف کے جاتے ہی غائب ہوگئی ۔ میڈیا کی مدد سے سونے ایک کی عمارت تعمیر کی گئی ۔ شاید کسی کو یاد ہو کہ چنیوٹ میں کروڑوں روپے لگا کر تقریب کی گئی تھی جس میں سونے کی کانیں نکالنے کا دعویٰ کیا گیا۔ سب نے اس منجن کو خوب بیچا۔
میرا خیال تھا عمران خان اور عثمان بزدار ان سستے ٖڈراموں سے دور رہیں گے ‘لیکن یہ بھلا کیسے ہوسکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد حکمران کو یہ شوق نہ چرائے اور اس کے طبلچی اسے یہ نہیں کہیں کہ سرکار آپ عوام میں بہت مقبول ہیںاور پھر عمران خان کو وہ پناہ گاہ لے جائیں گے ۔ اس کی ویڈیوز دکھائی جائیں گی کہ ملک کا وزیراعظم عام انسانوں کا کتنا خیال رکھتا ہے۔ پھر بارہ کہو کی ایک خاتون کی ویڈیو پر وزیراعظم سے بات کرائی جائے گی اور فورا ًاس کی رہائش کے بندوبست کی ہدایات کی جائیں گی ۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب راولپنڈی کی پناہ گاہ پہنچ گئے ہیں ۔ وہی بیوروکریسی کا پرانا حربہ جو وہ ہر حکمران پر آزماتے ہیں اور کبھی ناکام نہیں ہوتے۔
مان لیتے ہیں کہ عمران خان اور بزدار صاحب کے دل میں بہت درد ہے۔ وہ واقعی لوگوں کا درد دل میں محسوس کرتے ہیں۔ کسی کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہیے لیکن ان کے دل کا درد اتنا سمجھدار کیوں ہے کہ یہ صرف پناہ گاہ میں رہنے والے چند لوگوں کے لیے دھڑکتا ہے جنہیں اب چھت‘ اچھا کھانا پینا اور دیگر سہولیات مل رہی ہیں؟ ان کا دل بارہ کہو کی ایک بوڑھی خاتون کے لیے بھی دھڑکتا ہے اور اس سے وہ ویڈیو پر بات بھی کرتے ہیں ۔لیکن عمران خان اور بزدار صاحب کا دل ان انسانوں کے لیے دھڑکنا کیوں بھول جاتا ہے جب ساہیوال میں بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کیا جاتا ہے؟
عمران خان اور بزدار صاحب ان بچوں کے گھر کیوں نہیں جاتے ؟وہ پناہ گاہ چلے جاتے ہیں ۔ ایم ایم روڈ پر نویں جماعت کی سات بچیاں ماری جاتی ہیں اور پورا علاقہ سوگ میں ڈوب جاتا ہے ‘وہ علاقہ جہاں عمران خان ہر پانچ سال بعد ووٹ لینے پہنچ جاتے ہیں‘ وہاں ان کا دل کیوں نہیں دھڑکتا؟ اسی روڈ پر ایک باپ اپنے دو بچوں کے ساتھ مارا جاتا ہے‘جنہیں وہ سکول چھوڑنے جارہا تھا ‘پھر بھی خان صاحب اور بزدار صاحب کا دل نہیں دھڑکتا۔ان دونوں کا دل صرف پنڈی کی پناہ گاہ جا کر ہی کیوں دھڑکتا ہے؟ایم ایم اے روڈ جسے لوگ قاتل روڈ کہتے ہیں ‘کے لیے ان کے دل میں درد کیوں محسوس نہیں ہوتا؟وہی سستے ڈراموں کے شوقین عوام اور حکمران!