جنوبی کوریا ایک چھوٹا سا ملک ہے، کل رقبہ ایک لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً پانچ کروڑ۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے، کل رقبہ پونے نو لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی الحمدللہ بائیس کروڑ۔ آئیں جنوبی کوریا سے اپنا مقابلہ کر کے دیکھتے ہیں۔
جنوبی کوریا کی 53%آبادی افرادی قوت کا حصہ ہے جبکہ پاکستان میں آبادی کا فقط %30لوگ کام کرتے ہیں، گویا جس شرح سے جنوبی کوریا میں لوگ کام کرتے ہیں اگر وہی شرح ہم حاصل کرلیں تو ہماری افرادی قوت میں 49ملین لوگوں کا اضافہ ہو جائے۔ پاکستان کی افرادی قوت کا %42زراعت سے وابستہ ہے اور ہماری زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ %20بنتا ہے جبکہ جنوبی کوریا کی افرادی قوت کا %5زراعت کے شعبے سے منسلک ہے اور جی ڈی پی میں ان کا حصہ %2ہے مگر دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے کل جی ڈی پی اور افرادی قوت کا موازنہ کر کے نتیجہ نکالا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہمارا ایک ورکر سالانہ صرف 4,750امریکی ڈالر کا جی ڈی پی کماتا ہے جبکہ جنوبی کوریا کا ایک فرد سالانہ اپنے ملک کے لیے 54,269ڈالر کا جی ڈی پی کماتا ہے لیکن یاد رہے کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں اور اپنے وطن سے بہت محبت کرتے ہیں، ثبوت کے طور پر پیش ہیں بھارت کے اعداد وشمار جہاں یہ شرح 4,413ڈالر سالانہ فی ورکر ہے جو ہم سے بھی بری ہے۔
پاکستان کا جی ڈی پی304ارب ڈالر اور جنوبی کوریا کا 1.655کھرب ڈالر ہے، ہماری برامدات بمشکل 25ارب ڈالر جبکہ جنوبی کوریا کی 596ارب ڈالر ہیں۔ 2016میں جنوبی کوریا کی پانچ کروڑ آبادی نے اپنی تخلیقات و مصنوعات کے حقوق استعمال کو محفوظ بنانے کے لیے 108,875(patent)درخواستیں جمع کروائیں، اس وقت وہاں قریباً ساڑھے نو لاکھ تخلیقات کے حقوق محفوظ کئے جا چکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی کوریا میں فی کروڑ 21,775حقوق دانش محفوظ ہو چکے ہیں جبکہ اپنے پیارے وطن میں 2016میں ایسی جمع کروائی گئی درخواستوں کی کل تعداد فقط 214تھی اور اب تک کل 1,848تخلیقات کے حقوق ہم نے محفوظ کئے ہیں جو فی کروڑ تعداد 10بنتی ہے، بھارت کی یہ فی کروڑ تعداد 60ہے۔
(ماخذ: عالمی حقوق دانش اشاریہ 2017، جنیوا) مگر یاد رہے کہ ہم میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے اور اس بات کے ثبوت کے لئے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ’’آیا جے غوری‘‘۔ 1990میں پاکستان کی پرائمری اسکول شرح اندراج %40.46تھی جو 2015تک %54ہوگئی جبکہ بھارت میں یہ %95اور جنوبی کوریا میں %100ہے، تاہم مقرر عرض ہے کہ ان اعداد وشمار سے ہماری عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم زندہ قوم ہیں، کیا ہوا اگر وینٹی لیٹر پر ہیں! پاکستان میں زچگی کے دوران فی لاکھ میں سے 178عورتیں مر جاتی ہیں جبکہ بھارت میں یہ تعداد 174اور جنوبی کوریا میں 11ہے، اسی طرح پیدائش کے وقت فی لاکھ میں سے پاکستان میں 64بچے مر جاتے ہیں، بھارت میں 35اور جنوبی کوریا میں یہ تعداد 3ہے لیکن کوئی بات نہیں، ان بچوں کو ہم بدقسمتی کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہو سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا کی %57آبادی غیر مذہبی ہے گویا وہ کسی دین کے پیروکار نہیں، پاکستان کی %96آبادی مسلمان ہے جس کا نصف ایمان صفائی سے مشروط ہے، مہمانداری جن کی روایت ہے مگر حیرت ہے کہ 2016میں جنوبی کوریا میں تقریباً پونے دو کروڑ لوگ سیروسیاحت کی غرض سے گئے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد پانچ لاکھ سے نہیں بڑھی۔
ان تمام اعداد وشمار کے بارے میں ہم یہ کہہ کر دل کو تسلی دے سکتے ہیں کہ جھوٹ دو قسم کا ہوتا ہے، ایک سفید جھوٹ اور دوسرا اعداد وشمار، مگر مصیبت یہ ہے کہ کالم فقرے بازی کی مدد سے لکھا جا سکتا ہے، مگر ملک جملے بازی سے نہیں چلتے۔ ہم اپنے منہ میاں مٹھو بن کر یہ کہتے رہیں کہ ہم بہت قابل اور ہنرمند قوم ہیں، ہم میں ہر کام کرنے کی صلاحیت ہے، ہم دنیا کی امامت کرنے کے اہل ہیں اور ان دعوؤئوں کے ثبوت کے طور پر کبھی ہم کسی ان پڑھ نوجوان کی گڈی چڑھاتے ہیں، جس نے کہیں سے انجن خرید کر دو پروں والا چھوٹا جہاز بنانے کی کوشش کی ہو، کبھی کسی چھوٹی سی بچی کو دیو مالائی کردار بنا دیتے ہیں، جس نے مائیکرو سافٹ کے کسی امتحان کا ریکارڈ توڑا ہو اور کبھی کسی نوجوان کو رول ماڈل بنا کر پیش کرتے ہیں جس نے اے لیول میں جھنڈے گاڑے ہوں، مگر دنیا بڑی ظالم ہے، وہ ان باتوں کو نہیں مانتی، دنیا تخلیق کاروں اور سائنس دانوں کو سر پر بٹھاتی ہے، خالص دانشوروں اور فلسفیوں کو عزت دیتی ہے اور جن لوگوں نے اپنے شعبے میں کمال حاصل کیا ہو، انہیں اپنے ملک کی شہریت مفت میں دینے کو تیار ہو جاتی ہے۔
ایک ہم ہیں جو خود فریبی میں ہی زندہ ہیں، ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ دنیا غلط ہے، جو ہمارا ہنر نہیں پہچانتی ورنہ ہم میں تو ایسا ایسا جوہر پوشیدہ ہے جو تن تنہا انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ غلط فہمی اب ہمیں دور کر لینا چاہئے، جس طرح کوئی انسان خود فریبی میں زندہ رہ کر کامیاب نہیں ہو سکتا اسی طرح کوئی قوم بھی خود فریبی کی راہ پر چل کر ترقی نہیں کر سکتی، ثبوت اس کا وہ تمام اعداد وشمار ہیں جو آئے روز ہمارا منہ چڑھاتے ہیں، مگر ہم ان تمام اشاریوں سے نظریں چرا کر سارا ملبہ غیر متعلقہ باتوں، نظام کی خرابی اور کھرے لیڈر کی عدم دستیابی پر ڈال کر دعا کرتے ہیں کہ ملک میں صلاح الدین ایوبی ٹائپ کا کوئی لیڈر آئے جو ڈنڈے کے زور پر’’اسلامی صدارتی نظام‘‘ نافذ کرکے چشم زدن میں ہمارے تمام مسائل حل کر دے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کیا ایسا لیڈر آسمان سے براہ راست ٹپکے گا، بالفرض محال اگر وہ آگیا تو جائے گا کیسے اور اگر وہ بھی بدنیت نکلا تو کیا پھر ’’اسلامی صدارتی نظام‘‘ کی ناکامی مان لی جائے گی؟ ویسے تین مرتبہ یہ تجربہ کر کے ہم دیکھ چکے، پٹ چکا، مگر ہم باز نہیں آنے والے۔
جنوبی کوریا ہماری ہی طرح کا ملک ہے، آبادی اور رقبے کی شرح ہم سے بھی زیادہ ہے، مگر ترقی کے ہر زینے پر وہ ہم سے کہیں اوپر ہے، %57لوگ غیر مذہبی ہیں اور ریاست کا بھی مذہب سے تعلق نہیں، اس کے باوجود عیسائیت یا بدھ مذہب کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں، ہر کوئی اپنے مذہب کی پیروی میں آزاد ہے، ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہیں اور عوام کسی دائمی زندگی کی آس لگائے بغیر موجودہ زندگی کو ہی کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہیں، جنوبی کوریا یہ طے کر چکا ہے کہ اسے اپنے عوام کی خوشحالی کا ماڈل اپنانا ہے اور وہ اسی ماڈل پر کاربند ہے۔ بغل میں شمالی کوریا ہے، ہمارے پسندیدہ ماڈل کے تحت ایک مرد آہن وہاں کا تن تنہا سربراہ ہے، ایٹمی ہتھیار اس کے پاس ہیں، نت نئے میزائلوں کا تجربہ وہاں ہوتا رہتا ہے، اسلحے کی خریداری اس کا شوق ہے، عوام کا حال مگر یہ ہے کہ ہر کوئی ملک سے بھاگ جانا چاہتا ہے، حتی کہ اکثر سفارتکار بھی یورپی ممالک میں غائب ہو جاتے ہیں، ریاست جبر کے ماڈل پر چل رہی ہے، چاروں طرف غربت اور پسماندگی کا ڈیرا ہے، مہنگائی عروج پر ہے اور کسی بھی عالمی انڈیکس میں شمالی کوریا کی حالت قابل رشک نہیں سوائے فوجی طاقت کے۔ دونوں ماڈل ہمارے سامنے ہیں، اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کون سا ماڈل ہمیں سوٹ کرتا ہے۔