کائنات کے اسراروں میں سے ایک اسرار بلیک ہول بھی ہے جنہیں جاننے اور سمجھنے کے لیے سائنسدان تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔
خلا نوردوں نے کہکشاں میں موجود بلیک ہول کی پہلی تصویر جاری کر دی، اسے سائنسدانوں نے ‘مونسٹر’ کا نام دیا ہے۔
یہ بلیک ہول 40 ارب کلو میٹر پھیلا ہوا ہے یعنی زمین کے حجم سے 30 لاکھ گنا بڑا۔
یہ بلیک ہول 500 ملین ٹریلین کلو میٹر دور ہے اور اس کی تصویر دنیا بھر میں مختلف مقامات پر نصب 8 ٹیلی اسکوپس پر مشتمل نیٹ ورک کے ذریعے کھینچی گئی ہے۔
نیدر لینڈ میں راڈ باؤنڈ یونی ورسٹی کے پروفیسر ہینو فالکے نے اس تجربے کی تجویز دی تھی۔ ان کے مطابق یہ بلیک ہول M87 نامی کہکشاں میں پایا گیا۔
انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ جو ہم نے دیکھا وہ تمام نظام شمسی سے بڑا تھا اور اس کی کمیت سورج کی کمیت سے ساڑھے 6 ارب گنا زیادہ ہے، یہ ہماری سوچ سے بھی بڑا ہے، بالکل ایک عفریت جیسا۔
خلانوردوں کو M87 نامی کہکشاں کے مرکز میں ایک بلیک ہول کے موجود ہونے کے شواہد ملے تھے۔
تصویر مل جانے سے تحقیق کرنے والے سائنسدانوں کو مزید تحقیق میں مدد ملے گی۔
بلیک ہول کے بارے میں ابھی بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات ملنے باقی ہیں، جیسے کہ ہول کے ارد گرد روشنی کا ہالہ کیسے بنتا ہے، اس ہول میں گرنے والی اشیاء کا کیا بنتا ہے اور آخر وہ جاتی کہاں ہیں۔
بلیک ہول ہے کیا؟
بلیک ہول کائنات کا وہ اسرار ہے جسے کئی نام دیئے گئے ہیں، کبھی اسے ایک کائنات سے دوسری کائنات میں جانے کا راستہ کہا جاتا ہے تو کبھی اسے موت کا گڑھا۔
بلیک ہول ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں سے کچھ بھی واپس نہیں آتا۔ اس جگہ کشش ثقل انتہا پر ہوتی ہے۔
اپنے نام کی بنسبت سے یہ خالی نہیں ہوتے، یہ مادے سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ مادے کو ایک چھوٹی جگہ مقید کر دینے سے بلیک ہول بنتا ہے، اگر ہم اپنے سورج کو ایک ٹینس بال جتنی جگہ میں قید کر دیں تو یہ بلیک ہول میں تبدیل ہو جائے گا۔
200 سائنسدانوں نے 8 ٹیلی اسکوپس کے نیٹ ورک کے ذریعے 10 دن میں M87 کہکشاں کا جائزہ لیا۔
پروفیسر ڈوئلےمان نے اس کامیابی کو ایک غیر معمولی سائنسی کارنامہ قرار دیا ہے۔