وہ ایک عام سی صبح تھی، جس میں باقی دنوں سے تھوڑی زیادہ گرمی کے علاوہ کچھ بھی الگ نہیں تھا۔
لوگ اپنے دفاتر پہنچ کر اپنے کام کی ابتداء کر رہے تھے، اسکولوں میں زیادہ تر بچوں کا پہلا پیریڈ ختم ہونے والا تھا، اور گھریلو خواتین اپنے اپنے کام نمٹا ہی رہی تھیں، کہ اچانک راولپنڈی اور اسلام آباد دھماکوں سے لرز اٹھے۔
جڑواں شہروں کے مکینوں کو ایسے لگا جیسے پاکستان کے دارالحکومت کو کسی دشمن نے چاروں طرف سے گھیر کر اس پر میزائلوں کی بارش کر دی ہے۔ کئی گھنٹوں بعد پتہ چلا کہ اسلام آباد پر کسی دشمن نے کوئی حملہ نہیں کیا تھا بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم کے قریب فوج کے گولہ بارود کی ذخیرہ گاہ اوجڑی کیمپ میں صبح 9 بج کر 45 منٹ پر اچانگ آگ بھڑک اٹھی تھی۔
آناً فاناً سارے کیمپ میں ہر جگہ آگ کے الاؤ بھڑکنے لگے اور حرارت اس قدر بڑھ گئی کہ کیمپ میں پڑے میزائل چاروں طرف خود بخود چل پڑے۔ پورے علاقے میں میزائلوں کی بارش شروع ہوگئی۔ یہ میزائل ہر طرف برس رہے تھے۔ ان کی کوئی سمت تھی نہ ہدف۔ دھماکے پر دھماکے ہو ئے چلے جا رہے تھے اور جو بھی چیز ان میزائلوں کی زد میں آرہی تھی، اس کا وہی حشر ہو رہا تھا جو میزائل کی زد میں آنے والی کسی بھی چیز کا ہوتا ہے۔
اس حادثے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 103 افراد جاں بحق جبکہ 1300 سے زائد زخمی ہوئے، مگر غیر سرکاری اندازوں کے مطابق ہلاک شدگان کی تعداد اس سے زائد تھی۔ ہلاک ہونے والوں میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے والد، سابق وفاقی وزیر خاقان عباسی بھی شامل تھے۔
10 اپریل 1988 کو ہونے والے اس سانحے نے اہل پاکستان کو ششدر کردیا۔ جان و مال کا جو بھاری نقصان ہوا، اس نے قومی سلامتی اور امن عامہ کے حوالے سے بہت سے اہم سوالات کھڑے کر دیے۔ 12 اپریل 1988 کو وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے لیفٹننٹ جنرل عمران اللہ خان کی سربراہی میں ایک دو رکنی کمیشن قائم کیا جسے ہدایت کی گئی کہ وہ 10 دن کے اندر اندر اپنی رپورٹ پیش کرے کہ اسلحہ ڈپو میں آگ لگنے کے اسباب کیا تھے اور ان اسباب کے ذمہ دار کون افراد تھے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ 22 اپریل 1988 کو پیش کر دی۔ مگر یہ رپورٹ نہ تو کبھی عوام کے سامنے آئی، اور نہ ہی کبھی قومی اسمبلی کے ریکارڈ پر آئی۔ اس کے بعد 5 ارکان پر مشتمل ایک وزارتی کمیٹی قائم کی گئی جس کا کام رپورٹ کا جائزہ لینا اور اس پر عملدرآمد کے لیے سفارشات کرنا تھا۔ اس کمیٹی کے چیئرمین اسلم خٹک تھے جبکہ دیگر ارکان میں رانا نعیم محمود، قاضی عبدالمجید عابد، میر ابراہیم بلوچ اور ملک نسیم احمد آہیر شامل تھے۔
دوران تفتیش یہ کمیٹی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ اسلم خٹک نے بطور چیئرمین رپورٹ لکھی اور اس سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے سے احتراز کیا، جبکہ رانا نعیم نے ایک اختلافی نوٹ لکھا اور فرائض سے غفلت برتنے والے افراد کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی سفارش کی۔ ابراہیم بلوچ اور قاضی عبدالحمید عابد نے بھی ان سے اتفاق کیا۔
اس وقت ایسا بھی کہا گیا کہ اسلم خٹک نے صدر ضیاء کو بتانا شروع کر دیا کہ وزیر اعظم جونیجو اوجڑی کیمپ کی تحقیقات کے بہانے ان کے دو پسندیدہ جرنیلوں، اختر عبدالرحمان اور حمید گل کی چھٹی کروانا چاہ رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب وزارتی کمیٹی کی اس تیار کردہ رپورٹ کے مندرجات، جنرل ضیاء الحق تک پہنچے تو انہوں نے اپنے فوجی رفقاء کی حمایت کا فیصلہ کیا اور بہت ہی کم عرصے میں وزیراعظم جونیجو کو، جو سانحہ کے ذمہ دار افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کے حامی تھے، رخصت کر کے گھر بھیج دیا۔ گویا سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو کی برطرفی بھی بلاواسطہ طور پر اسی سانحے کا شاخسانہ تھی۔
اوجڑی کیمپ کے افسوسناک حادثے کو 31 برس گزر چکے ہیں۔ گزرے تین عشروں میں اوجڑی کیمپ سانحے کے بارے میں پاکستان کے کسی ادارے نے عوام کو پورے سچ سے آگاہ نہیں کیا، جس کی وجہ سے طرح طرح کے مفروضے اور افسانے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں۔
پہلا مفروضہ کچھ یوں ہے کہ اوجڑی کیمپ میں افغان مجاہدین کے لیے خطرناک اسلحہ رکھا جاتا تھا۔ ایسے ہی اسلحے کی ایک نئی کھیپ آ رہی تھی۔ اسے ٹرک سے اُتارتے ہوئے کچھ گڑبڑ ہو گئی اور ڈپو میں رکھے میزائل پُھلجھڑیوں کی طرح چاروں طرف برسنا شروع ہو گئے۔ یعنی اسے مکمل طور پر ایک حادثہ قرار دے کر سب کی گلو خلاصی کر دی گئی۔
اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں ایک اور مفروضہ جس کے مستند ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں، کچھ یوں ہے کہ امریکی حکام اوجڑی کیمپ میں رکھے اسلحے کا حساب کتاب کرنے آ رہے تھے۔ بجائے انہیں حساب دینے کے ہمارے کچھ ‘اپنوں’ نے اس کیمپ میں دھماکہ کروا دیا اور بات آئی گئی ہوگئی۔
اس حوالے سے ایک سابق وفاقی وزیر کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ جنرل ضیاء نے اوجڑی کیمپ میں آگ لگوائی کیونکہ امریکا کے دیے ہوئے اسٹنگر میزائلوں کا ریکارڈ ضائع کرنا تھا۔
جنرل ضیاء کے مخالفین کے نزدیک یہی روایت حقیقت سے قریب تر ہے، جس کے ذریعے جنرل صاحب کے کارناموں کی فہرست میں ایک اور کارنامے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے حامیوں کے نزدیک وہ اس قسم کی کسی سازش میں شریک نہیں تھے۔
ایک تیسری کہانی، جو کہ باقی سب کہانیوں کی طرح صرف ایک مفروضہ ہی ہے، بتاتی ہے کہ امریکا نے خیبر ایجنسی کے مقام جمرود میں دو گروہوں کی لڑائی کا بہانہ بنا کر جنرل ضیاء الحق کو مجبور کیا کہ یہ راکٹ راولپنڈی ہی میں کہیں رکھ دیے جائیں اور بتایا کہ راکٹ بغیر وار ہیڈ کے ہیں، اس لیے ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ کوئی اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ راکٹ اوجڑی کیمپ کی متروکہ بیرکوں میں وقتی طور پر رکھ دیے گئے۔ پھر کسی طرح سے راکٹس کے ذخیرے میں دھماکہ کیا گیا جس سے وہ راکٹ یکے بعد دیگرے ہوائیاں بن کر اِدھر اُدھر اُڑنے لگے۔
ایک اور مفروضہ یہ ہے کہ رات کے پچھلے پہر امریکا کا ایک ہوائی جہاز بغیر شیڈول کے پاکستان پہنچا تھا، جس سے کچھ اسلحہ رات کی تاریکی ہی میں اوجڑی کیمپ پہنچایا گیا تھا۔ اُس رات کے اگلے دن ہی صبح دس بجے کے قریب اوجڑی کیمپ میں دھماکا ہو گیا تھا۔
مندرجہ بالا دونوں مفروضوں کے مطابق یہ امریکا کی سوچی سمجھی سازش تھی، تاکہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام زور و شور سے جاری رکھنے سے باز رکھا جا سکے۔
مگر ان تمام باتوں میں جس بات کا تذکرہ کم ہی سننے میں آتا ہے، وہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک امریکی صحافی بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں اس واقعے سے متعلق نئے انکشافات کیے ہیں۔ بروس ریڈل کوئی عام صحافی نہیں، بلکہ کئی برس تک امریکی قومی سلامتی کے اداروں کے لیے بھی کام کرتے رہے ہیں اور چار امریکی صدور کے ساتھ مشرق وسطیٰ اور جنونی ایشیاء کے معاملات پر معاون خصوصی بھی رہے۔
وہ اپنی کتاب Avoiding Armageddon میں لکھتے ہیں۔ "2012 میں مجھے ہندوستان کے دو سابقہ فوجی افسروں نے بتایا کہ ان کے جاسوس ادارے نے اوجڑی کیمپ کو تخریب کاری سے تباہ کیا تھا تاکہ پاکستان کو کشمیری اور سکھ باغیوں کی مدد کرنے کی سزا دی جاسکے۔”
اوجڑی کیمپ سانحے پر پہلے کمیشن بنا اور پھر کمیٹی مگر آج سانحہ کے 31 برس بعد اپریل 2019 میں بھی یہ سوال جوں کا توں موجود ہے کہ اوجڑی کیمپ میں آخر ہوا کیا تھا۔