”وہ کون تھے جنہوں نے افغانستان، شام اور یمن میں مقتل آباد کیے‘‘؟
”یورپ اور امریکہ… وہ دولت مند اسلحہ فروش ریاستیں جو اپنے ہتھیاروں کی فروخت کے لیے آدم کی اولاد کا لہو بہاتی ہیں۔ بچوں کو قتل کرتی ہیں اور آنگن اجاڑتی ہیں۔ ہر وہ ملک جو ہتھیار بناتا اور بیچتا ہے، اس کے کندھوں پر ان گنت بے گناہوںکی لاشیں رکھی ہیں اور اس کے چہرے پر بربادی کی داستانیں رقم ہیں‘‘۔
یہ میں نہیں کہہ رہا، پوپ فرانس کہہ رہے ہیں۔ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا۔ کیتھولک عالمِ مسیحیت کا سب سے بڑا فرقہ ہیں۔ سوادِ اعظم۔ اس فرقے میں عالمی سطح پر ایک مذہبی نظم ہے جو ایک مذہبی راہنما اور مرکز کو مانتا ہے۔ 2013ء میں ”پیو ریسرچ سنٹر‘‘ نے جو اعداد و شمار جمع کیے، ان کے مطابق مسیحیوں کی کم و بیش نصف آبادی کیتھولک ہے۔ مسیحیت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے۔ یہ الفاظ ایک ایسی شخصیت کے ہیں جو عالمِ مسیحیت کے سب سے بڑے مذہبی و روحانی منصب پر فائز ہے۔ ان الفاظ نے مذہبی جنگ کی امکانات کو کم و بیش ختم کر دیا۔
ایک طبقہ جس کی نمائندگی ہر مذہب میں موجود ہے، دنیا کو مذہبی تصادم کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔ ہر حادثے کو وہ اسی تناظر میں دیکھتا اور اپنے خود ساختہ تصورِ تاریخ کے لیے بطور دلیل استعمال کرتا ہے۔ سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو امریکہ اور نیٹو کے بعض ذمہ داران نے اسلام کو نیا خطرہ قرار دیا جو مغرب سے برسرِ پیکار ہونے کو ہے۔ 9/11 جیسا کوئی واقعہ ہوا تو اس طبقے نے اسے اپنے مؤقف کے حق میں بطور دلیل پیش کیا۔ دوسری طرف مسلمانوں میں بھی ایک طبقہ یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ مسلمانوں اور عالمِ مسیحیت کے درمیان ایک عالمی جنگ برپا ہونے کو ہے۔ امریکہ عراق پر حملہ آور ہوا یا افغانستان پر، انہوں نے اسے اپنے خود ساختہ مقدمے کے حق میں استعمال کیا۔
پوپ فرانسس نے اس مقدمے کی بنیادوں کو ہلا دیا ہے۔ یہ عالمِ مسیحیت کے سب سے بڑے راہنما کا، ان جنگوں سے اعلانِ برات ہے جو امریکہ اور یورپ نے اپنے غلبے کے لیے برپا کر رکھی ہیں۔ پوپ نے بتا دیا کہ یہ دراصل اسلحے کے تاجروں کا آباد کردہ مقتل ہے۔ ایسے لوگ ممکن ہے کہ مسیحی ہونے کا دعویٰ رکھتے ہوں لیکن ان کے جرائم کا کوئی تعلق مسیحی مذہب سے نہیں ہے۔ اگر یورپ اور امریکہ کسی ملک پر جنگ مسلط کریں تو اسے ایسے بے رحم لوگوں کا عمل سمجھا جائے جو پیسے کی لالچ میں انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی دنیا میں صلیبی جنگ کی بات کرتا ہے تو اسے مسترد کر دینا چاہیے کہ امریکہ کی جنگوں سے کیتھولک مسیحیوںکا کوئی مذہبی تعلق نہیں۔
یہ ایک مذہبی رہنما کا غیر معمولی بیان ہے جس کا عالمی سطح پر خیر مقدم ہونا چاہیے۔ اس کی اہمیت کسی طر ح بھی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے خیالات اور اقدام سے کم نہیں۔ پوپ نے اس نظریے کو کمزور کیا ہے جو مذہبی بنیادوں پر عالمی جنگ کی منادی کر رہا ہے۔ کم از کم کیتھولک دنیا میں تو اب اس نظریے کو پذیرائی نہیں مل پائے گی۔ رہے پروٹیسٹنٹ تو وہ پہلے ہی دنیا کے معاملات کو مذہبی آنکھ سے نہیں دیکھتے۔
اس میں شبہ نہیں کہ یہودیوں کا ایک طبقہ اپنی مذہبی کتابوں میں موجود پیش گوئیوں کی بنیاد پر ایک مذہبی جنگ کی بات کرتا ہے لیکن یہ تمام یہودیوں کا مسئلہ نہیں۔ دنیا کے تمام یہودی ایک طرح نہیں سوچتے۔ اب تو امریکہ میں یہودیوں کا ایک ایسا مؤثر طبقہ موجود ہے جو اسرائیل کی پالیسیوں کا شدید ناقد ہے۔ چومسکی جیسے یہودی تو کھلم کھلا صہیونیت کو غلط کہتے ہیں۔ یہ بھی مبالغہ آمیز بیان ہے کہ دنیا بھر کے یہودی اسرائیل میں جمع ہو رہے ہیں۔ مذہب کا سیاسی استعمال مسلمانوں کی طرح یہودیوں کے ایک طبقے میں بھی مقبول ہے۔
یہودیوں کا معاملہ یہ ہے کہ دنیا کی سیاست میں ان کی کوئی قابلِ ذکر حیثیت نہیں۔ اسرائیل اپنی بقا کے لیے امریکہ اور برطانیہ کا محتاج ہے۔ اگر وہ اس کی پشت سے ہاتھ اٹھا لیں تو اسرائیل چند دن کا مہمان ہو گا۔ یہ مسلسل عالمِ خوف میں رہنے والی ایک قوم ہے۔ بنی اسرائیل پر ذلت اور لا چاری مسلط کر دی گئی ہے‘ اور یہ خدائی فیصلہ ہے۔ قرآن مجید کی پیش گوئی یہ ہے کہ یہود قیامت کی صبح تک مسیحیوں کے زیرِ دست رہیں گے۔ وہ اس قابل دکھائی نہیں دیتے کہ مذہبی جنگ کا کوئی الاؤ بھڑکا سکیں۔
یوں بھی دنیا میں مذہبی ریاستوں کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ جب پوپ فرانسس نے امریکہ کی جنگوں سے اعلانِ برات کر دیا تو اب امریکہ کی جنگ کسی طرح مذہبی جنگ نہیں رہی۔ امریکہ ایک سامراجی قوت کے طور پر اپنے عالم گیر تسلط کے لیے متحرک ہے‘ جس طرح ماضی کے سامراج رہے ہیں۔ قومی ریاست کے وجود میں آنے سے انسانی آبادی کی مذہبی تقسیم ختم ہو گئی ہے۔ مثال کے طور پاکستان میں اگر بیس کروڑ مسلمان ہیں تو کم و بیش اتنے ہی بھارت میں بھی ہیں۔ اسی طرح یورپ کے ہر ملک میں مسلمان آباد ہیں۔ اب اگر کہیں بھی دو ملکوں میں خدانخواستہ جنگ ہوتی ہے تو یہ قومی ریاستوں کے مابین ہو گی نہ کہ دو مذاہب کے درمیان۔
جو لوگ مذہبی جنگ کا منظر پیش کر رہے ہیں، انہیں جنگ کرانے کے لیے، پہلے دنیا کو جغرافیائی اعتبار سے دو حصوں میں بانٹنا پڑے گا۔ مستقبل قریب میں تو اس کا کوئی امکان نہیں۔ مسلمان امریکہ سمیت ہر ملک میں آباد ہیں اور وہاں کے شہری ہیں۔ دنیا کے ممتاز علما ان کے اس قیام کو شرعاً اور اخلاقاً درست مانتے ہیں۔ بہت سے علما ہیں جو خاندان کے ساتھ مستقلاً ان ممالک میں آباد ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ اس پس منظر میں کسی مذہبی جنگ کا کیا امکان ہو سکتا ہے۔
میرا تاثر یہ ہے کہ مغرب یا غیر مسلم دنیا میں جو لوگ مذہبی تصادم کی بات کرتے ہیں، مذہبی اور سیاسی طور پر پوپ فرانسس اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے ان کے مقدمے کو مسترد کر دیا ہے۔ اسلام تاریخی طور پر ہی نہیں، موجودہ حالات میں بھی مغرب کا حصہ ہے۔ مغرب نظری طور پر سیکولرازم کو اختیار کر چکا ہے۔ اس لیے وہاں سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ میرا خیال ہے کہ اب مسلمانوں کی باری ہے کہ وہ ایسی ہی بنیادوں پر عالمی جنگ کے امکانات کو مسترد کر دیں۔
اسلام ایک تبلیغی مذہب ہے، نسلی نہیں۔ اگر امریکہ کی غیر مسلم آبادی مسلمان ہو جائے تو وہ بھی اسی طرح اپنے رب کے قریب ہو گی جس طرح کوئی نسلی مسلمان۔ عالمی حالات نے وہ اسباب فراہم کر دیے ہیں کہ اسلام کی دعوت عالمِ انسانیت کے سامنے رکھی جائے۔ نبیﷺ کے بعد یہ فریضہ بنی اسماعیل کا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو اسلام کی دعوت دیں۔ ان کے تتبع میں یہ دوسرے مسلمانوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ یہ بڑی بد نصیبی ہو گی کہ اسلام کو خیر کے بجائے دنیا کے لیے ایک حریف مذہب کے طور پر پیش کیا جائے۔
بد قسمتی سے کچھ لوگ مسلمانوں کو داعی کے بجائے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا دشمن ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ پوپ فرانسس کی طرح آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اٹھیں اور دنیا کو اہلِ اسلام کی طرف سے سلامتی اور امن کا پیغام دیں۔ وہ انہیں بتائیں کہ اسلام کی رحمت کا پیغام سب کے لیے ہے۔ اس خطے میں بسنے والوں کے آباؤاجداد کون سے مسلمان تھے۔ ہماری پچھلی نسلوں کو یہ دولت ملی تو آج دوسروں کو بھی مل سکتی ہے۔
پوپ فرانسس نے مسلمانوں اور مسیحیوںکے مابین مکالمے اور تعاون کی ایک کھڑکی کھول دی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس سے امن کی ہوا آئے گی اور دنیا مذہبی جنگوں سے محفوظ رہے گی۔ رہا طاقت کا کھیل تو وہ دنیا میں جاری ہے اور جاری رہے گا کہ انسان کی فطرت یہی ہے۔ اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔