سالوں پہلے میں نے فرانز کافکا کی کہانی ’’ قانون کے آگے‘‘ پڑھی تھی ۔ کہانی تو منٹوں میں ختم ہو گئی لیکن میں گھنٹوں سوچتا رہا کافکا کہنا کیا چاہتا ہے۔ کل پھر یہ کہانی یاد آئی ، یوں محسوس ہوا کافکا نے کل ہی اسے راوی کے کنارے بیٹھ کر لکھا ہو ۔ تمثیل کا یہ حسن ہوتا ہے وہ کسی سماج میں اجنبی نہیں ہوتی ۔ ’’ قانون کے آگے‘‘ کی معنویت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ جرمنی کا یہ یہودی صرف ایک با کمال لکھاری ہی نہ تھا ، ایک وکیل بھی تھا۔
آپ بھی یہ کہانی پڑھ لیجیے۔ کا فکا لکھتا ہے:
’’قانون کے آگے ایک دربان کھڑا تھا ۔ ایک دیہاتی نے اس سے التجا کی کہ وہ قانون کے پاس جانا چاہتا ہے وہ اسے اندر جانے کی اجازت دے دے ۔ دربان نے کہا اجازت تو دی جا سکتی ہے لیکن اس وقت یہ ممکن نہیں۔
قانون کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا ۔ یہ آج بھی کھلا تھا ۔ محافظ دروازے کے ایک طرف جا کر کھڑا ہو چکا تھا ، دیہاتی نے جھک کر دروازے میں سے اندر جھانکنے کی کوشش کی ۔ دربان مسکرا دیا اور کہنے لگا، ’’ اے دیہاتی اگر تمہیں اندر جانے کا اتنا ہی شوق ہے تو میرے روکنے کے باوجود اندر جانے کی کوشش کر کے دیکھ لو۔ لیکن یہ یاد رکھنا کہ میں تو اتنا طاقتور نہیں لیکن اندر ہر دروازے کے باہر طاقت ور دربان کھڑے ہیں ۔ خود میں آج تک صرف تین دروازوں کے دربانوں کو دیکھ سکا ہوں۔ اس سے آگے میری بھی رسائی نہیں ہے۔‘‘
دیہاتی کا خیال تھا قانون تک ہر کسی کو پہنچنے کا حق ہے ۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا یہ کام اتنا مشکل ہو گا ۔ ایک بار اس نے سوچا اندر چلا جاؤں لیکن پھر جب اس نے کسی جانور کی کھال کا بنا اوورکوٹ پہنے ہوئے محافظ کو غور سے دیکھا ، اس کی بڑی ، نوکیلی ناک اور اس کی لمبی ، باریک ، سیاہ تاتاری داڑھی پر غور کیا ، تو وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جب تک اجازت نہ مل جائے اسے یہین رک کر انتظار کرنا چاہیے۔۔ محافظ نے اسے چار ٹانگوں والا لکڑی کا ایک سٹول لا دیا اور اسے اتنی سی اجازت دے دی کہ وہ دورازے کے قریب ہی لیکن سامنے نہیں بلکہ ایک طرف ہو کر بیٹھ جائے۔ دیہاتی وہاں بیٹھ گیا ۔ اسے وہاں بیٹھے دن گزرتے رہے ، دن مہینوں میں بدل گئے اور مہنیے سالوں میں وہ وہیں بیٹھا رہا ۔ اسے اندر جانے کی اجازت نہ ملی۔
دیہاتی نے ان سالوں میں اندر جانے کے لیے دربان کی اتنی منتیں کیں کہ خود دربان بھی تھک گیا ۔ دربان اکثر اس سے معمولی ، غیر اہم اور سرسری سے سوال پوچھتا ، کہاں سے آئے ہو ، علاقہ کون سا ہے۔ یہ سوال ایسے پوچھے جاتے جیسا آقا نوکر سے بات کرتا ہے۔ سوالات کے آخر میں وہ دربان یہی کہتا کہ تمہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ فی الحال ادھر ہی بیٹھے رہو۔
دیہاتی اپنے ساتھ کچھ زاد راہ بھی لایا تھا ۔ اس نے سب کچھ ، حتی کہ اپنی قیمتی اشیا بھی دربان کو رشوت میں میں دے دیں کہ وہ اسے قانون کے اندر جانے دے ۔ دربان نے سب کچھ لے لیا اور کہا : تم ابھی اندر نہیں جا سکتے یہ سب مال تو میں نے اس لیے تم سے لے لیا ہے کہ تمہارے اندر یہ خلش نہ رہے کہ قانون تک پہنچنے میں تم نے کوئی کمی چھوڑی تھی ۔ اب جب تم سب کچھ مجھے دے چکے ہو ، تمہیں یہ تسلی تو ہو گی کہ قانون تک پہنچنے کے لیے جو کچھ تمہارے بس میں تھا تم نے کر ڈالا۔
دیہاتی کو وہاں بیٹھے بیٹھے کئی سال بیت گئے۔ اسے اندر والے ڈھیروں دربان بھول ہی گئے۔ اس کا خیال تھا بس یہی ایک دربان ہے جو اس کی راہ میں رکاوٹ ہے اور اسے اندر نہیں جانے دیتا ۔ تنگ آکر دیہاتی نے دربان کو اونچی اونچی گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ گالیاں دیتے دیتے وہ بوڑھا ہو گیا ۔ اب اونچی گالی دینا اس کے بس میں نہیں تھا ۔ اب وہ صرف بڑ بڑاتا رہتا تھا۔
بڑھاپے نے دیہاتی کو ایک بچے کی طرح بنا دیا ۔ سالوں سے وہ دربان کو دیکھ رہا تھا کہ اس نے جانور کی کھال سے بنا جو اوور کوٹ پہن رکھا ہے اس کے کالر میں جویں پڑ چکی ہیں ۔ اب وہ ان جووں سے التجا کرتا رہتا کہ تم ہی قانون کے پاس اندر جانے میں میری مدد کرو اور دربان سے میری سفارش کر دو۔
اب اس بوڑھے دیہاتی کی بینائی بھی کمزور ہو چکی تھی ۔ اسے کچھ خبر نہ تھی اس کے ارد گرد تاریکی ہے یا اس کی آنکھیں بے نور ہو چکی ہیں ۔ البتہ اس تیرگی میں بھی وہ اس روشنی کو دیکھ لیتا تھا جو قانون کے دروازے سے نکلتی تھی ۔ اس نے دیکھا یہ واحد چمک ہے جو کبھی ماند نہیں پڑی۔
اب تو شاید وہ زندہ بھی نہیں تھا ۔ موت سر پر کھڑی تھی ۔ ان سالوں کا حاصل ایک سوال تھا ۔ یہ الگ بات کہ آج تک اس نے وہ سوال دربان سے پوچھا ہی نہیں تھا ۔ اس کا جسم اب اکڑنا شروع ہو گیا تھا ۔ وہ کوشش کے باوجود اسے سیدھا نہیں رکھ پاتا تھا ۔ اس نے دربان کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا ۔ دربان اس کے پاس آیا تو اسے کافی جھکنا پڑا ۔ دونوں کے قد میں اس فرق کا نقصان صرف دیہاتی نے اٹھایا تھا۔ دربان نے بے زاری اور جھنجھلاہٹ سے کہا : ’’ اب تم کیا سوال پوچھنا چاہتے ہو۔ تمہاری تو پوچھنے کی ہوس اور بھوک ختم ہی نہیں ہوتی‘‘۔
دیہاتی نے کمزور سے لہجے میں کہا ’’ صرف یہ بتا دو کہ جب ہر کوئی قانون کے پاس جانا چاہتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے اتنے سال میں قانون کے دروازے پر بیٹھا رہا لیکن میرے علاوہ کوئی اور اندر جانے کی اجازت مانگنے تمہارے پاس اس دروازے پر نہیں آیا‘‘۔ یہ سوال سنتے ہی دربان کو معلوم ہو گیا کہ اس آدمی کی موت کا وقت آ چکا ہے۔ دیہاتی کی سماعتوں کو موت آ رہی تھی، دربان نے اونچی آواز میں دھاڑتے ہوئے کہا ، ’’ یہ دروازہ صرف تمہارے لیے تھا ، یہاں کوئی اور کیسے آتا۔ اب تم مر رہے ہو تو میں یہ دروازہ بند کرنے جا رہا ہوں‘‘۔
میں تو ایک نالائق طالب علم ہوں ، چیزوں کو سمجھنے میں گاہے دقت ہوتی ہے۔ البتہ آپ میں سے کوئی میری رہنمائی کر دے تو عین نواز ش ہو گی کہ فرانز کافکا آخر کہنا کیا چاہتا تھااور اس نے یہ کہانی کس کے لیے لکھی تھی؟
..