سوشل میڈیا کی بدولت مجھ سے رابطے میں رہنے والے کئی دوستوں کا اصرار ہے کہ Whatsappگروپس کے ذریعے لوگوں کی رائے بنانے کے دعوے دار ان دنوں بہت شدومد سے ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے کی راہ بنارہے ہیں۔ انہیں حیرت ہے کہ میں اس ’’مہم‘‘ کے بارے میں بے خبر نظر آیا۔ اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا۔بنیادی طورپر ایک رپورٹر ہونے کے ناطے مجھے اندیشہ ہائے دورودراز میں مبتلا ہونے کی عادت نہیں۔خود کو سیاسی مفکر بھی تصور نہیں کرتا۔ کوشش ہوتی ہے کہ فوری طورپر میسر ہوئی خبروں کے تناظر میں اس کالم میں تجزیہ ہوسکے۔میری دانست میں ان دنوں پاکستانی معیشت سے جڑے کئی سوالاتMake or Breakکی صورت اختیار کررہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تنائو بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اتوار کے دن ملتان میں ’’ہنگامی‘‘ دِکھتی پریس کانفرنس کے ذریعے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس تنائو کو بلکہ ایک بار پھر کشیدگی کی طرف بڑھنے کی چتائونی سنائی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ افغانستان سے امریکی فوجیں نکالنے کو اتاولی ہورہی ہے۔ FATFنے پندرہ اپریل کو حالیہ دورئہ پاکستان کے بعد اپنی بنائی رائے کے اظہار کے لئے ایک رپورٹ جاری کرنا ہے۔ ہمارے وزیرخزانہ IMFسے ایک اور پیکیج کے حصول کو حتمی شکل دینے کی خواہش میں واشنگٹن روانہ ہوچکے ہیں۔شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے خلاف احتساب عدالت میں فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔ آصف علی زرداری بھی جعلی اکائونٹس کے حوالے سے پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ان سب معاملات سے جڑے بے شمار پہلو ہیں جو ہماری نگاہ سے اوجھل ہیں۔میری توجہ ان کی تلاش پر مرکوز رہنی چاہیے۔ صدارتی یا پارلیمانی نظام میں کونسا نظام ہمارے لئے بہتر ہے اس کے بارے میں مذاکرے اور مناظرے درکار ہیں۔ مجھ ایسا ڈنگ ٹپائو کالم نگار خود کو ایسے مناظروںمیں شرکت کے قابل بھی نہیں سمجھتا۔ اپنی ’’مفکرانہ رائے‘‘ کا اظہارتو دور کی بات ہے۔ذرا ٹھنڈے دل سے اگر سوچیں تو صدارتی نظام اس ملک پر 1958ء سے 1968ء تک بہت جلال سے طاری رہا۔ پڑھے لکھے افراد کی اکثریت کا خیال ہے کہ اس نظام نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بن جانے کی راہ پر لگایا۔
اسکے باوجود جنرل ضیاء نے 1977ء میں پارلیمانی نظام پر مبنی 1973ء کے آئین کو معطل کردیا۔ 1985ء تک مارشل لاء کا نفاذ رہا۔ اس برس اسمبلی بحال ہوئی تو ا ٓٹھویں ترمیم کے ذریعے ایک بااختیار صدر کا وجو دبرقرار رکھا گیا۔ اس اختیار کی بدولت جنرل ضیاء نے اپنی ہی بنائی اسمبلی کو توڑ دیا۔1990ء کی دہائی میں صدر غلام اسحاق خان نے دو حکومتوں کو آئین کی ا ٓٹھویں ترمیم کے تحت ملے اختیارات کی بدولت برطرف کیا۔ ان کے بعد سردار فاروق خان لغاری نے اپنی جماعت کی حکومت ان ہی اختیارات کی بنیاد پر فارغ کردی۔ اس کے بعد نواز شریف کی حکومت آئی تو آئین سے آٹھویں ترمیم حذف کرنے کے باوجود جنرل مشرف کے ٹیک اوور کو روک نہیں پائی۔جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 2002ء تک عملاََ صدارتی نظام ہی چلایا۔ انہوں نے جو پارلیمان منتخب کروائی وہ آٹھویں ترمیم کو بحال کرتے ہوئے ایک طاقت ور صدر کے خوف میں مبتلا رہی۔
بالآخر 2010ء میں 1973ء میں پاس ہوئے آئین کی اصل صورت کافی حد تک بحال ہوگئی۔حالیہ تاریخ کے تناظر میں ہم بآسانی یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ نصابی اعتبار سے پارلیمانی نظام کو 1977ء سے آج تک کام کرنے کو حقیقی معنوں میں فقط 9سال گزرے ہیں۔یہ عرصہ کسی نظام کی افادیت یا نقصانات کے بارے میں حتمی رائے بنانے کے لئے کافی نہیں۔پارلیمانی نظام کی افادیت کو قطعی طورپر رد کردینے کے باوجود Whatsappکے ذریعے رائے عامہ بنانے کے دعوے دار موجودہ نظام میں رہتے ہوئے صدارتی نظام لاگو نہیں کرسکتے۔ ہماری پارلیمان ایک قانون ساز ادارہ ہے آئین ساز اسمبلی نہیں۔دو تہائی اکثریت کے ذریعے البتہ یہ صدارتی اختیارات میں اضافہ ضرور کرسکتی ہے۔ صوبوں کو میسرخودمختاری کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔عمران خان صاحب صوبائی خودمختاری کے اطلاق سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس کی وجہ سے وفاقی حکومت ’’کنگال‘‘ ہوگئی ہے۔ وہ مگر صوبائی حکومتوں کے اختیارات کم کرنے کے لئے آئین میں ترمیم نہیں کرسکتے۔ بذاتِ خود وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ ڈاکٹر عارف علوی کو اپنا ’’مانیٹر‘‘ بنانہیں سکتے۔
فرض کیا ان کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہو تب بھی وہ اپنے ہی لگائے صدر کو مستقبل کا سردار فاروق خان لغاری بنانے کو تیار نہیں ہوںگے۔ مذکورہ حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں صدارتی نظام کے لوٹ آنے کے امکانات کے بارے میں سوشل میڈیا پر مچائے شور کو نظرانداز کرنے کومجبور ہوں۔میرے کئی دوستوں کا یہ اصرار بھی ہے کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا پر چھائے حامیوں کی اکثریت بھی ان دنوں صدارتی نظام کی فیوض وبرکات سمجھانے میںمصروف ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریک انصاف کے پالیسی سازوں کا اہم ترین گروہ اس نظام کی واپسی کی تیاری کررہا ہے۔فقط بحث کو طول دینے کے لئے اس سوال پر غور ہوسکتا ہے۔ عمران خان صاحب اگر واقعتا صدارتی نظام کو اس ملک میں لاگو ہوتا دیکھنا چاہ رہے ہیں تو انہیں موجودہ قومی اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کی راہ بنانا ہوگی۔
انتخابات کے لئے بنائی عبوری حکومت آنے کے بعد وہ انتخابی مہم میں صدارتی نظام کی اہمیت اجاگر کرسکتے ہیں۔ فرض کیا انہیں اس کی بدولت آئندہ اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل بھی گئی تو آئین کی ’’پارلیمانی روح‘‘ اپنی جگہ برقرار رہے گی۔ وہ صدارتی منصب کو بااختیار بنانے کی کوشش کریںگے تو قومی اسمبلی کے ذریعے پاس ہوئی ترامیم سینٹ سے منظور نہ ہوپائیں گی۔
سینٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے انہیں مارچ 2020ء تک انتظار کرنا ہوگا۔اس پہلو کو نگاہ میں رکھیں تو خان صاحب کو صدارتی نظام لانے کی جلدی لاحق نہیں ہونی چاہیے۔ فی الوقت عمران خان صاحب کو اس نظام کے تحت ہی کام کرتے ہوئے Deliverکرنا ہوگا۔ وہ قطعی طورپر ناکام رہے تو شاید صدارتی نظام کی ’’اہمیت‘‘ بے شمار لوگوں کو ایک بار پھر یاد آجائے۔ اس صورت میں بھی البتہ کوئی گارنٹی نہیں کہ اگر کسی نہ کسی صورت پاکستان میں صدارتی نظام لاگو ہوجائے تو اس کے عملی نفاذ کے لئے منتخب ہوئے صدر عمران خان ہی ہوںگے۔ جو نظام میسر ہے فی الحال اسی پر گزارہ کرنا ہوگا۔ اس کے سوا کوئی اور راہ نہیں۔