چپ چاپ اسحاق ڈار ماڈل

’’لیکن ہمارا گیا کچھ نہیں‘‘ والد خاموشی سے سنتا رہا‘بیٹے نے کہا ’’ڈبہ آپ کھولتے یا میں‘ یہ جنگل میں کھلتا یا گھر میں‘ نتیجہ ایک ہی نکلتا‘‘ والد نے پہلو بدلا اور آہستہ سے کہا ’’بیٹا یہ بات اتنی سادہ نہیں‘ آپ کتنا بڑا نقصان کر چکے ہیں! آپ نہیں جانتے‘‘ بیٹے نے ناں میں سر ہلا دیا‘ وہ ہار ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔

یہ بات بظاہرمعمولی تھی‘ آپ بھی سنیں گے تو آپ بھی بیٹے سے اتفاق کریں گے‘یہ ایک گاؤں کی کہانی تھی‘ گاؤں جنگل کے ساتھ تھا‘ بیٹا مدرسے میں پڑھتا تھا‘ وہ چھٹی پر گھر آنے لگا تو استاد نے اسے لکڑی کا چھوٹا سا ڈبہ دیا اوروہ والد تک پہنچانے کا حکم دے دیاتاہم استاد نے بچے کو نصیحت کی ’’ تم نے راستے میں کسی قیمت پر یہ ڈبہ نہیں کھولنا‘‘بچے نے وعدہ کر لیا‘ وہ گھر کی طرف چل پڑا‘ راستے میں اسے ڈبے میں کوئی چیز ہلتی ہوئی محسوس ہوئی ’’یہ کیا چیز ہے‘‘ وہ بار بار سوچنے لگا‘ وہ ڈبہ کھول کر دیکھنا چاہتا تھا‘ ہمیں جس چیز سے روکا جائے ہم وہ ضرور کرتے ہیں‘ یہ ہماری نفسیات ‘ یہ ہمارا جینسز (ابتدا) ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ کو جنت میں پھل کھانے سے منع کیا تھا لیکن وہ دونوں وہ پھل کھا کر رہے‘کیوں؟ ہماری نفسیات! میں بچپن میں میٹھا نہیں کھاتا تھا‘ میرے دودھ یا چائے میں چینی مل جاتی تھی تو مجھے ابکائی آ جاتی تھی لیکن مجھے جب شوگر کا مرض لاحق ہوا تو مجھے میٹھا اچھا لگنے لگا‘ میں اس تبدیلی کو کسی دوائی کا کیمیکل ری ایکشن سمجھتا رہا مگر پھر ڈاکٹر نے بتایا’’ آپ کومیٹھا منع کر دیا گیا ہے یہ آپ کو اس لیے اچھا لگ رہا ہے‘‘ یہ ہماری فطرت ہے ہمیں جس سے جتنا روکا جائے ہم اس کی طرف اتنے ہی مائل ہوتے ہیں۔

بچہ بھی بار بار ڈبے کو دیکھتا تھا اور اس کے اندر ڈبہ کھولنے کی خواہش بڑھتی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ جنگل کے درمیان پہنچ کر مجبور ہو گیا‘ اس نے سوچا میں ڈبہ کھولتا ہوں‘ دیکھتا ہوں اور بند کر کے والد کو دیتا ہوں‘ والد اور استاد دونوں کو خبر نہیں ہو گی‘ وہ گھاس پر بیٹھا اور ڈبہ کھول دیا‘ ڈبے کے اندر چوہے کا چھوٹا سا بچہ تھا‘ چوہے کے بچے نے چھلانگ لگائی اور جنگل میں غائب ہو گیا‘ بچہ پریشان ہو گیا‘ وہ اب والد اور استاد کو کیا منہ دکھائے گا‘ وہ ان سے سچ بولے یا جھوٹ ؟وہ دیر تک گومگو کی حالت میں بیٹھا رہا یہاں تک کہ اس نے والد کو سچ بتانے کا فیصلہ کر لیا‘ وہ گھر آیا اور والد کو ساری بات بتا دی تاہم آخر میں اس کا کہنا تھا‘ ڈبے میں چوہے کا بچہ تھا‘ ڈبہ آپ کھولتے یا میں اور یہ گھر میں کھلتا یا جنگل میں‘ چوہے نے بہرحال نکل کر بھاگ ہی جانا تھا ‘ ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔

والد نے یہ دلیل سن کر کروٹ بدلی اور نرم آواز میں کہا ’’بیٹا آپ نے اپنا بہت بڑا نقصان کر دیا‘ آپ نے میرا اور استاد دونوں کا اعتماد کھو دیا اور اعتماد دنیا کی سب سے بڑی نعمت‘ سب سے بڑی دولت اور سب سے بڑا جذبہ ہوتا ہے‘‘ بیٹا خاموشی سے سنتا رہا‘ والد نے کہا ’’بیٹا آپ کے استاد نے آپ کے ہاتھوں چوہا نہیں بھجوایا تھا‘ اعتماد بھجوایا تھا اور آپ نے وہ اعتماد توڑ کر خود کو بے توقیر کر دیا‘‘بچے نے والد کی بات سے اتفاق نہ کیا لیکن ہمیں کر لینا چاہیے۔

ہم لوگ محبت کو دنیا کا سب سے بڑا جذبہ سمجھتے ہیں لیکن ٹرسٹ (اعتماد) محبت سے بھی بڑا جذبہ ہوتا ہے‘ ہم جس سے محبت کرتے ہیں ضروری نہیں ہم اس پراعتماد بھی کرتے ہوں چنانچہ اعتماد سپریم ہے اور ہم ہوں‘ ریاست ہو یا پھر حکومت ہو یہ جب اعتماد کھو دے تو پھر کچھ نہیں بچتااور ہماری موجودہ حکومت بھی اس وقت اعتماد کے شدید بحران کا شکار ہے‘ میں دل سے سمجھتا ہوں عمران خان نے ووٹ حاصل کیے‘ انھیں اب پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملنا چاہیے لیکن میری یہ خواہش اب پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

میاں نواز شریف کی ضمانت‘ شہباز شریف کی لندن روانگی‘ حمزہ شہباز کے ایشو پر نیب کی پسپائی اور اب حنیف عباسی کی رہائی‘ یہ واقعات ثابت کررہے ہیں واپسی کا سفر شروع ہو چکا ہے اور اس کی واحد وجہ اعتماد ہے‘ حکومت اپنا اعتماد کھوتی جا رہی ہے‘ بالخصوص ہم معاشی میدان میں بری طرح مار کھا رہے ہیں‘ کاروبار تباہ ہو چکے ہیں‘ انڈسٹری آئی سی یو میں پہنچ چکی ہے اور رئیل اسٹیٹ کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے۔

ڈالر حکومت کے کنٹرول میں نہیں‘ ہماراٹوٹل بجٹ 5932 ارب روپے ہے لیکن حکومت نے آٹھ ماہ میں 3400 ارب روپے قرض لے لیا‘ حکومت روز 15ارب روپے قرض لے رہی ہے‘ ہم اگر اپریل‘ مئی اور جون کے مہینوں کا قرض بھی شامل کر لیں تو حکومت بجٹ سے پہلے کل بجٹ کے برابر قرضہ لے چکی ہو گی اوریہ سیدھی سادی تباہی ہے‘ ٹیکسوں کے ریونیو میں بھی 236 ارب روپے کا شارٹ فال ہے‘ یہ شارٹ فال بجٹ تک ساڑھے چار سو ارب روپے ہوجائے گا‘ بجلی کی قیمت میں اوسطاً ایک روپیہ 27 پیسے فی یونٹ‘ گیس میں 143فیصد اور پٹرول کی قیمت میں 11فیصد اضافہ ہو گیا‘ مہنگائی ملکی تاریخ میں پہلی بار دس فیصد تک پہنچ گئی۔

ہمارے ہمسائے افغانستان میں مہنگائی چار فیصد‘ چین میں1.7 فیصد‘ بھارت میں 2.57 فیصد‘ بنگلہ دیش میں5.47 فیصد اورسری لنکا میں 4.3 فیصدہے گویا ہم افغانستان سے بھی اڑھائی گنا مہنگے ہیں‘ ادویات کی قیمتوں میں بھی چار سو فیصد اضافہ ہو گیااور آپ ملک کی کسی دکان‘ دفتر‘ فیکٹری یا گھر میں چلے جائیں‘ آپ کو لوگ روتے ہوئے ملیں گے‘ بینکوں کے پاس کیش نہیں‘ آپ کو ہر دوسرا شخص ادھار مانگتا ملے گااور لوگ بچوں کی فیسیں اور گھر کے یوٹیلٹی بل پورے نہیں کر پا رہے۔

یہ صورتحال اگر اسی طرح جاری رہی تو ملک میں بجٹ کے بعد دنگے فساد شروع ہو جائیں گے‘ ہم قحط اور کساد بازاری کے دہانے پر پہنچ جائیں گے لیکن آپ وزراء کے دعوے دیکھیے‘ یہ لوگ سپر جینئس ہیں یا پھر یہ عقل سے بالکل پیدل ہیں کیونکہ ان حالات میں کوئی نارمل شخص یہ دعوے نہیں کر سکتا۔ آپ کو یاد ہو گا عمران خان نے دعویٰ کیا تھا یہ ملک کے اندر سے آٹھ ہزارارب روپے ٹیکس جمع کر کے دکھائیں گے‘ یہ بھی فرمایاتھا ایماندار حکومت آئے گی تو بیرون ملک سے ڈالروں کی بارش ہو جائے گی‘ یہ دعویٰ بھی کیا گیا دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں سرمایہ کاری کے لیے دیانتدار حکومت کا انتظار کر رہی ہیں۔

مراد سعید نے تو یہ تک فرما دیاتھا ہم سوئٹزرلینڈ سے دو سو ارب ڈالر واپس لائیں گے اور سو ارب ڈالر فلاں کے منہ پر ماریں گے اور سو ارب فلاں کے منہ پر‘ میں نے کل ان کی ایک اور ویڈیو دیکھی‘ یہ اس میں فرما رہے تھے ہم پاکستان کے لوٹے ہوئے 60 ہزار ارب روپے واپس منگوائیں گے (یہ اتنا بھی نہیں جانتے پاکستان کا کل بجٹ ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے ہے اور یہ 60 ہزار ارب روپے باہر سے لانا چاہتے ہیں) اور آپ کو یہ بھی یاد ہوگا عمران خان نے بتایا تھا پاکستان میں روزانہ آٹھ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے‘ حکومت کو 237دن ہو چکے ہیں۔

ایماندار قیادت کی وجہ سے یہ کرپشن یقینا رک چکی ہے لہٰذا ہمارے خزانے میں اب تک 1896ارب روپے کا اضافہ ہو جانا چاہیے تھا لیکن ریونیو تیزی سے گرتا چلا جا رہا ہے‘صرف اسٹاک ایکس چینج میں دس دن میں چھ کھرب روپے ڈوب گئے لہٰذا پوری دنیا خطرے کے سائرن بجا رہی ہے‘ آپ ورلڈبینک‘ایشین ڈویلپمنٹ بینک اوراسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے تازہ ترین بیانات دیکھ لیجیے‘ یہ تمام ادارے پاکستانی معیشت پر شدید پریشان ہیں اور یہ پریشانی ثابت کرتی ہے حکومت اندر اور باہر دونوں جگہوں پر اعتماد کھو چکی ہے اور یہ بہت بڑا نقصان ہے‘ عمران خان کے ساتھ لوگوں کی امیدیں بندھی تھیں‘ یہ امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں‘ حکومت اب زیادہ دیر تک سوشل میڈیا پر حسن نثار‘ ہارون الرشید اور ندیم ملک کو گالیاں دے کر صورتحال نہیں سنبھال سکے گی‘حکومت کو اب ضد چھوڑ دینی چاہیے۔

یہ لوگ اب مان لیں یہ غلط فہمی کا شکار تھے‘ یہ آج تک جس اسحاق ڈار کا منہ چڑاتے رہے ہیں‘ وہ جیسے تیسے‘ مانگ تانگ کر ملک چلاتا رہا اور ملک ٹھیک ٹھاک چلتا رہا‘ یہ آئے اور آ کر ہر ادارے‘ ہر چیز کا ستیا ناس کر دیا چنانچہ عقل کا تقاضا ہے یہ معاشی پالیسیوں کو چپ چاپ اسحاق ڈار ماڈل پر لے جائیں‘ یہ ڈار صاحب کی تکنیکس بھی لے لیں اور ٹیم بھی تاکہ کم از کم معیشت سانس تو لے سکے‘ ملک آگے چل سکے‘ اسد عمر جو بھی تیر چلانا چاہتے ہیں یہ آہستہ آہستہ چلائیں‘ یہ اناڑی مکینک کی طرح سارا انجن کھول کرنہ بیٹھ جائیں‘ یہ اگر ایک بار کھل گیا تویہ پھر کسی سے بند نہیں ہو سکے گا۔

حکومت اپنی کریڈیبلٹی اپنے ٹرسٹ پر بھی توجہ دے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ اگر اس بچے کی طرح ہر ڈبہ کھول کر دیکھتی رہے گی اور ڈبوں میں بند چوہے اسی طرح بھاگتے رہیں گے توپھر لوگوں کا حکومت پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور اعتماد نکاح کی طرح ہوتا ہے‘ یہ اگر ایک بار ٹوٹ جائے توپھر یہ دوبارہ بحال نہیں ہوتا‘ لوگوں نے عمران خان پر اعتماد کیا تھا‘ یہ عوام سے اس اعتماد کا انتقام نہ لیں‘ یہ ان پر رحم کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے