جمہوریت، ملوکیت، اسلامی نظام، صدارتی طرز حکومت، کوئین یا کنگ۔ اشتراکی ممالک یا کوئی اور طرزِ حکمرانی۔ جو بھی دنیا کے193 ممالک میں کسی نہ کسی طرح سے رائج ہے‘ یہ اجازت دیتا ہے کہ کوئی شخص یا ٹولہ قانونِ ریاست سے بالاتر ہو جائے یا نظام کو اپنی باندی بنا لے؟۔
یا پھر لاء انفورسمنٹ کے اہلکار اور ذمہ دار خود ہی سماج کے مختلف طبقات پر نفاذِ قانون کے درجنوں معیار بنا چھوڑیں۔ ہر ایک طبقے کے لیے علیحدہ علیحدہ۔ مجرموں کی چوائس اور Paying capacity کے عین مطابق۔ ذرا آئیے پہلے انجمنِ سمدھیانِ سیاست سے شروع کر لیں‘ جن میں سے درِ اقتدار کا ایک سمدھی گروہ آج کل عدالتی مفرور اور ”اکنامک ہِٹ مین‘‘ ہے۔ چند ماہ سے کچھ لوگ عملی طور پر عجیب منطق بگھار رہے ہیں۔ لکھ کر بھی اور بول کر بھی۔ اور وہ یہ کہ پاکستان میں گورننس کی تاریخ عمران خانی کابینہ کی تشکیل کے دن سے شروع ہوتی ہے۔ وہ کسی کو بھی پچھلے 70/71 سالوں کا ذکر کرنے کی اجازت دینے پر تیار نہیں۔ ان کے مطابق سارے مسائل کا نقطۂ آغاز بھی موجودہ حکومت سے ہی ہوتا ہے۔ اس شریفانہ نظریۂ ضرورت کی شانِ نزول یوں ہے: کھایا پیا معاف کرو… این آر او کا رستہ صاف کرو۔ ایسی سوچ کے پیچھے چُھپی خواہش اور ضرورت کو تاریخی عمل کہا جا سکتا ہے نہ ہی تاریخِ پاکستان کا حقیقی تناظر۔ اس لیے یادش بخیر! ذرا، سالِ گزشتہ میں جھانک لیتے ہیں‘ جب سابق وزیرِ اعظم کے سرکاری جہاز نے نور خان ایئربیس پنڈی سے اُڑان بھری۔ فلائیٹ پاکستان وَن کی منزل انگلستان تھی مگر اس کی مراد وی آئی پی فلائیٹ کے ٹیل اینڈ پر واش روم کے ساتھ رکھے بریف کیس اُڑان سے پہلے ہی تھرتھر کانپ رہے تھے۔ جیٹ طیارہ جونہی پاکستان کی ایئر سپیس سے باہر نکلا‘ بریف اور اٹیچی کیس کے اندر سے لرزتا ہوا ہاتھ باہر نکلتا نظر آیا۔
راوی کہتا ہے‘ پلک جھپکنے میں ”اکنامِک ھِٹ مین‘‘ برآمد ہو گیا۔ ایک عدالتی مفرور‘ جس کے خلاف ضابطہ فوجداری کی دفعہ 87 اور دفعہ 88 سمیت دفعہ 512 ض ف کی کارروائی بھی مکمل ہوئی۔ ملک کی آخری عدالت سے لے کر اولین اختیارِ سماعت رکھنے والی ٹرائیل کورٹ تک اُسے ڈھونڈ رہی ہے‘ جس نے ملک کے عدالتی نظام سے بھی ”چار سو بِیسی‘‘ کر دی۔ مفرور نے کہا: وہ سخت بیمار ہے۔ اس نے لندن کے مہنگے ترین ہسپتال London Bridge Hospital کا بیڈ رینٹ پر لیا۔ فوٹو سیشن کے لیے۔ اپنے چہرے پر بازو رکھا تاکہ فوٹو سیشن کے دوران اس کی بے اختیار ہنسی کی تصویر نہ بن سکے۔ پھر اس نے یہ پِکچر پریس کے لیے ریلیز کر دی۔ مگر اگلے ہی روز یہ عدالتی مفرور‘ جس کے سمدھی کے دو بیٹے بھی اسی شہر میں مفرور ہیں‘ جن کے دو عدد کزن بھی عدالتی مفرور ہیں‘ بہنوئی بھی اور اسی عدالتی مفرور کے دونوں بیٹے بھی پاکستان کے نظامِ قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے Out-Laws کی زندگی گزار رہے ہیں‘ لندن کی سڑکوں پر بغیر کسی میڈیکل سپورٹ دوڑتا نظر آیا۔ جو جتھہ آج کل یہ کہتا ہے کہ ان کے جانے کی باتیں جانے دو‘ وہ اس مفرورگینگ کے واپس آنے کی، قانون کے سامنے سرنڈر کرنے کی اور عدالت کے سامنے الزامات کا مقابلہ کرنے کی تجویز کیوں نہیں پیش کرتا۔
لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے نے نوُن لیگ کے گزشتہ 5 سالہ اقتدار سے پہلی حکومت کا دور یاد دِلا دیا۔ مقام ہے اسلام آباد کا پارلیمنٹ ہائوس۔ وقت ہے نیم شَب۔ انہی عدالتی مفروروں کی پارٹی نے سوات میں ایک ایسے مولوی کے خلاف پرجوش طریقے سے ریاستی ایکشن کی منظوری دی‘ جس نے کہا تھا: نہ میں پارلیمنٹ کو مانتا ہوں اور نہ ہی سپریم کورٹ کو۔ سمدھی ٹولے کا عدالتی مفرور جو کچھ کہہ رہا ہے اور کر رہا ہے‘ یہ بھی سوچ لیجئے کہ اس کا معاملہ سوات کے مولوی صاحب سے کس طرح مختلف ہے‘ جس نے کہا تھا‘ میں پارلیمنٹ کو نہیں مانتا۔ سمدھی ٹولے کا یہ فرزندِ مفرور اور بیزارِ عدل 3 مارچ 2018ء کو ملک کے سب سے بڑے صوبے سے ایوانِ بالا کا رُکن منتخب کرایا گیا۔ ہائوس فیڈریشن کے باقی ارکان نے 12 مارچ 2018ء کو اپنے عہدوں کا حلف لیا۔ آج 402 دن گزر جانے کے بعد بھی سمدھی ٹولے کا یہ عدالتی مفرور سینیٹ آف پاکستان کو ماننے سے انکاری ہے۔ حلف اُٹھانے سے انکاری ہے۔ وطن واپس آکر اس کے اجلاس میں شرکت کرنے تک سے بھی انکاری ہے۔ یہاں کئی اہم آئینی سوال پیدا ہوتے ہیں۔
پہلا یہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ شدہ عشروں پرانے جاوید ہاشمی کیس جس کی رو سے کوئی عوامی عہدہ خالی نہیں رکھا جا سکتا‘ خواہ اس کی وجہ پبلک آفس ہولڈر کی نا اہلی ہو، عہدے میں قانونی سقم یا پھر کوئی بھی اور تکنیکی صورتِ حال۔ عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے کی بنیاد پاکستان کا آئینی ادارہ جاتی نظام ہے‘ جس پر کروڑوں، اربوں روپے خرچ کرکے وفاق کو ہائوس آف فیڈریشن میں مساوی نمائندگی دینے کے لیے سینیٹ کے الیکشن منعقد کروائے جاتے ہیں۔ یہ کوئی بے روح اور بے جان ایکسرسائز نہیں‘ بلکہ اس کے پیچھے آئین کا ایک پورا باب، خاص طور سے آرٹیکل 218 ہے‘ جس سے پیدا ہونے والے مباحث پر مبنی آئینی عدالتوں کے فیصلوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ دوسرے نمبر پر پاکستان میں ایڈمنسٹریشن آف کریمنل جسٹس سسٹم کا طے شدہ اصول ہے کہ جو شخص عدالتی مفرور (Proclaimed Offender) ہو جائے‘ وہ عام قانونی حقوق سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ قانونی نظام توازن پر مبنی ہے‘ جس میں شہری کو ملنے والا ہر حق ان کے لیے ریاست کی طرف فرض پر مبنی ہوتا ہے۔ عین اُسی طرح جو شخص خود قانونی ضوابط اور اس کی عمل داری کو تسلیم ہی نہ کرے‘ ریاستی نظام اس کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتے۔
ایک دوسرا منظرنامہ بھی قابلِ توجہ ہے۔ کبھی ہم نے غور نہیں کیا؟ پاکستان کی سیاسی بدمعاشیہ کے کون سے بد عنوان کردار، کرپشن کیسز میں ڈوب کر سات سمندر پار جا پہنچے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ میگا کرپشن کے وکٹری سٹینڈ پر اس وقت تینوں پوزیشنیں سمدھی ٹولے کے پاس ہیں۔ یہ وہی ٹولہ ہے جو شہید بھٹو کے متنازعہ مقدمے سے لے کر سیف الرحمان کے منصفانہ احتساب تک‘ اپنے سیاسی مخالفین کو عدالتوں کے سامنے سر جھکانے‘ قانون کی بالادستی کے سامنے سرنڈر کرنے اور الزامات کا دفاع کرنے کے لیے سرکاری عہدے سے استعفیٰ دینے کا بھاشن دیتے آئے ہیں۔ اپنی باری آ جائے تو کبھی کمر درد، کبھی دردِ جگر اور این آر او کا کمر کَس نسخہ۔ میرا 4 عشروں کا وکالتی تجربہ کہتا ہے‘ اصل واقعات پر بنا ہوا مقدمہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا‘ مگر سیاسی مقدمات کے فیصلوں کا اپنے ہاں وہی حال ہے جو موغادیشو، یوگنڈا، رونڈا اور برونڈی میں انگریزی کا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پچھلے الیکشن اور اس کے بعد کئی سووموٹو ایکشن لیے۔ الیکشن کمیشن کو یہ اہم سوال طے کرنا باقی ہے اگر کوئی شخص عوامی عہدے پر انتخاب کے بعد حلف ہی نہ اُٹھائے تو کیا اس کی چھٹی سپیکر یا چیئرمین منظور کر سکتا ہے۔ نظام قانون و انصاف بعض مقدمات کی وجہ سے ان دنوں In The Line Of Question آیا ہوا ہے۔ کچھ سوال سیاسی ہیں‘ جن کا مقصد پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں۔ کچھ سوال آئینی اور بنیادی حقوق سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے سوالوں کو کرکٹ کی اصطلاح میں”well left” نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کا جواب متعلقہ فورم سے ہی آئے۔ ہمارے اس نظام پر سب سے بڑا سوال بے آسرا، بے سفارش، بے مال اور بے حیثیت قیدی اور حوالاتی ہیں‘ جو ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں مرغی چوری اور 150 روپے رشوت خوری والے مقدمے بھگت رہے ہیں۔ لاتعداد قیدی بیمار ہوئے، سلاخوں کے پیچھے مر گئے‘ مگر انہیں کسی نے ڈسپرین نہ پہنچائی۔ اسی لیے لوگ ایسے نظام پر چلنے والے سماج کو جہاں بندہ اور آقا کی تفریق ہو‘ تقسیمِ رزق سے تقسیمِ انصاف تک‘ قانون شکنوں کی جنتِ ارضی کہتے ہیں۔