مکہ میں اسلامی دعوت کے امکانات پھیلنے کی بجائے سمٹتے چلے جا رہے تھے۔ حضورؐ کی مدد اور نصرت کے دو حفاظتی ستون بھی اب باقی نہ رہے تھے۔ کعبہ شریف کے متولی اور اہم سردار جناب ابو طالب بھی دنیا سے جا چکے تھے۔ یہ حضور نبی کریمؐ کے مشفق چچا جان تھے۔ حضرت خدیجہؓ جو حضورؐ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ مکہ کی مالدار ترین خاتون تھیں‘ وہ بھی وفات پا چکی تھیں۔ یوں ان دونوں ستونوں کی عدم موجودگی میں حضور نبی کریمؐ عوامی اور دعوتی زندگی میں عدم تحفظ اور گھریلو زندگی میں بھی غم اور دکھ میں مبتلا ہو گئے۔ دشمنوں نے اپنی دشمنی میں اضافہ کر دیا تھا۔
دشمنی کی وجہ صرف توحید کی دعوت تھی۔ حضورؐ نے سوچا کہ ایسے حالات میں مکہ کی بجائے کیوں نہ طائف میں جا کر وہاں کے سرداروں کو دعوت دی جائے۔ وہ قبول کر لیں تو اسلامی دعوت کو ایک مضبوط حفاظتی حصار اور قلعہ مہیا ہو جائے گا؛ چنانچہ آپؐ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو ہمراہ لیا اور طائف میں جا کر وہاں کے تین سرداروں کے سامنے اپنی دعوت کو پیش کیا۔ ان تینوں نے حضورؐ کی دعوت کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ صرف انکار ہی ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔ ان منکر ظالموں نے انتہائی بدتمیزی اور تکبر کے ساتھ دعوت کو رد کیا۔ ان میں سے ایک کہنے لگا؛اگر اللہ نے آپؐ کو رسول بنا دیا ہے‘ تو میں کعبہ کا غلاف پھاڑ دوں گا۔ ان ظالموں نے عربوں کی روایتی مہمان نوازی کا بھی کوئی خیال نہ کیا۔ ضیافت تو دور کی بات ہے‘ وہ عملی طور پر بدتمیزی کی آخری حدوں کو چھونے کی تیاری کر چکے تھے۔ حضورؐ جب ان کے ہاں سے باہر نکلے‘ تو اوباش چھوکروں کا ایک ہجوم تھا‘ جو آوازے کسنے لگا۔
حضورؐ ذرا آگے بڑھے تو انہوں نے پتھر پھینکنے شروع کر دیئے۔ حضرت زیدؓ آگے پیچھے ہو کر۔ حضورؐ کے دائیں بائیں ہو کر اپنے مہربان آقا کا تحفظ کر رہے تھے ‘مگر حضورؐ زخمی ہو چکے تھے۔ واپس مکہ تشریف لائے تو طائف میں پیش آنے والے واقعہ سے اہل مکہ آگاہ ہو چکے تھے؛ چنانچہ مصیبتیں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئیں۔ طعنوں کے تیر مزید تیز ہو کر قلب و جگر کو چھیدنے لگے۔
حضورؐ گزشتہ چند سال سے حج کے دنوں میں دعوت کا کام مسلسل کر رہے تھے۔ سارے عرب سے لوگ حج کیلئے آیا کرتے تھے۔ حضور نبی کریمؐ چھپ چھپا کر بعض قبائل سے ملتے۔ حاجیوں سے راہ و رسم بڑھاتے اور توحید کی دعوت دیتے۔ اس دعوت کے انفرادی طور پر اثرات بھی سامنے آتے۔ عرب کے کسی علاقے سے کوئی اللہ کا بندہ مکہ میں آتا اور مسلمان ہو کر واپس چلا جاتا‘ مگر سب سے بڑھ کر اجتماعی سطح پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ یثرب میں ہوئے۔ وہاں سے آئے ہوئے لوگ مسلمان ہونے لگے۔ واپس جا کر دعوت دینے لگے ‘پھر انہوں نے ایک داعی کو بھیجنے کا مطالبہ کر دیا۔ حضورؐ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو بھیج دیا۔ یثرب کے ایک اہم مسلمان حضرت اسعد بن زرارہؓ ان کے ساتھ ہو لئے۔ دعوت پھیلتی چلی گئی ؛ حتیٰ کہ یثرب کے سردار حضرت اسعد بن صغیر مسلمان ہوئے تو قبیلہ بنو عبدالاشہل کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ بھی مسلمان ہو گئے۔ ان کے مسلمان ہونے سے شام تک ان کا سارا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ صورتحال یہ ہو گئی کہ یثرب میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہو گئی۔ اب ان لوگوں نے حضورؐ کو یثرب آنے کی دعوت دی اور حضورؐ ہجرت کر کے یثرب تشریف لے گئے۔ یثرب اب ”مدینہ الرسولؐ‘‘ بن گیا اور حضرت محمد کریمؐ مدینہ کی نئی ریاست کے حکمران بن گئے‘ یعنی نئی قوم اور نئی ریاست وجود میں آ گئی۔
ہجرت سے ایک سال قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولؐ کو راتوں رات مکہ سے بیت المقدس اور وہاں سے ساتویں آسمان تک سیر کراتے ہوئے جنت کی بادشاہت کے نظارے بھی کروا دیئے۔ مسجد اقصیٰ میں حضورؐ نے تمام انبیاء کو نماز پڑھائی۔ نبیوں کی امامت کے حوالے سے پیغام واضح تھا کہ سارے نبیوں اور رسولوں کے وارث حضرت محمد کریمؐ ہیں۔ آپؐ مکہ کو چھوڑیں گے ضرور‘ مگر عارضی طور پر۔ آخر کار مکہ بھی آپؐ کی قدم بوسی کرے گا۔
مسجد اقصیٰ پر بھی آپؐ کی امت کا جھنڈا لہرائے گا۔ آسمانوں پر حضورؐ تشریف لے گئے تو ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیمؐ سے ملاقات ہوئی‘ جو بیت المعمور کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے۔ حضرت ابراہیمؑ نے حضرت محمد کریمؐ کا استقبال کیا۔ رسول اور صالح بیٹا کہہ کر خوش آمدید کہا۔ حضورؐ کی امت کے لئے پیغام دیا کہ جنت کی زمین جو کستوری ہے وہاں ”سبحان اللہ‘‘ الحمد للہ‘ لَاحول ولَا قوّۃ اِلّا باللہ‘ لا اِلہ اِلّا اللہ اور اللہ اکبر کا ورد کر کے شجر کاری کریں۔ حضورؐ نے فرمایا: حضرت ابراہیمؑ کی ساری اولاد میں سب سے بڑھ کر ان کے چہرے کے ساتھ مشابہت میری ہے۔ مزید فرمایا: بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے عبادت کے لئے داخل ہوتے ہیں۔ جو جماعت ایک دفعہ داخل ہوئی۔ قیامت تک اس کی باری نہیں آئے گی۔ آپؐ کو نہر کوثر بھی عطا فرمائی گئی۔ سدرۃ المنتہٰی پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات کا نظارہ بھی کیا‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے تکالیف کی انتہاؤں پر اپنے حبیبؐ کو کائنات کی سیر بھی کروائی اور یہ پیغام بھی دے دیا کہ محکومی کی مشکلات کا دور ختم ہو گیا ہے۔
جی ہاں! حضورؐ واپس تشریف لائے۔ سال کے اندر تیاریاں ہوئیں۔ پروگرام بنے اور حضرت محمد کریمؐ مدینے کی ریاست کے حکمران بن گئے۔ وطن بھی نیا تھا۔ قوم بھی نئی تھی۔ ریاست بھی نئی تھی۔ مہاجر اور انصار ایک ہو گئے تھے باہمی رشتہ لا الہ الا اللہ تھا۔ اسی رشتے پر ہم نے پاکستان بنایا نعرہ لگا۔ پاکستان کا مطلب کیا: لا الہ الا اللہ۔حضرت قائداعظمؒ نے مہاجروں اور انصاروں کی پاکستانی قوم بنائی۔ مدینے کی ریاست کے تجربے کی بات کی‘ مگر انہیں موقع نہ مل سکا۔ ہمیں آج ستر سال ہونے کو ہیں۔ ہم اپنی منزل نہیں پا سکے۔ سیاسی جماعتوں میں نفرتوں کا ایک طوفان ہے‘ جس کی وجہ سے ہم بھکاری بنے ہوئے ہیں۔ سود خور اداروں کے در پہ فقیر بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے کہہ دیا ہے؛ مہنگائی مزید بڑھے گی۔ آٹھ مہینے گزر گئے معاشی استحکام کی سمت معلوم نہیں ہو رہی۔ جناب عمران خان صاحب سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں‘ مگر افسوس کی بات ہے کہ اب وہ ٹوٹ رہی ہیں۔
صوبہ خیبر میں انہیں پانچ سال حکمرانی کے ملے‘ مگر وہ صوبہ آئیڈیل نہ بن سکا۔ لے دے کر پشاور کی ایک میٹرو بس تھی۔ میڈیا پر اس منصوبے کی لاگت میں بڑھوتری اور ناکامی کی جو شکل سامنے آ رہی ہے‘ اس سے بھی تحریک انصاف کی حکمرانی کا اچھا تاثر قائم نہیں ہو رہا۔ ہم سمجھتے ہیں اب وزراء کو ایسے بیانات سے مزید احتیاط کرنی چاہیے‘ جس میں لوگوں کو لٹکانے اور کاٹ پھینکنے کی باتیں ہوں۔ پولیس‘ ایف بی آر‘ بلدیات وغیرہ جیسے سول اداروں پر محنت کر کے ان کو عوام دوست بنایا جائے۔ عدل اور میرٹ کو ترجیح دی جائے۔ ایمنسٹی سکیم بھی اچھی بات ہے۔ میں کہتا ہوں سابق حکمرانوں سے بھی خان صاحب کو ملنا چاہیے۔ انہیں سمجھائیں کہ تمہارا اربوں کا مال جو باہر پڑا ہے‘ اسے پاکستان لائیں۔ کچھ مال پاک خزانے میں جمع کروا کر نیک نامی حاصل کریں۔ مال کا کچھ حصہ پاکستان میں انویسٹ کریں۔ امن‘ محبت‘ عدل اور بھائی چارے کی فضا میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں ‘جبکہ بدامنی اور نفرتوں کے ماحول میں معاشی سرگرمیاں سرد پڑتی ہیں اور جموں کا شکار ہوتی ہیں۔ پاک فوج اور قوم نے 70ہزار قربانیاں دے کر ملک کو امن دیا ہے۔ محبت‘ عدل اور بھائی چارے کی فضا بنانا سول حکومت کا کام ہے۔
جس طرح حضرت محمد کریمؐ نے مدینہ منورہ کے تمام اچھے برے لوگوں؛ حتیٰ کہ عبداللہ بن ابی تک کو ساتھ ملائے رکھا اور بتدریج مدینہ کی ریاست کو عسکری‘ معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کردیا ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہوگا۔ محترم عمران خان صاحب کو فکرمند ہو کر آگے بڑھنا چاہیے۔ مشکلات کے بعد آسانیاں تبھی پیدا ہوں گی‘ جب ہمارے اقدامات ریاست مدینہ کے خطوط کی جانب بڑھیں گے۔