زندگی کی تلاش میں کب جوگی بنا، کچھ زیادہ یاد نہیں. البتہ حافظے کی لوح پر کچھ دھندلے نقوش اور بہت سا کرب ضرور موجود ہے.
یوں تو شاہراہ علم پر گزشتہ 18 برس سے مسلسل سفر میں ہوں، لیکن باقاعدہ دشتِ طلب میں 14 برس پہلے اترا تھا.
یاد پڑتا ہے کہ کم سنی، خلوص اور کچھ غیر شعوری عوامل نے مل جل کر آبلہ پائی کو مطلوب و مقصود مومن قرار دے دیا تھا… کیا کہیے کہ تب سے اب تک کندھوں سے سامان نہیں اترا، منزل اوجھل ہو چکی، پاؤں سے زیادہ روح خاک آلود اور کپڑوں سے کہیں زیادہ قلب و جگر اُدھڑ چکے، لیکن سفر جاری ہے… بے سمت ہی سہی مگر سفر جاری ہے!
خورشیدِ شامِ رفتہ لوٹے تو اس سے پوچھوں
میں زندگی کی کتنی صبحیں لٹا چکا ہوں
2004 کی کسی اداس شام میں چپکے سے بہت رویا تھا. رات جب سبھی سو گئے تو آنکھوں نے ساون کی جھڑی لگا دی. اماں ساتھ والی چارپائی پر خراٹے لے رہی تھیں کہ انہیں بھنک پڑ گئی، وہ گھبرا کر خیریت پوچھنے لگیں تو بھائی نے ادھ کھلی آنکھوں بھانڈا پھوڑتے ہوئے کہا
"یہ تو شام سے رو رہا ہے، اس کا دل نہیں کرتا گھر سے جانے کا، میں سمجھا بھی چکا ہوں”
اماں نے اپنے دوپٹے سے میرے آنسو پونچھے اور چارپائی پر کچھ دیر گردن جھکائے بیٹھی رہیں، پھر میری دل جوئی کے لئے کافی باتیں کیں… میں تو اپنے رونے سے انکاری تھا سو جوش و خروش سے ان باتوں کی تائید کرتا رہا، اماں مجھے فیصل آباد جانے پر کسی طرح بھی رضا مند کرنا چاہ رہی تھیں اور میں بظاہر پردیس جانے کے لئے خوش ہونے کا ڈھونگ رچا رہا تھا.
وہ رات اسی آنکھ مچولی میں گزری، اس رات پہلی مرتبہ میں نے ستاروں کو آنکھوں میں بھرا، میں بڑی حسرت سے تاروں بھرے آسمان، صحن میں بے ترتیبی سے بچھی چارپائیوں اور گھر کے در و دیوار کو تکتا رہا تھا.
انہیں راتوں میں کسی رات منہ اندھیرے اماں نے مجھے تیار کیا، کھانا کھلایا اور منہ چوم کے ابا کے ہمراہ بھیج دیا.
تب سے چودہ سال ہوچکے میرا سفر جاری ہے، بے سمت ہی سہی مگر سفر جاری ہے!
فیصل آباد میں قریباً 8 سال قیام رہا، علم اور شعور کی سطح دھیرے دھیرے بلند ہوتی رہی، کچی عمر سے الہڑ پن کا عرصہ یہیں تمام ہوا.
پھر یوں ہوا کہ کہ دماغ کو خود سوچنے کی لت لگ گئی، تشنہ سوالات کی تعداد سے دم گھٹنے لگا تو سوچا کہ کراچی ہو آؤں. پھر یوں ہوا کہ ہم کراچی آ ہی گئے
ہم خس و خاشاک آوارہ، گزرگاہوں کا بوجھ
رقص کرنے تیرے کوچے کی ہوا میں آئے ہیں
مدینة العروس کا رنگ ہی سِوا ہے، یہاں اترنے والا تہی دامن جھولیاں بھر کے لوٹتا ہے. میری پریشان خیالی نے یہاں اک نئی اٹھان لی، جوابوں کی قطار میں بھی سوال آن کھڑے ہوئے. فکری بنیادیں لرزنے لگیں، کچھ عرصہ انہیں سہارا دیا اور پھر اک دن ہاتھ جھاڑ کے چھاؤں میں آگیا… 8 سالہ مشقت سے جو نظریات کی عمارت تعمیر کی تھی، وہ خاموشی سے زمیں بوس ہو گئی.
اب میں ایک مرتبہ پھر سے دو راہے پر کھڑا تھا، بوجھل قدموں مَیں پھر سے اک راہ پہ چل دیا، دوبارہ کچھ خواب پال لیے، چند امنگیں امید کی گٹھڑی میں باندھیں اور شعور کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں سے سفر کا آغاز کیا.
شعور سے آگاہی ہوئی تو آگاہی کا شعور سر چڑھ کے بولنے لگا. رہبروں کے چہروں پر پرتیں دِکھنے لگیں، رہزنوں سے الفت ہونے لگی، دیکھتے ہی دیکھتے میں تحیر کی وادی میں جا پہنچا!
یہاں عقیدت نے آخری سانسیں لیں، یہاں تسلیم نے دَم دے دیا، یہیں تقلید کی موت ہوئی اور میں بندشوں سے آزاد ہو گیا. تب میں نے اس دنیا کا اصلی چہرہ دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا، اک مکروہ اور ناقابل بیان چہرہ!
یہ سب میرے لئے حیرت ناک تھا اور میں ابھی تک میں اسی وادی تحیر میں گھوم رہا ہوں. مجھے کئی سوالوں کے جواب مل چکے اور کتنے ہی جوابات پر سوال بھی اٹھا چکا ہوں. روایت کو شعور کی چھلنی سے گزارتا ہوں، مجھے وہ اندھی عقیدت بھی نہ رہی، وہ وارفتگی بھی قصہ پارینہ ہوئی، علمی اقدار کے نام پر روایت پرستی کا دھندہ بھی نہیں کرسکا… باقی رہا علم تو وہ کچھ تحیر نگل گیا، کچھ شعور ڈکار گیا. ملال یہ کہ اس نقصان پہ کوئی ملال بھی نہیں، بس چلتا ہوں اور چلتا چلا جا رہا ہوں.
اس علم بیزاری کے باوجود خدا کی شان کہ آج دوپہر اُس پروردگار نے مجھ پر نوازشات کی بارش کردی.
ختمِ بخاری شریف کی آخری عبارت پڑھی گئی، میں موجود تھا،
پھر کسی نے میرا نام پکارا، میں دھڑکتے دل کے ساتھ اٹھا اور جب کچھ حواس بحال ہوئے تو اندازہ ہوا کہ میرے سر پر دستار سجا دی گئی ہے!!!
اب تو کائنات کی ہر چیز دھندلا چکی، اندازہ ہو رہا ہے کہ میرے سر پر دستار سجا دی گئی ہے!!!