ٹکڑے ٹکڑے سیاست

بھارت میں سیاسی زبانوں کا ارتقا سیاسی زبان میں نہیں ہو پایا ‘ اس حوالے سے یو پی بھارت کے ایک قلمکار ائے رحمن نے اظہارِ خیال کیا ہے‘ اسی کی روشنی میں چند الفاظ کا اضافہ میں نے کیا ہے۔ بھارت میں بات مکمل طور پر بگڑ چکی ہے‘حصول آزادی کے بعد ایک مثالی ہانڈی میں چڑھایا ہوا جمہوریت کا دودھ غلیظ سیاست کی آمیزش سے پھٹ کر ناکارہ ہو چکا ہے۔اب ہر الیکشن میں اس پھٹے ہوئے دودھ کو متھنے کا عمل دہرایا جاتا ہے‘جس سے بے اصولی اور بے شناخت سیاسی اقتدار برآمد ہوتا ہے ۔زمام کار کسی ایک جماعت یا جماعتوں کے گٹھ جوڑ کے ہاتھ آ جاتی ہے۔اقتدار کی بونافہ مشک تاتاری بن کر بوالہوسوں کو سیاسی دشت وصحرامیں برہنہ پا برہنہ سر دوڑاتی پھرتی ہے اور عوام اس نبردآزمائی میں پامال ہوتے پھرتے ہیں۔

ان کے مسائل ‘ان کی امیدیں ‘ان کا مستقبل اور ان سے کیے گئے بلند بانگ وعدے‘تمام نظریات اورنعرے بے معنی ہوچکے ہیں ۔سیاسی کلامیہ اصولی مسابقے اور مباحثے کی سطح سے گر کر باہمی الزام تراشی اور دشنام طرازی تک محدود ہو چکا ہے ۔جہد للبقاء اور ہوس اقتدار کی رسہ کشی میں کسی جماعت یا گروہ کی کوئی انفرادی شناخت نہیں رہی ‘ حمام میں سب ننگے ہیں ۔ عوام کو بھی اس بات کاخوب ادراک ہے ‘جس کے ثبوت دہلی کے گزشتہ صوبائی انتخابات کے نتائج ہیں جن میں اسمبلی کی 70نشستوں میں 67عام آدمی پارٹی نے جیتیں ۔اس الیکشن میں عوام نے ووٹ نہیں دیا بلکہ تمام موجودہ سیاسی پارٹیوں کو ان کا اصل چہرہ دکھایا‘لیکن بھارتی سیاست کی کیچڑ اور بے ضمیر رہنماوں کے ذریعے پیدا کردہ افتراق اور خلجان میں لتھڑ کر رائے عامہ کے انتشار کا یہ عالم ہے کہ 2014کے الیکشن میں محض 31فی صد ووٹ حاصل کرنے والی جماعت بڑے طمطراق سے مسند اقتدار پر فائز ہو گئی ۔پھر جو کچھ ہوا اسے مستقبل کا مٔورخ باب سیاہ کا عنوان دے گا۔

ہندوستان میں ہر پانچ سال بعد منعقد ہونے والے انتخابی سرکس میں جلوسوں اورریلیوں کے نام پرجو مظاہرے سٹیج کیے جاتے ہیں ‘ سیاسی مسخرے سادہ لوح عوام کو خوش آئند دنوں کے وعدوں پر مبنی بڑے بڑے سبز باغ دکھاتے ہیں۔جماعتوں کے منشور جاری کیے جاتے ہیں ‘جن میں درج ترقی اور فلاح عام کے منصوبے بھارت کو پلک جھپکنے میں جنت بنا دینے کے داعی ہوتے ہیں لیکن اقتدار حاصل کرتے ہی بے شرمی اور ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں ”وہ سیاسی وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے‘‘۔ارباب اقتدار اپنا مستقبل سدھارنے میں لگ جاتے ہیں‘عوامی مفاد اور ضروریات جائیں جہنم میں۔ہندوستانی عوام رو پیٹ اور لڑ جھگڑ کر کسی نہ کسی طرح زندگی گزار لیتے ہیں ۔مجھے یاد ہے اندرا گاندھی کے دور میں ایک برطانوی ماہر اقتصادیات نے ہندوستان آکریہاں کی معاشی اور معاشرتی صورتحال کا جائزہ لیا ‘وہ جب واپس جا رہا تھا‘ ائیرپورٹ پر نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران اس نے نہایت حیرانی کے عالم میں کہا ” مجھے اس ملک میں کوئی مثبت معاشی نظام نظر نہیں آیا‘ایسا معلوم ہوتا ہے کوئی غیبی طاقت ہی اس ملک کو چلا رہی ہے‘‘ ۔

موجودہ حکومت کے گذشتہ پانچ سال پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔بھارتی معیشت اور معاشرتی تانے بانے کو تہس نہس کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ‘حتی کہ ملک ایک مکمل MAD HOUSE بن چکا ہے ‘جس میں تمام نیک کردار اپنی اپنی راہ پر گامزن ہیں جبکہ فراعین تلواریں سونت کر جمہوری اقدار کے قتل وغارت میں مشغول ہیں۔لیکن ابر سیاہ میں کوندتی ہوئی ‘ایک صاعقہ فطرت روشنی کی کرن اب بھی موجود ہے ۔وہ ہے بھارتی سپریم کورٹ ‘جس نے اپنے کوڑے سے جنگلی‘وحشی اور بے لگام سیاسی گھوڑوں‘گدھوں کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔گزشتہ روز رافیل سودے کے مقدمے میں نظر ثانی کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عدالت نے مرکزی حکومت کے تمام اعتراضات مسترد کر دئیے‘خفیہ دستاویزات کو جائزے کے لیے قبول کر لیا گیا‘ظاہر ہے اب اس سودے سے متعلق تمام مبینہ بے ضابطگیاں قانونی شکنجے میں آ جائیں گی ۔ برسراقتدار جماعت اور حکومت کے لیے بہت سنگین جھٹکا ہے۔خصوصاً ایسے وقت میں جب انتخابی عمل کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔بی جے پی اپنی اندرونی شکست وریخت کے علاوہ بعض خارجی عوامل‘جن میں اونچی سطح کی بدعنوانی وغیرہ کے الزامات شامل ہیں ‘ بہت پریشان دکھائی دیتی ہے۔عدالتی رویے اور احکامات نے یہ تاثر تو دے دیا کہ رافیل طیاروں کے سودے میں گڑ بڑ ہے‘ لہٰذا ووٹر کے ذہن میں حکومت اور پارٹی دونوں کے متعلق شکوک و شبہات ہونا لازمی بات ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انتخابات کے نقطہ نظر سے بی جے پی کا نقصان کانگریس یا اس کے حلیفوں کے فائدے میں تبدیل ہو جائے گا۔

کانگریس ملک کی قدیم ترین اور طاقتور ترین جماعت سمجھی جاتی رہی ہے ‘لیکن امتدادِ زمانہ سے‘ پہلے اس کے دو ٹکڑے ہوئے پھر تین‘چارذیلی ٹکڑے ہوئے اور اب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہوچکی ہے۔جس چیز کو آزادی کے بعد پارٹی کا کلچر کہا جاتا تھا ‘اب وہی لفظ کانگریس کی تحقیر کے لیے گالی کی طرح استعمال ہوتا ہے ۔وجوہ وہی ہیں ‘ بے اصولی ‘بے کرداری ‘بے عملی اور بنیادی نظریے سے انحرافی ۔کوئی شک نہیں ‘انہی وجوہ نے دیگر قوموں کو برباد کیا ۔جہاں تک صوبائی اور مقامی جماعتوں کا تعلق ہے ‘ سبھی یا تو شخصیت پسندی پر مبنی ہیں یا علاقائی تعصب اورذات پات کے دائروں میں محصور ہیں۔ان تمام عوامل اور سب سے بڑھ کر دورِ حاضر کے خود غرض اور ابن الوقت قسم کے سیاسی رہنماؤں نے بھارتی سیاست کو پوری طرح مسخ کر دیا ہے۔اس حد تک کہ سیاسی جماعتیں اپنی منفی خصوصیات سے پہچانی جاتی ہیں ۔ ریاست کے تصور کے آغاز سے لے کر آج تک ہر سیاسی فلسفے نے سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا ہے ‘ وہ محکوم رعایا کی بہبود اور اس کے حقوق کا تحفظ ۔فرق رہا ہے تو بنیادی حقوق کی تعریف اور اختصاص میں‘لیکن جیسا کہ مذکور ہو‘ا موجودہ بھارتی سیاسی منظر نامے‘ سیاسی محرکات سے لے کر ترجیحات تک‘ مختلف اور کہیں کہیں عوام مخالف نظر آتی ہیں۔

بی جے پی کے منشور میں تو حیرت انگیز طور پر بھارتی سلامتی کو ترجیح دی گئی ہے۔ جب کہ آج تک کسی سیاسی جماعت نے بھارتی قومی سلامتی کا ذکر اپنے منشور میں نہیں کیا ‘کیونکہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو‘ بھارتی قومی سلامتی کی اولیت اور اہمیت طے شدہ امر ہوتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے اس مرتبہ بی جے پی کے منشور میں رام مندر بنوانے کا ذکر نہیں بلکہ مندر کے لیے متوازن اور خوشگوار ماحول بنانے کی کوشش کا ذکر کیا گیا ہے۔وجہ غالباً یہی ہے کہ ان کے پچھلے وعدوں کا جو حشر ہوا عوام اس سے واقف ہی ہیں۔لیکن تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ موجودہ منشور میں اقلیتوں کا کوئی ذکر ہی نہیں ۔کانگریس نے بھی اپنے منشور میں سماجی انصاف کاکہہ کر پلہ جھاڑ لیا ‘ سیاسی تجزیہ کاروں نے اسے نرم ہندو توارجحان پر محمول کیا ہے۔مگر آئین اور قومی یکجہتی کے مفاد کے پیش نظر دعا اور امید یہی کی جا سکتی ہے کہ حالیہ الیکشن کے نتیجے میں ایک مضبوط حزب اختلاف وجود میں آ جائے جو جمہوری نظام حکومت کے اجزائے ترکیبی کا جزو لازم ہے ۔

آج میں نے یوپی بھارت کے ایک سیاسی قلمکار کا تجزیہ پڑھا ‘جن مسائل سے ہم دوچار ہیں اسی صورتحال سے وہ۔ ہمارے سیاسی غور و فکر میں خاص فرق نہیں پڑتا۔پاکستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور چند صوبوں پر مشتمل ۔پاکستان میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا‘گلگت ‘کیلاش‘بلوچی ‘پہاڑی (جیسے مری اور راولپنڈی تک کی زبان) ‘جھنگ کی طرف جائیں تو ایک مختلف زبان ملتی ہے جو اپنا رنگ بدلتے ہوئے جانگلی تک جاتی ہے ‘یہی زبان مختلف رنگوں میں نہاتی ہوئی نئے نئے علاقائی سائے اوڑھتی ہے۔یہ ملتانی‘ سندھی اور بروہی تک جا پہنچتی ہے مگر افسوس کہ ہم نے اپنی سیاست میں عوامی زبانوں سے کوئی اثر نہیں لیا۔یہی صورتحال بھارت کی ہے ‘فرق صرف یہ ہے کہ بھارت کی مقامی زبانیں بہت دور تک ان گنت بولیوں میں پھیلی ہوئی ہیں جبکہ ہماری زبان مقامی بولیوں کے زیر سایہ پروان نہیں چڑھی‘ہمارے سیاسی مقررین اپنے وطن کی مقامی زبانوں کی رنگینیاں نہ تو سیاسی زبان میں لائے ہیں نہ تقاریر میں۔ یہ ہماری سیاسی زبانوں کی پسماندگی کی انتہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے