افراد نہیں، ادارے!

آخری تجزیے میں زندگی فقط حقائق کے ادراک اور ان سے ہم آہنگ ہونے کا نام ہے۔افراد نہیں، ادارے!

خرطوم میں بیتے ان بارہ دنوں کی یاد اب بھی ایک طرحداری کے ساتھ قلب و جان میں لہراتی ہے، بیس برس پہلے جو بتائے تھے۔

ایک عجیب سر زمین اور عجیب لوگ۔ ایسے شانت، اس قدر آسودہ کہ حیرت ہوتی اور بڑھتی چلی جاتی۔ کبھی کسی کو لڑتے جھگڑتے بلکہ بلند آواز سے بات کرتے بھی نہ سنا۔ ایک آدھ کے سوا کبھی کسی کو گلہ مند نہ پایا۔

واپس آتے ہوئے، سونے اور چاندی کی دو چھوٹی چھوٹی انگوٹھیاں خریدیں۔ چاندی کی اسلام آباد سے ایک چوتھائی قیمت پر۔ سونے کی بھی قدرے کم۔ گائیڈ سے‘ جو یونیورسٹی کا طالب علم تھا‘پوچھا کہ ان میں کھوٹ کا اندیشہ ہے ؟ حیرت سے اس نے مسافر کو دیکھا اور کہا: یہ کیسے ممکن ہے؟

ہوٹل پہنچے تو گائیڈ نے مقررہ دس ڈالر قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ دلیل یہ دی کہ اس نے میرے ساتھ کھانا کھایا اور چائے پی ۔ معاوضے کا کیا سوال؟

دوسرے دن، شاید اپنی مصروفیات کی بنا پر کہ شام کو ایک ہوٹل میں جز وقتی ملازمت کیا کرتا، اپنے عم زاد ابراہیم کو ہمراہ کیا۔ اگلی صبح بے چارگی سے ہاتھ ملتے، اس نے دروازے پر دستک دی۔ ”ابراہیم ہوٹل کی ڈیوڑھی میں کھڑا رو رہا ہے‘‘۔ اس نے بتایا۔ ماں نے اسے ڈانٹ ڈپٹ کی تھی کہ مہمان سے معاوضہ کیسے قبول کر لیا۔ بمشکل اسے سمجھا سکا کہ یہ محنت کا معاوضہ ہے۔

سوڈان کی سماجی زندگی کا سب سے چونکا دینے والا پہلو، عام آدمی کی شائستگی، شرافت اور اپنائیت ہے۔ دنیا بھر میں شاید ہی کوئی اور معاشرہ ایسا انسان دوست ہو۔

جرائم بہت کم تھے۔ اڑھائی تین کروڑ کی آبادی میں قتل کے صرف دو مقدمات۔ تیزی سے عدالت فیصلے صادر کرتی اور جرم کو نمٹا دیا جاتا۔
عمر البشیر کے برسراقتدار آتے ہی، مغرب نے امریکی قیادت میں سوڈان کے خلاف محاذ قائم کر دیا۔ اقوام متحدہ سے انہیں جنگی مجرم قرار دلوایا گیا۔ دنیا بھر نے بائیکاٹ کر دیا۔ جنوب کو الگ ملک بنانے کے باوجود یہ بائیکاٹ باقی رہا۔ عرب امریکہ کے اشارئہ ابرو کو دیکھتے ہیں۔ ایران سے مراسم کا خاتمہ ہوا، جب انہوں نے اپنے مذہبی تصّورات کے بیج بونا شروع کیے۔ جنوب کو بالآخرالگ کرنا پڑا، جہاں ایک تہائی آبادی مسلمان، ایک تہائی مسیحی اور باقی لا دین ہیں۔ جمعہ کے اخبارات میں پوپ کو اسی جنوبی سوڈان کے صدر کی پابوسی کرتے دکھایا گیا ہے۔ کس کمال پر، کس اعجاز پر؟

ہنگاموں کا آغاز چند ماہ قبل ہوا جب صدر عمر البشیر نے دمشق کا دورہ کیا۔ عرب عوام میں بشار الاسد ناقابل قبول ہیں، سفاک قاتل۔ وہ اس لئے ملنے گئے کہ شاید عالمی برادری میں داخلے کا دروازہ کھلے۔ پھر تیل اور روٹی مہنگی ہوئی کہ تیل کے کنویں تو نو تخلیق جنوبی سوڈان کے ہاتھ لگ چکے۔ اقتدار کی طوالت اور سول سروس پہ ڈھیلی ہوتی گرفت۔ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو جائے تو اس کے لیے باقی سب کچھ ثانوی ۔

شام ہوتی تو مسافر نیل کے ساحل پہ چلا جاتا۔ اس کے پانیوں میں سورج کو اترتے اور شفق تحلیل ہوتے دیکھتا۔ ایک شام کسی نے ایک چھوٹی سی چٹّان کی طرف اشارہ کیا: یہ ہے، وہ جگہ، جہاں جناب موسیٰ علیہ السلام‘ خضرؑ کی آمد تک استراحت کرتے رہے۔ کچھ دیر چاروں طرف اجالا سا رہا۔

بعد میں سنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اس لکڑی سے بنا تھا، جسے مہاگنی یا کوکا کہا جاتا ہے۔ کوہ طور پہ پیمبرؑ نے اپنے رب سے کلام کیا تو وہ یہی عصا تھامے تھے۔ خرطوم کی شاہراہوں پر اگے اس شجر سے بنی تسبیحیں بہترین مانی جاتی تھیں۔ جہاز سے اترتے ایک دن، ایک خاتون نے بچوں کی سی حیرت کے ساتھ کہا: آپ کو کہاں سے مل گئی یہ تسبیح؟

کالی لکڑی جو پانی میں ڈوب جاتی ہے مگر ہاتھ میں ریشم ایسی۔ دکاندار احمد سے میں نے کہا: تم نے اسے رنگا تو نہیں؟ وہ مجھے ورکشاپ تک لے گیا۔ چہرے پہ شکایت نہ آنکھوں میں ردّ عمل،وہی ازلی معصومیت۔

سوڈان کے حال پہ دل دکھی ہے۔ عالمِ اسلام کا المیہ کیا ہے؟ اپنے حال پہ ہم غور کیوں نہیں کرتے؟

خرطوم کے نئے حکمران عوض بن عوف کا کہنا ہے کہ عمر البشیر حفاظتی تحویل میں ہیں۔ فرسودہ نظام کو وہ بدل ڈالیں گے۔ مظاہرین مگر مطمئن نہیں۔ کرفیو نافذ ہے مگر شہر کے وسط میں جی ایچ کیو کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ فقۂ مالکیہ کے پیروکاروں نے جمعہ کی نماز وہیں پڑھی۔ رکوع کے بعد کچھ دعائیں پڑھی جاتی ہیں۔ دو سال تک فوجی اقتدار کا اعلان کرنے کے باوجود، ابھی کچھ دیر پہلے سیاسی جماعتوں کو شریکِ اقتدار کرنے کا اعلان ہوا ہے۔ کسی ملک نے نئی حکومت کو ابھی تسلیم نہیں کیا۔ حکمرانوں کو مظاہرین کے کچھ مزید مطالبات ماننا ہوں گے۔

کھیل پیچیدہ ہے۔ ایک طرف قطر اور ترکی، دوسری طرف کچھ عرب ممالک، جن کے اتحاد کو اس صدی کا سب سے بڑا ڈرامہ کہا جاتا ہے۔ امریکہ ان کا پشتبان ہے اور اسرائیل بھی۔ بعض تو اسے صیہونی اتحاد بھی کہتے ہیں۔ ان پہ حیرت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ مغرب مسلمانوں کا حریف نہیں۔ سوڈان پر ایسا عتاب کیوں؟ پاکستان پہ کیوں؟ اسرائیل پہ نوازشات کی پیہم بارش کیوں؟ اسلحہ سازوں کی مذمت کرنے والے پوپ نے اس آدمی کے پائوں کیوں چوم لئے؟

سوڈان کے شہریوں کو شکایت یہ ہے کہ عمر البشیر نے اپنی فوج یمن کیوں بھیجی، جہاں وہ بے گناہوں کے مقابل ہے؟

پانچ مستقل ارکان نے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس کیوں طلب کیا ہے؟ بات کھلے گی اور نئے حکمرانوں کے عزائم آشکار ہوں گے تو شاید کچھ اندازہ ہو۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ امارات اور سعودی عرب کے دو بینکوں کے سوا، کسی کا اس ننھے سے ملک سے لین دین ہی نہیں۔ ساری دنیا کے مقابل عمر البشیر اکیلے کھڑے تھے، بالآخر بالکل ہی تنہا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ پرانے ساتھیوں نے انہیں بچا لے جانے کی ایک تدبیر کی ہے، وگرنہ زمانے کا زمانہ ان کا دشمن ہے۔

شاید کچھ دن اور قیام کرتا۔ 12 اکتوبر 1999ء کی شام، پاکستان میں مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ دست کاریاں خریدیں، وہی مہاگنی کے کچھ عجوبے اور قدیم مصری کاغذ پہ قدیم عہد کے مناظر۔ سرخ سوڈانی مشروب کدکرے کا ایک بڑا سا پیکٹ، جو چائے سے کہیں زیادہ تازگی بخش ہے۔ نوجوان گائیڈ نے دیکھا تو حسرت سے کہا: کم از کم اس تحفے کی اجازت مجھے دی ہوتی۔

عورتیں پردہ نہیں کرتیں مگر نجیب۔ عام ہوٹلوں میں بھی وہی خدمات انجام دیتی ہیں۔ ٹیکسی میں لفٹ مانگ لیتی ہیں، مگر شرارت نہ بدمعاشی۔ عام خاندان پارکوں میں موسیقی سنتے اور ریستورانوں میں شیشہ پیتے ہیں۔ مگر گیارہ بجے اچانک سکوت چھا جاتا کہ خوابِ راحت کا وقت آ پہنچا۔

سحرِ خیر، سادہ اطوار لوگ۔ وزرا کے دروازے چوپٹ کھلے، صدر اور سپیکر چھوٹے چھوٹے گھروں میں مقیم، بہت چھوٹے گھروں میں۔ ایک دن تو ایک کانسٹیبل نے صدر کی گاڑی روک دی۔ وہ نیچے اترے اور اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔ بس میں سوار ان کی اہلیہ سودا سلف خریدنے چلی جاتیں۔ غیر ملکیوں کے لیے سوڈان نے بانہیں پھیلا رکھی تھیں۔ زمین مفت اور کاروبار سہل۔

شاید یہ سب کافی نہیں، عصرِ جدیدکے تقاضوں کاادراک کرنا پڑتا ہے۔ الگ تھلگ کوئی قوم نہیں جیتی۔ ماضی میں نہیں جی سکتی۔ عام آدمی کو شریک کرنا، اس کی ضروریات اور امنگوں کو ملحوظ رکھناہوتا ہے۔ محض لیڈر کی ذاتی دیانت سے قوم سرخرو نہیں ہوتی۔ کچھ اور تقاضے بھی ہیں۔ غور کرنے والوں کے لیے، ہر چیز میں نشانیاں ہیں۔

جس عمر البشیر کو اس مسافر نے دیکھا تھا۔ ذاتی کردار کے اجلے پن میں وہ اس لیڈر سے بدرجہا بہتر تھے، سحر سے شام اور شام سے سویر تک، سحر زدہ لوگ جس کا ڈنکا پیٹتے ہیں۔ آخری تجزیے میں زندگی فقط حقائق کے ادراک اور ان سے ہم آہنگ ہونے کا نام ہے۔افراد نہیں، ادارے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے