ہر روز وہی منحوس سیاست اور مجہول جمہوریت جس پر لکھتے لکھتے میں اُوبھ جاتا ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قارئین نہ اکتا جاتے ہوں، سو آج تبدیلیٔ آب و ہوا کے لیے کسی اور موضوع پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔ چند روز پہلے کچھ نابغے نابغیاں کسی ٹی وی اسکرین پر بیٹھے’’اپنے کلچر‘‘ کے بارے پریشان ہو رہے تھےاور میں سوچ رہا تھا کہ یہ سادہ لوگ اس حقیقت سے مکمل طور پر بے خبر ہیں کہ کلچر بھی انسانوں، درختوں، سمندروں کی طرح موت کے گھاٹ اترتے اور پیدا ہوتے رہتے ہیں اور آنے والے سو پچاس ڈیڑھ سو سال بعد سائنس اور ٹیکنالوجی ایک’’ گلوبل کلچر‘‘ کو اس طرح جنم دے گی کہ مین سٹریم قومیں ایک ہی رنگ میں رنگی جائیں گی اور نام نہاد ’’اپنا کلچر‘‘ صرف ’’کچرا کمیونٹیز‘‘ تک ہی محدود و مخصوص ہو کر رہ جائے گا۔کہاں گئے کنویں، رہٹ، ہل،ہالی، ماشکی، پینجے، ڈولیاں، کہار، چرخے، مہاوت، آبدار ،مشعلچی، بھنگی، چھت کے دستی پنکھے اور انہیں چلانے والے…… سب صرف قصے کہانیوں اور بولیوں میں زندہ ہیں ، حقیقتاً وہ کب کے مر چکے۔تیرے لونگ دا پیا لشکاراتے ہالیاں نے ہل ڈک لئےاب ہل نہیں ٹریکٹر چلتے ہیں اور کوئی مٹیار بتی بال کے بنیرےاتے نہیں رکھتی کیونکہ نہ بتی رہی نہ بنیرے باقی ہیں۔
اب کوئی جٹی مربیاں دی سیر کو نہیں جاتی، کیٹ واک کی ریہرسل کرتی ہے یا آئٹم سانگ کی تیاری، اب کسی بلونت سنگھ کا جگا تیل پلائی ڈانگ نہیں، کلاشنکوف چلاتا ہے اور کچہریوں سے تانگے نہیں گاڑیاں خالی واپس آتی ہیں (بعد میں چاہے ضمانت ہو جائے)چٹی گھوڑی وے وکیلا تیریجے پہلی پیشی یار چھٹ جائےاب وکیل بھی گھوڑی نہیں گاڑی کی قیمت جتنی فیس مانگتا ہے جس میں روپے کی قدر کم ہونے کی وجہ سے مزید اضافہ ہو چکا۔ اب تو فیس بھی کریڈٹ کارڈ سے ادا ہوتی ہے اور کہانی پلاسٹک کرنسی سے بھی آگے نکل گئی۔ چرخے کا کلچر کہاں؟ٹویوڈا اور سلزر کی مشینوں کا کلچر بالکل ہی مختلف۔آج تو شاید کسی کو اس بولی کا مطلب بھی سمجھ نہ آئےنی میں کتاں پریتاں نالچرخہ چنن داٹاہلی سو سال کی ہوجائے تو اس کی لکڑی سے خوشبو آنے لگتی ہے اور پھر جب اس لکڑی سے چرخہ بنتا تھا تو اس کے چلنے پر بھینی بھینی خوشبو پھیلتی تھی لیکن برا ہو ان بڑھتی ہوئی انسانی آبادیوں کا جن کے تن ڈھانپنے کے لیے چرخے اور کھڈیاں کام نہیں آسکتیں، وہ مشینیں درکار ہیں جن کے معیار اور رفتار کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
آج کسی گوری کو دنداسا دو، پھر اس کا ہاسا اور وہ دانت دیکھو جو ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ کے علاوہ کسی اور شے سے متعارف ہی نہیں۔فلش سسٹم سے فارغ ہوکر شاور لینے کے بعد ڈرائر سے بال سکھا کر جینز جیکٹ پہن کر برگر، سینڈوچ، نوڈلز، پاستا سے ناشتہ فرمانے کے بعد آپ آٹومیٹک گاڑی میں بیٹھ کر جب میوزک چلاتے اور اے سی آن کرتے ہیں تو سارے ذاتی کلچر کی دھون یعنی گردن ٹوٹ جاتی ہے اور آواز بھی نہیں آتی۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ آنے والے دنوں میں ’’اپنا کلچر‘‘ صرف’’ کچرا کمیونٹی‘‘ کے پاس ہی رہ جائے گا۔ مین سٹریم ترقی یافتہ قومیں ہر حوالہ سے ایک ہی رنگ میں رنگی جائیں گی۔ یہ جو ہمارے ’’شہری متمول کلچر ‘‘میں تھمبز اپ، وی فار وکٹری، ہاتھوں کی زنجیر، کندھوں کو اچکانے اور میوزک پر دائیں بائیں لہرانے لہلہانے کا ’’کلچر‘‘ ہےعرب یا سنٹرل ایشیا سے آیا ہے نہ لکھنؤ سے۔ کبھی یاد کریں جب ٹی وی نیا نیا آیا تو اس کے پیچھے پیچھے اک پورا ’’کلچر‘‘ بھی تشریف لایا، گھروں میں پہلی بار ’’ٹی وی لائونج‘‘ سب سے اہم مرکزی کمرہ قرار پایا، پھر ہر بیڈ روم کا اپنا ٹی وی اور اب سیل فون فوبیا۔
ٹی وی کی ایجاد او رپھیلائو پر سیانوں نے کہا تھا کہ ٹی وی نام کا یہ ڈبہ دنیا کو تمہارے قریب لے آیا ہے لیکن تمہیں ہمیں ایک دوسرے سے دور لے گیا ہےیہ ہے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے جبر والے کلچر کی ایک سادہ ترین مثال جس میں عقل مندوں کے لئے ان گنت اشارے ہیں اور یہ جاننا چنداں مشکل نہیں کہ سو سال بعد کوئی کلچر شلچر نہیں، ایک ’’گلوبل کلچر‘‘ غالب ہو گا اور باقی سب یوں سمجھو جیسے آج کسی نے اپنے پوش ڈرائنگ روم میں چھابے چنگیریں آویزاں کر رکھی ہوں یا ڈائننگ روم میں مشکیزہ سجا رکھا ہو۔وہ دن بھی دور نہیں جب یہ ساری گولیاں، کیپسیولز ، انجکشن بھی قصہ ٔ پارینہ ہو جائیں گے۔ ٹریلینز آف ڈالرز کی فارما انڈسٹری نے فی الحال اس کلچر کے آگے بند باندھا ہوا ہے لیکن کب تک؟ ساری دوائیں مختلف قسم کے پھلوں اور سبزیوں کی صورت میں دستیاب ہوں گی۔ فلاں برانڈکا کیلا کھالو، ہائی بلڈ پریشر کے لئے کافی ہو گا۔ فلاں برانڈ کا آلو کھا لو ،تمہاری شوگر کنٹرول میں رہے گی۔
فلاں نسل کا پپیتا تمہارے کولیسٹرول کو کینڈے میں رکھے گا، وغیرہ وغیرہ۔ جیسے آج ہم جانے والوں پر ہنستے ہیں کہ گھروں میں کنویں، اسپ خانے، فیل خانے بناتے تھے آنے والی نسلیں اس بات پر ہنسا کریں گی ہم کتنے احمق تھے جو ’’ڈرائیورز‘‘ رکھتے تھے۔مطلب یہ کہ کلچر بارے پریشان ہلکان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مر بھی جائے گا اور زندہ بھی رہے گا کہ یہی کچھ ازل سے ہوتا آیا اور ابد تک جاری رہے گا اور شاید یہی کلچر کا حسن بھی ہے۔کالم کے شروع میں میں نے ’’آبدار‘‘ کا ذکر کیا، یہ ایک ایسا خاص ملازم ہوتا جو پانی، شراب اور برف کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ’’پسیتی‘‘ اس کو کہتے جو گھوڑوں کے لئے چنے پیستی تھی، قلی خس پر پانی چھڑکتے تھے، خانساماں باورچی نہیں، سامان کی خریداری کا ذمہ دار ہوتا، ابھی کل کی بات ہے جب ٹائپنگ، شارٹ ہینڈ، ٹیلیکس آپریٹری پیشے تھے سو خاطر جمع رکھیں کلچر گلوبل کلچر میں تبدیل ہونے کے بعد بھی کینچلیاں بدلتا رہے گا کہ نہ کوئی اسے زندہ رکھ سکتا ہے نہ مار سکتا ہے۔