بائیں کاندھے کا فرشتہ

بہت عرصہ پیشتر اسلام آباد اور اس کے مضافات کے عنوان سے ایک معلوماتی کتابچہ شائع ہوا جس کا انتساب جنرل ضیاء الحق سے منسوب کرتے ہوئےیہ تحریر تھا کہ ان کے ساتھ مصنف کی ذاتی شناسائی تو نہیں لیکن عالم ارواح میں بشارت ملتے ہی آزادی سے قبل موصوف کے پہلے بیٹے کی پیدائش پر اس کا نام ضیاء رکھ دیا۔ کتابچہ سرکاری طور پر ہزاروں کی تعداد میں خریدا گیا۔

بے نظیر شہید کی دوسری حکومت قائم ہوئی تو موصوف نے اسی کتابچہ کا نیا ایڈیشن نئے سرورق کے ساتھ شائع کروایا ، اپنےروحانی رہنما جنرل ضیاء کے بجائے تین جرنیلوں کی تصاویر بطور ’’غاصب‘‘ شامل کرنے کے علاوہ بے نظیر بھٹو کی تصویر کے عنوان سے ایک باب کا اضافہ کیا گیا۔

اخبارات میں موصوف کی بیماری کی خبریں لگوائیں گئیں اور محترمہ موصوف کی عیادت کے لئے ایبٹ آباد بھی گئیں۔ واپسی پر نیا ایڈیشن ہزاروں کی تعداد میں سرکاری طور پر خرید کر تقسیم کیاگیا۔ موصوف کی وفات پر سی ڈی اے نے مولانا موصوف مرحوم کی دینی خدمات کے اعتراف کے طور پر اسلام آباد میں دوکلومیٹر سڑک منسوب کردی۔

اس ساری ’’جدوجہد‘‘ کا موصوف کو کیا فائدہ ہوا، کیونکہ بالآخر وہ مر گئے۔ گزشتہ روز میں نے ایک کارٹون نما اسکیچ دیکھا جس میں موت کو ایک چڑیل کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ وہ قبرستان میں کھڑی ایک لاش جس کے ساتھ کروڑوں روپے بنڈل کی صورت میں موجود ہیں، اسے ہاتھ کے اشارے سے روک رہی ہے اور کہہ رہی ہے ’’اندر سامان لے جانے کی اجازت نہیں‘‘۔ تاہم اس کی طرح کی ساری باتیں ’’بے معنی‘‘ اور ’’لغو‘‘ ہیں کہ دنیا کا مال کیوں اکٹھا کیا جائے کہ بالآخر مر جانا ہے۔ اس لئے کہ جس شخص کی فطرت میں بے غیرتی، لالچ، دھوکہ فریب رچا بسا ہے اس کے لئے اس طرح کی باتیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ کاش کوئی شخص گزشتہ چند عشروں میں لکھے گئے کالموں، اداریوں اور تجزیوں کے پینترے یکجا کرے، ان کے ارشادات ایک دن کچھ اور دوسرے دن کچھ اور ہوتے ہیں، اسی طرح سیاستدانوں کی قلابازیاں بھی کوئی کتابی صورت میں سامنے لائے اور لوگوں کو ان بدشکلوں کے خدو خال سے آگاہ کرے۔ یہ ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں اور بغل بچے کے طور پر اس کے اقتدار کے عرصے میں ساتھ رہتے ہیں اور حکومت ختم ہوتے ہی نئے حاکموں کے بغل بچے بن جاتے ہیں۔

پینترے بدلنے والوں میں ہمارے معاشرے کے سبھی طبقوں کی چڑیلیں شامل ہیں، عام لوگوں کے دو پائوں ہوتے ہیں، ان کے چارہوتے ہیں، ایک جوڑا آگے جانے کے لئے اور دوسرا ریورس کے لئے ہوتا ہے، چنانچہ میں انہیں انسان نہیں، چوپایہ سمجھتا ہوں۔ حرام نام کی کوئی چیزان کے مینیو میں موجود نہیں ۔ کسی زمانے میں ایک صاحب پی پی پی کے سخت مخالف ہوتے تھے، موصوف پی ٹی وی میں ڈائریکٹر نیوز تھے، الیکشن کے دوران جب پی پی پی کی جیت واضح ہوگئی تو انہوں نے اپنے ایک کولیگ جو پی پی پی کے بڑے حامی تھے، کے کاندھوں کو جھنجوڑتے ہوئے مسرت بھرے لہجے میں کہا ’’کامریڈ ’’ہم‘‘ جیت رہے ہیں‘‘۔

یہ چوپائے بیوروکریسی میں بھی موجود ہیں، ہر پاکستانی شہری کو اپنے نظریات رکھنے کا حق ہے، مگر ہماری بیوروکریسی میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اچھی پوسٹنگ کے لئے ایسی ایسی قلابازیاں لگاتے ہیں کہ ایک درخت سے دوسرے درخت تک چھلانگیں لگانے والے بندر بھی ان کی پھرتیاں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں مگر ان کی دنیا سے رخصتی بھی سکندر کی طرح خالی ہاتھ ہی ہوتی ہے۔ بلکہ یہ اسی دن ’’وفات‘‘ پا جاتے ہیں جس دن ان کی ریٹائرمنٹ ہوتی ہے، ان کے ماتحت بھی ان کی فون کال نہیں سنتے اور ٹھیک ہی کرتے ہیں کہ اپنے فرعونیت کے عرصے میں یہ ناراضی کے عالم میں فائل اٹھا کر ان کے منہ پر مار دیا کرتے تھے۔

اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں آخر میں ان طبقوں کو اشرف المخلوقات کے دائرہ میں آنے کا مشورہ دوں گا تو آپ کا اندازہ درست نہیں،اسفل السافلین کبھی اشرف المخلوقات کے دائرے میں قدم نہیں رکھ سکتا، مجھے تو ان کے بائیں کاندھے پر بیٹھے ان کے گناہوں کا حساب لکھنےوالے فرشتے پر ترس آتا ہے، جسے ایک پل آرام نہیں ملتا بلکہ اس کام کے لئے اسے اوور ٹائم لگانا پڑتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے