امام کعبہ کا عظیم الشان دورہ پاکستان

پاکستان اور سعودی عرب اسلامی دنیا کے دو روشن اور چمکتے ستارے ہیں۔سعودی عرب ارض حرمین ہے اور پاکستان دنیا کا پہلا ملک جو اسلامی نظریہ کی بنیاد پر 27 رمضان المبارک کو وجودمیں آیا۔سعودی عرب کی جب بنیاد رکھی گئی تب بھی برصغیر کے علماء نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی قیادت میں نہ صرف نئی مملکت کا دورہ کیا بلکہ نقدی اور عطیات بھی پیش کئے۔سعودی عرب وہ ملک ہے جس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا بھرپورساتھ دیا۔دور کیا جائیں ابھی حال میں سعودی ولی عہد محمد بم سلمان پاکستان آئے تو اربوں ڈالر کے پیکجز لائے اور پاکستان کو مشکل معاشی صورت حال سے نکلنے کے لیے بھرپور امداد بھی فراہم کی۔ان کے دورے کی یادیں ابھی تازہ تھیں کہ ہوا کے خوشگوار جھونکے کی طرح امام کعبہ الشیخ عبداللہ بن عواد الجھنی پاکستان کے دورے پر تشریف لائے۔امام صاحب کی اقتدا میں حرم شریف میں نماز اور تراویح کا اللہ کے فضل سے کافی دفعہ موقع ملا۔آپ کو اللہ پاک نے لحن داودی عطا فرمایا ہے۔جب آپ تلاوت کرتے ہیں تو دنیا و مافیہا سے بندہ بے خبر ہو جاتا ہے۔اور دل کرتا ہے کہ قیام ختم ہی نہ ہو۔

اہلیان پاکستان کی خوش نصیبی ہے کہ وہ پاکستان تشریف لائے۔

بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی وہ مقامات ہیں جہاں کا سفر بھی باعث ثواب ہے۔ مسجد قبا مدینہ منورہ کی وہ مسجد ہے جس کی بنیاد رسول اللہ ﷺ نے رکھی اور جس کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نے فرمائی۔ مسجد قبلتین مدینہ منورہ کی وہ تاریخی مسجد ہے جس میں دو محراب ہیں۔ ایک بیت المقدس کی طرف اور دوسرا بیت اللہ کی طرف۔ کیونکہ اس کی تعمیر تحویل قبلہ سے پہلے ہی ہو گئی تھی۔ ان چاروں بابرکت مساجد کی امامت کا شرف حاصل کرنے والی عظیم شخصیت ہیں فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد اللہ بن عواد الجہنی 13 جنوری 1976ء کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے،ان کے والدین دین سے خاص شغف رکھتے تھے تو ان کی خصوصی توجہ اور شفقت ملی اور آپ نے بچپن ہی میں قرآن کریم مکمل حفظ کر لیا۔ 16 سال کی عمر کو پہنچے تو دو مرتبہ بین الاقوامی حسن قراءت کے مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ مدینہ منورہ کی معروف عالمی یونیورسٹی (الجامعۃ الاسلامیہ) میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کلیۃ القرآن میں تدریسی سرٹیفکیٹ اعلی ترین اعزاز کے ساتھ حاصل کیا ۔

امام صاحب عنفوان شباب میں تھے جب پہلی مرتبہ مدینہ منورہ میں صرف 21 سال کی عمر مسجد نبوی میں تراویح کی امامت کا شرف حاصل ہوا۔امام صاحب اس سن کو اپنے لیے خوش قسمت ترین دن تصور کرتے ہیں۔کہ اللہ پاک نے ان کو اس قدر سعادت سے فیض یاب کیا۔ اس سے پہلے آپ مسجد قبلتین میں دو سال تک امام رہے رہے اور پھر چار سال تک مسجد قبا کی امامت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ 2005میں ایک اور سعادت اللہ پاک نے آپ کو عطا کی اور مسجد الحرام بیت اللہ شریف مکہ مکرمہ میں تراویح کی نمازامامت کی اور پھر وہاں کے امام متعین ہو گئے۔

آپ نے جید قراء سے نبی کریم ﷺ تک متصل اسناد حاصل کر رکھی ہیں جن میں سر فہرست فضیلۃ الشیخ ابراہیم الاخضر اور مسجد نبوی کے امام فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر علی بن محمد حذیفی شامل ہیں۔

آپ درس وتدریس سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد مدینہ منورہ میں اساتذہ فیکلٹی میں معلم کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اب مکہ مکرمہ کی ام القریٰ یونیورستی میں پروفیسر ہیں۔

آپ کے ساتھ پاکستان آنے والی دوسری شخصیات سعودی وزارت مذھبی امور سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبداللہ صامل ہیں۔جو کہ وکیل شئون الاسلامیہ ہیں۔ڈاکٹر صاحب نوجوان قیادت ہیں اور اس سے قبل سعودی جامعہ الامام میں پروفیسر اور اعلی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔آپ اس سے قبل 2016 میں جامعہ الامام کے چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبداللہ ابالخیل کے ساتھ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے وزارت میں آنے سے نوجوان نسل جو کہ ہمارا مستقبل ہے اس کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ڈاکٹر صاحب سعودی وزیر مذھبی امورالشیخ عبدالطیف آل شیخ کی نیابت کر رہے ہیں ۔وہ بھی حال ہی میں اس منصب پر فاہز ہوئے ہیں۔شیخ عبدالطیف اعلی پاہے کے دانشور اور دور رس سوچ کے حامل ہیں۔پاکستان میں اس وزارت کا شعبہ مکتب دعوہ کے نام سے کام کر رہا ہے اور دونوں ملکوں کے علماء کو قریب لانے اور قرآن وسنت کے فروغ کے لیے گرانقدر خدمات انجام دے رہا ہے ۔آج کل اس کے سربراہ الشیخ متعب الجدیعی ابو محمد ہیں۔اور آپ نہایت خوش اخلاق اور متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔

ائر پورٹ پر امام صاحب کا اسقبال پاکستان میں سعودی سفیر نواف سعید الما لکی اور بقول سینٹر پروفیسر ساجد میر سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر نے وفاقی وزیر مذھبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری کے ہمراہ کیا۔موجودہ سعودی سفیر کا شمار نامور سفراء میں ہوتا ہے ۔آپ نے پاکستان کے لیے انتہائ گرانقدر خدمات انجام دیں ہیں آپ نے سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ پاکستان آئیں اور یہاں سرمایہ کاری کریں۔اسی طرح سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان کے موجودہ دورے کو کامیاب بنانے کے لیے نہایت مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ان کی خدمات کے عوض پاکستان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انھیں اعلی ترین سول ایوارڈ سے نوازے۔

امام صاحب کی آمد کے بعد سب سےبڑا اجتماع فیصل مسجد میں جمعہ کے خطبہ کے موقع پر تھا۔پاکستان کی سب سے بڑی مسجد نے بھی تنگ دامنی کا اظہار کیا ۔مسجد کے گرد دور دور تک انسانی سروں کا سمندر تھا۔جمعہ کے بعد اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر احمد یوسف الدریوش اور سعودی سفارت کی طرف سے یونیورسٹی میں نوجوان نسل کی رہنمائی کے موضوع پر کانفرنس تھی۔ڈاکٹراحمد بن یوسف الدوریش ایک انتہائی متحرک اور اعلی درجے کے ماہر تعلیم ہیں۔آپ کی سربراہی میں یونیورسٹی کی رینکنگ میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ بہت سارے شعبہ جات میں بھی اضافہ ہوا۔

امام صاحب کے اعزاز میں پہلا عشائیہ وزیر مذھبی امور ڈاکٹر نور الحق قادری کی طرف سے تھا۔قادری صاحب نے امام صاحب کے لیے منتخب لیکن معروف شخصیات کا انتخاب کیا۔قادری صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ دینی اور دنیاوی تعلیم پر بیک وقت عبور رکھتے ہیں۔اور ساتھ ساتھ اردو ، عربی ، انگریزی اور فارسی پر عبور رکھتے ہیں۔آپ کو ترجمان کی محتاجی نہیں ہے۔اس ۔موقع پر قادری صاحب نے امام صاحب کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ پاکستان آپ کا دوسرا گھر ہے اور ہمارے لیے اعزاز ہے کہ آپ یہاں تشریف لاہے۔امام صاحب نے اس موقع پر شکریہ ادا کیا۔اور نصیحت آموز گفتگو فرمائی۔بردار عمران صدیقی پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے متحرک رہے۔

ہفتہ کے روز دو اہم پروگرام تھے۔دن کو مقامی ہوٹل میں پاکستان کے کبار علماء کرام کے اعزاز میں سعودی سفارت خانے کی طرف سے ظہرانہ تھا۔اس پروگرام کے اہتمام میں ہمیں بھی شرف ملا۔

پروگرام پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کے خوبصورت گلدستے پر مشتمل تھا۔اللہ کرے کہ حقیقی طور پر ایسا ہو جاہے کہ پاکستان اور پوری امت مسملہ متحد اور متفق ہو جائے۔

پروگرام کی میزبانی کے فرائض سعودی سکول کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نے سر انجام دیے۔ڈاکٹر صاحب بلاشبہ ایک اچھے خطیب اور بور نہ کرنے والے اسٹیج سیکرٹری ثابت ہویے۔نہایت خوبصورت اور جچے تلے الفاظ کا استعمال کیا۔جبکہ ترجمانی کے فرائض ہمارے عزیز اورمحترم بزرگ مرحوم علامہ عبدالعزیز حنیف کے صاحب زادے مولنا ابو بکر صدیق نے سرانجام دیے اوت ترجمانی کاحق ادا کیا۔

امام کعبہ کے اعزاز میں پروگرام میں سعودی سفیر نواف سعید الما لکی نے امام صاحب کو خوش آمدید کہا اور شرکاء محفل کا شکریہ ادا کیا۔اور جو دل جتینے والی بات کی وہ یہ کہ چمن کوئٹہ حادثے کا تزکرہ کیا۔واقعہ کی سعوی حکومت کی طرف سے مذمت کی اور کہا کہ سعودی حکومت دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف پاکستان کے شانہ بشانہ ہے اور پاکسان کے عوام، حکومت اور تمام لواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں۔

ارشاد باری تعالی ہے کہ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقوں میں نہ بٹو”۔

آج ہماری امت کو اسلامی یکجہتی اور صف بندی کے مفہومکو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے ۔تاکہ خطروں کا، مصیبتوں کا اور ہماری امت مسلمہ کی طرف نظریں جمائے مصیبتوں کا بھر پور طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ان خطرات میں سب سے آگے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خطرہ ہے جس کی تکلیف ہماری امت کی کئی قوموں نے برداشت کی اور اب یہ ناسور دیگر معاشروں میں بھی سرایت کر رہا ہے ۔

ان حالات میں علمائے کرام پر اپنے اپنے معاشروں اور امت مسلمہ کی بھاری ذمےداری عاید ہوتی ہےکیوں کہ صف بندی اور یک آواز ہونے کے معاشروں میں استحکام ، امت مسلمہ کے وقار اور زندگی کے معاملات درست سمت میں لے جانے کے بڑے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔اس لیے کہ امن کے بغیر استحکام ناممکن ہےاس بات کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ کسی بھی مسلمان ملک میں صف بندی کوصیحح اسلامی عقیدے پر ہونا چاہیے جو اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوز ہو، جو کہ اللہ تعالی کی مشیت سے اس بات کق ضامن ہے کہ معاشروں میں انتہا پسندانہ سوچ نہ پھیل پائے۔لہذا امت مسملہ کے علماء کرام کو چاہیے کہ معاشروں میں انتہا پسندانہ سوچ نہ پھیلنے پائے۔امت مسلمہ کے علما ء کرام کو چاہیے کہ وہ اپنے ممالک میں معاشروں میں اعتدال اور درگزر کے طریقے کو اپناتے ہوئے لوگوں کو آگاہی دیں۔اور اسلامی تعلیمات کے مطابق لوگوں میں اعتدال کے ساتھ مل جل کر رہنے کے شعور کو بیدار کریں۔

امام کعبہ نے اپنے خطاب سے پہلے اپنی خوبصورت آواز میں تلاوت فرمائی اور اس کے بعد اپنے مختصر اور جامع خطاب میں کہا کہ مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور تفرقہ بازی کو دور پھینکے۔انہوں نے اس آیت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب مختلف قبائل اسلام قبول کرنے لگے تو یہود نے سازش کی اور ان کے درمیان پرانی عداوت اور خاندانی تعصب کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرنے کے خواہاں ہوئے۔جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس آیت پر عمل کرنا آج بھی امت کی ذمہ داری ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کو دیکھتے ہوئے پیغام دیا تھا کہابھی میں موجود ہوں اور ایک پیغام دیا تھا کہ آنے والے مسلمان بھی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔

امام صاحب نے مذید فرمایا کہ مسلماں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔عمل کی طرف توجہ کریں۔صبر اور یقین کا دامن کسی صورت میں ہاتھ سے نہ جانے دیں۔انھوں نے اسلام کی مختلف صفات بیان کرتے ہوئےکہا کہ اگر مسلمان ان صفات پر عمل کریں تو مجموعی طور پر فائدے میں رہیں گے۔انھوں نے مزید ارشاد فرمایا کہ درست عقیدہ ضروری ہے۔اور اس امت پر رحمت ہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب نے کتاب التوحید لکھی اور اس کی مدد اے امت کا عقیدہ درست سمت میں گامزن ہوا۔

امام صاحب نے نہایت منکسرانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ آپ سارے علماء ہیں اور امت کے اصلاح کار ہیں ۔میں آپ کے سامنے بیان نہ کرتا لیکن وقت کی مجبوری ہے۔آپ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لائیں۔

اس خصوصی اہمیت کی حامل تقریب میں امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد کا خطاب بھی نہایت پر مغز تھا۔انھوں نے فرمایا کہ سعودی عرب جس طرح مسلمانوں کی خدمت کر رہا ہے وہ عالم اسلام کی بہت بڑی خدمت ہے۔حرمین شریفین کی توسیع اور اللہ کے مہمانوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ دیگر بھی بہت زیادہ خدمات ہیں۔جیسے قرآن پاک کا مختلف زبانوں میں ترجمہ اور اس کو پوری دنیا تک پہنچانا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے۔جن پر ہم خادم حرمین شریفین اور ولی عہد کے شکر گزار ہیں۔انھوں نے اپنے آپ کو حرمین کی خدمت کا اہل ثابت کیا ہے۔ہم حرمین اور اہل حرمین کے لیے اپنی جانیں بھی قربان کرنے کے لیے تیا ر ہیں۔ان کو الگ الگ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بہت بڑی بے وقوفی والی بات ہے کہ حرم کا انتظام مشترکہ ہو۔یہ بات کرنے والے اسلام کے دشمن ہیں۔کیوں کہ سعودی عرب نے حرمین کی جو دیکھ بھال کی ۔زائرین کے لیے جو انتظامات کیے وہ اور کوئہ نہیں کر سکتا۔

اس موقع پر سابق ڈپٹی چیئر مین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ یہ ہمارے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔حرمین شریفین پوری دنیا کے مسلمانوں کی عقیدت کا محور و مرکز ہے۔اور اہل حرمین بھی ہماری بھی ہماری دلی وابستگی اور لگاو ہے۔

اس موقع پر صاحب زادہ شاہ انس نورانی نے کہاکہ ایک سازش کے تحت مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی۔لیکن امت کے صلاح کاروں نے اس کو ناکام بنایا۔انھوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا پروگرام 2030 امت مسلمہ کی ترجمانی کر تا ہے اور یہ پیغام پیش کرتا ہے کہ سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کا محور ق مرکز ہے۔

تقریب سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی خطاب کیا اور تاریخی حوالوں سے امت مسلمہ کی عزمت رفتہ کو بیان کیا۔اس دورے میں تحریک دفاع حرمین شریفین پاکسان کے صدر مولنا علی محمد ابو تراب کی شدید کمی محسوس کی گئی جو اپنی شہر میں عدم دستیابی کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔مولانا علی محمد ابو تراب کی ملت اسلامیہ پاکستان اور پاکستان سعودی عرب تعلقات بہتر کرنے کے لیے نمایاں خدمات ہیں۔

ایک اور خوبصورت پروگرام سعودی سفیر محترم کے گھر پر امام صاحب کے اعزاز میں عشائیہ تھا جس میں پاکستان کی حکمران جماعت سمیت تمام سیاسی اور دینی قیادت نے شرکت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ حرمین اور اہل حرمین کے ساتھ بے پناہ محبت کرتے ہیں۔

امام صاحب کے اس دورے سے مسلماناں پاکستان کو ایمان کی حرارت ملی اور پاکستان سعودی عرب دوستی اور بھائی چارے کے رشتے مذید مضبوط ہوئے۔اس کا کریڈٹ سعودی سفیر محترم جناب نواف بن سعید الما لکی اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔جنہوں نے ان تھک محن dت ست اس دورے کا بامقصد بنایا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے