بھارت میں نئی سیاسی انتشار خیالی

بھارت میںگزشتہ تین مہینوں سے جو سیاسی رسہ کشی اور مقابلہ آرائی کا سلسلہ قائم تھا‘ اس کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا۔ حسب ِتوقع تھوڑی بہت زندگیوں کا اتلاف‘ بہت ساری جھڑپیں‘ ای وی ایم مشینوں کی خرابی اورمسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں سست روی سے ووٹوں کی کاسٹ جیسے واقعات رونما ہوئے۔ ان کاموں میں مودی حکومت شامل رہی‘ مگر زمینی حقائق اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ پہلے مرحلے میں صاحب ِاقتدار پارٹی‘ بی جے پی واضح نقصانات کا سامنا کر رہی ہے۔

کئی ایسے لیڈر جو پہلے مرحلے میں اپنی قسمت آزما چکے تھے‘ انہیںاگلے مراحل میں ‘نئے حلقہ انتخاب کی تلاش کا کام شرو ع کرنا ہو گا۔پہلے مرحلے سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کی صف ِاوّل کی قیادت پر اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ مودی سرکار نے پہلا کام لالو پرشاد یادو کی ضمانت نہ دئیے جانے میں دکھایا ۔ عدالت کی تکنیکی حکمت اپنی جگہ‘ مگر قابل ِغور بات یہ ہے کہ بی جے پی کو معلوم ہے کہ لالو پرشاد یاد و کے جیل سے باہرآنے سے‘ باقی ماندہ الیکشن میں حکمران جماعت کو مزیدٹف ٹائم مل سکتا ہے ؛حالانکہ بہار‘ اتر پردیش اور بنگال کی کم از کم پچاس ساٹھ سیٹوں پر لالو پرشاد یادو کی موجودگی سے سیکولر ووٹوں کو مزید موثر بنایا جا سکتا تھا۔

بہر حال یہ سوا ل اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا ایک سیاست دان کو انتخابی سرگرمیوں سے دور رکھ کر‘جمہوری اداروں کو مستحکم بنایا جا سکتا ہے؟لالو یادو کے انتخابی منظر نامے سے باہر رہنے سے فائدہ صرف بی جے پی کو ہی پہنچ سکتا ہے۔ اچانک ساکشی مہاراج اپنے رنگ میں نظر آئے۔ ان کی فرقہ وارانہ تقریروں سے بھارتی عوام اچھی طرح آگاہ ہیں۔

ساکشی مہاراج کے سُر میں خلاف ِتوقع‘ سُرملانے کے لیے مینکا گاندھی نظر آئیں۔ مینکا گاندھی پوری مدت تک وزیر رہیں اور اب تک ان کی کسی کھلی فرقہ وارانہ گفتگو سے ہماری واقفیت نہیں۔ مینکا کی تعلیمی قابلیت سے دانش وارانہ رویہ بھی جھلکتا ہے؛ حالانکہ ان کے صاحب زادے ورون گاندھی کی کھلی فرقہ پرستیاں اور بے سروپا کی باتوں سے کوفت پیدا ہوتی تھی کہ ماں اور بیٹے کے خیالات میں کتنا فرق ہے؟ مگر مینکا گاندھی انتخابی مہم کے دوران ڈٹی ہوئی ہیں۔انہوں نے دھمکی بھرے انداز میں کہا کہ ” مسلمانوں کے لیے یہی بہتر ہے کہ بی جے پی کو کھل کر ووٹ دیں‘ ورنہ اپنا مستقبل سمجھ لیں‘‘۔

بھارت کے جمہوری اداروں کی کارکردگی پر یقین کرنے والے عوام الیکشن کمیشن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اصولی طور پر ایسے ہنگاموں سے نمٹنے کی ذمہ داری صرف اور صرف الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے‘ مگر اس بات کا اندازہ شدت کے ساتھ ہو رہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنے فرائض کی ادائیگی میں سست روی اور بے عملی کا شکار ہے۔ نہ وہ کسی کو سزا دے رہا ہے اور نہ بے ضابطگیوں کو روکنے میں دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے‘ جبکہ دوسری طرف صاحب ِاقتدار جماعت‘ یعنی مودی سرکار کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن سے یہ توقع رکھنا کہ ساکشی مہاراج یا مینکا گاندھی کے سلسلے میں کوئی سخت اقدام کرے‘ خام خیالی کے سوا کچھ نہی ۔

یہ اچھا ہی ہے کہ بھارتی جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں اور ان کی قیادت میں بتدریج کم سنی بڑھ رہی ہے اور روز بروز ان کا بچگانہ پن سامنے آرہا ہے۔ وہیں ووٹر سنجیدگی سے اپنے حق کا استعمال کر رہا ہے اور ایک قومی تصور کے تحت اپنے نتائج پیش کر رہا ہے۔ مختلف مقامات سے الیکشن کے پہلے مرحلے کی جو خبریں آئیں‘ ان کے خوش آئند نتائج سامنے آرہے ہیں۔ جہاں توقع تھی کہ ذات برادری کا زور چلے گا‘ معلوم ہوا ووٹروں نے خاموشی سے اس ناگ کو کچل دیا۔ کئی شہروں میں جذباتیت کو ہوا دی گئی‘ مگر الیکشن کے دن جو کچھ نظر آیا‘ اس سے لگ رہا تھا کہ دوراندیش اقدامات کو ملحوظ ِخاطر رکھ کر ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔حد تو یہ ہے کہ کئی جگہوں پر جہاں ہندو مسلم تنازعات پیدا ہو چکے تھے‘ وہاں بھی یکطرفہ ووٹ نہیں پڑے۔

یورپ اور امریکہ میں اکثر اوقات انتخابات میں کوئی لہر نہیں چلتی۔ پہلے مرحلے میں جو تیرکی طرح نظر آتا ہے‘ آخر وہ لیڈر بن گیا۔ترقی یافتہ اقوام کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی حکومت کی کارکردگی؛ اگر قابل اطمینان نہیں تھی تو اسے کس طریقے سے بدلنا ہے؟ بھارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں ووٹروں نے جس انداز سے کام کیا ہے‘ اس سے جمہوریت کے ان بزرگوں اورتجربہ کار قوموں کی پرچھائیں دکھائی دیتی ہے۔ بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے‘ وہاں قریباً چالیس فیصد ووٹروں کی عمر 18 سے 35 سال کے درمیان ہے۔ گزشتہ بار یہ نوجوان طبقہ نریندر مودی کے جال میں بری طرح پھنس گیا۔ کانگرس کی ناکامیوں کو جس انداز سے 2014ء کے الیکشن میں پیش کیا گیا تھا‘ بے روزگاروں کو کھلی آنکھوں سے خواب دکھائے گئے ‘ اس سے مودی کو اتنی طاقت مل گئی تھی کہ وہ پچھلا الیکشن جیت گیا۔ اب صورتِ حال یکسر بدل گئی ہے۔ مودی سرکار اور اس کے حواریوں کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو بھارت میں سوائے بربادی اور نا امید ی کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔پہلے مرحلے میں جو رپورٹس سامنے آرہی ہیں ‘ان سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ نوجوان نسل نے اپنے بزرگوں کے انداز میں بھارت کی تعمیر و تشکیل کے طریقہ کو اپنانے سے انکار کر دیا ہے۔نئے ووٹر زٹھوس بنیادوں پر بھارت کی جمہوریت کو نئے سرے سے کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔

مذہبی جنونیت کو مسترد کر رہے ہیں۔ ہمسایہ ملک کے ساتھ اشتعال انگیزی کی پالیسی کو‘ اچھا نہیں سمجھا جا رہا‘ نوجوان اس سے اکتا گئے ہیں۔ توقع یہی کرنی چاہیے کہ الیکشن کے اگلے مراحل میں اس جمہوری بالغ نظری میں مزید پختگی آئے گی اور ساتویں مرحلے کے انجام تک ‘بھارتی جمہوریت ایک نئی کروٹ لے گی‘ اس تبدیلی کے بغیر نئی نسل اور نئے ووٹروں کا مستقبل تابناک نہیں ہو سکتا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے