میرے ساتھ دلچسپ آنکھ مچولی جاری ہے۔ میں نیوٹرل ہو کر مکمل غیر جانبداری کے ساتھ پی ٹی آئی کے حوالہ سے حق تنقید ادا کرنا چاہتا ہوں لیکن پیپلز پارٹی، ن لیگ اور حضرت مولانا فضل الرحمٰن ٹائپ لوگ مجھے پوری طاقت سے واپس پی ٹی آئی کی طرف دھکیل دیتے ہیں۔ PTIکے ووٹرز، سپورٹرز، ہمدرد PTI سے سو اختلاف کریں جتنی چاہے تنقید کریں، احتجاج کریں لیکن ان لوگوں کو یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے جو پوری ڈھٹائی سے پاکستان اور پاکستانی عوام کے 51سال ہڑپ کر گئے اور اب بھی رالیں ٹپکاتے ہوئے اقتدار میں واپسی کے لئے بے کار ٹکریں مار رہے ہیں۔ذرا غور فرمایئے یہ ہیں کون اور کر کیا گئے ہیں؟نواز شریف 9اپریل 85ء تا 13اگست 90ء 5سال 4ماہ پنجاب کا مضبوط ترین وزیر اعلیٰ رہا کہ اس کو اس کے موجدوں اور آقائوں کی مکمل اشیر باد حاصل تھی۔ پھر 2سال 7ماہ کی وزارت عظمیٰ ، پھر دوبارہ 2سال 7ماہ کی ’’دیہاڑی‘‘ اور آخر پر تیسری بار 5جون 13ء تا 28جولائی 17ء پورے 4سال 1ماہ تو دوسری طرف برادرِ خورد بلکہ خرد برد المعروف ٹی ٹی ایکسپرٹ اڑھائی سال +8ماہ +4سال+5سال پنجاب کے نوش جان فرما گئے یعنی ن لیگ 26سال ڈکار گئی۔
’’سمندر پی گئے ڈکار نہ ماریا‘‘دوسری طرف ’’روٹی کپڑا مکان‘‘ فیم پیپلز پارٹی جس کے بارے کہا گیا تھاروٹی کپڑا بھی دے مکان بھی دےاور مجھے جان کی امان بھی دے25سال بعد بھی جان چھوڑنے کو تیار نہیں جس کی تفصیل میں کیا جانا کہ ایک بار ذوالفقار علی بھٹو، دو بار صاحب زادی بے نظیر بھٹو، پھر زرداری صاحب قصرِ صدارت میں اور سندھ میں جن جپھا تو اس وقت بھی چل رہا ہے۔ یہ کل بنتے ہیں 25سال۔ فضل الرحمٰن اور اسفند یار ولی خان وغیرہ کو علیحدہ رکھ کر صرف ن لیگ کے 26اور پیپلز پارٹی کے 25سال ہی جمع کر لیں تو 51سال یہ سیاسی نظام سقے عوام کی گردنوں پر سوار رہے تو کیا جتنے سال یہ حکمران رہے، PTIکو اتنے مہینے بھی نہ ملیں؟ ان کے 51سالوں کے جواب میں صرف 51مہینے جو 4سال اور 3ماہ بنتے ہیں اس سے پہلے PTIکو گھر بھیجنے کے خواب دیکھنے والوں کے لئے ہی کہا گیا تھا یہ شعردیکھنے سے پہلے دھو آنکھوں کی گندی پتلیاںورنہ چہرہ ڈھانپ لے گی تجھ سے اچھائی مریپی ٹی آئی کی کارکردگی نہیں، ان ٹی ٹی کمار قسم کے سیاسی مافیاز کا اصل خوف ہی یہ ہے کہ اگر PTI حکومت کو 4سال 3ماہ مل گئے تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قصہ ٔ پارینہ بن جائیں گے اور خاندانی حکومتوں کے سارے خواب خاک میں مل جائیں گے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے خلاف اٹھتے ہوئے ہر جائز قانونی قدم پر جمہوریت خطرہ میں دکھائی دیتی ہے تو یہ کن مونہوں سے PTIکو ابھی سے گھر بھیجنے کی بات کرتے ہیں؟ PTIاتنی ہی نالائق ہے تو اُسے رج کے ایکسپوز ہونے دو تاکہ عمران خان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمہاری جان چھُٹ جائے اور تم بلا خوف و خطر پاکستان کو ’’ماسی دا ویہڑا‘‘ یعنی خالہ کے گھر کا آنگن سمجھ کر اپنی وارداتوں کو اتنے ہی زور و شور سے جاری رکھ سکو اور ’’گلیاں ہو جان سنجیاں وچ ٹی ٹی یار پھرن‘‘دو، چار، دس، پندرہ نہیں، بیسیوں کالم ریکارڈ پر ہیں جب 26سال پہلے میں مختلف انداز میں بار بار لگاتار لکھ رہا تھا کہ لوگو! ان دونوں یعنی میاں اور محترمہ، بابو اور بی بی کے درمیان جینڈر کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں۔ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں اور آج الحمدللہ26 ….
سال بعد میرے رب نے بھرم رکھ لیا اور یہ بات اعدادوشمار کے ساتھ کھل کے سامنے آ گئی کہ دونوں کا طریقۂ واردات بھی ایک جیسا ہی ہے۔ دونوں کی جمہوریت ’’فالودے‘‘ سے شروع ہو کر ’’پاپڑوں‘‘ پر ختم ہو جاتی ہے۔ عوام کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہیں اور ان کے مستقبل کا فالودہ بنا دیا گیا۔پاکستانیوں سے میری اک بے ضرر سی اپیل ہے۔ میرے انتہائی لاڈلے ارشاد بھٹی کا 15اپریل یعنی گزشتہ کل شائع ہونے والا کالم ’’اور اب پاپڑ فروش‘‘ بار بار پڑھیں، اپنے بچوں اور اہل محلہ کو پڑھائیں اور پھر تعویز بنا کر گلے میں ڈال لیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
غضب خدا کا، پاکستان کو اس حال تک پہنچانے والے پاکستان ہی کے نام پر ایک بار پھر پاکستان کے وسائل میں نقب لگانا چاہتے ہیں۔واہ اوئے میرے ٹی ٹی کمارو اور ٹی ٹی کپورو! کیا اب بھی کوئی شک، کوئی کسر باقی رہ گئی ہے کہ تم جیسے دیانتدار نہ پہلے کبھی اس دھرتی پر آئے نہ آئندہ کبھی آئیں گے۔ واقعی تم نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی۔ صرف دو سو جعلی ٹرانزیکشنز پکڑی گئی ہیں جو ساری کی ساری شہباز فیملی کے اکائونٹس میں گئیں اور یہ اب بھی معصوم اور مظلوم بننے کی اداکاری کر رہے ہیں۔بڑے میاں تو بڑے میاںچھوٹے میاں سبحان اللہاور مزید چھوٹے مزید سبحان اللہپنجاب تا سندھ سیاسی ٹٹیریوں کے پاس دنیا کے ہر سوال کا جواب ہے، صرف ٹی ٹیوں کا کوئی حساب نہیں۔