اگر پاکستان میں سب سے اچھی منظم اور شریف اور بے لوث قیادت تسلسل کسی جماعت کے پاس رہی تو جماعت اسلامی پاکستان ہے ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سب سے زیادہ میرٹ اور جمہوریت بھی جماعت اسلامی کا طرہ امتیاز ہے۔ سادگی ، دیانت اور فرض شناسی میں جماعت کی قیادت کا پہلا نمبر ہے۔ جماعت والے نہ تو کسی خاندان کی اجارہ داری کا شکار ہوئے نہ ہی کسی علاقائی سیاست کے رنگ میں نظر آئی۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ میں بھی قربانیوں کی لازوال داستان ، جہاد افغانستان ، کشمیریوں کی پشت بانی ، فلسطینیوں کے لئے ملین مارچ ،برما والوں کے لئے دردمندی وہ درخشاں باب ہیں جو تاریخ میں امر ہو چکے۔
اسکے علاوہ جماعت کی خصوصیات ، قربانیاں اور اعزازات مجھے جیسے آدمی طالب علم کے لئے ایک تحریر میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔
ویسے ابھی اس تحریر کا مقصد جماعت اسلامی پر کڑی تنقید یے ۔ ابتدا میں جماعت کے مثبت پہلوں کو اجاگر کرنے کی وجہ یہ تھی اسکی قربانیوں کے اعتراف کرتے ہوئے تنقید کرنے کا جماعت اسلامی کے اراکین اور تھنک ٹینک کے سامنے ایک نیا زاویہ رکھنا اور سوال اٹھانا ہے۔
جماعت کا سو شل میڈیا آجکل جس نامناسب انداز میں حکمران جماعت پر منفی تنقید کر رہا یے وہ بالکل مسلم لیگ نون جیسا یے۔ جماعت جیسی سنجیدہ اور نظریاتی جماعت سے بھی انتہائی نا معقول ، فوٹو شاپ شدہ اور بے بنیاد چیزوں کی ترویج دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔۔۔۔ وہ کیا گردوں تھا جسکا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا ۔
اس مشکل دور میں جب تمام مذہبی جماعتیں اپنی ساکھ کھو چکیں ، ایم ایم اے کے دور میں جب سنہری موقع ملا پور ے صوبے پر حکومت کرنے کا تو نتیجہ صفر رہا۔ وہ تمام آفاقی مثالیں اور اسلامی تاریخ کے واقعات جو ہزاروں کتابوں سے پڑ ھ کر سنائے جاتے رہے کئی دہائیوں تک ، جب اقتدار ملا تو ان جیسی ایک بھی مثال قائم نہ کی جاسکی۔
اب جماعت اسلامی کو کرپٹ سیاسی جماعتوں کی طرح حکومت پر تنقید کے بجائے معاشی بحران سے نکلنے کے لئے لائحہ عمل اور تجاویز دینی چاہیں ۔
انتہائی مخلص سراج الحق صاحب کی ہر سمت بکھری پالیسی نہ تو جماعت کو آئندہ انتخابات میں کامیابی دلاسکتی ہے نا ہی عوامی مقبولیت۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنتی چلی جارہی ہے اور اراکین دل ہار چکے ہیں۔
میرے جماعت کے دوستوں سے چند سوالات ہیں۔
1) اگر یہ حکومت ناکام ہوئی تو کیا نواز زرداری کو تقویت ملے گی یا نہیں ؟
2) کیا تحریک انصاف کی حکومت کی مدت پوری نہ ہوئی تو جمہوری نظام جسکی حمایت جماعت اسلامی کرتی ہے ، کمزور ہو گا یا مضبوط ؟
3) کیا جلد الیکشن کی صورت میں جماعت 3-5 نشتوں سے زیادہ کچھ حاصل کر سکے گی ؟
4) کیا الیکشن کے نتائج جماعت اسلامی عوام میں مقبولیت کی کم ترین سطح پر ہے یا نہیں ؟
5)اگر فقت کارکردگی معیار یے تو عام انتخابات 2018 میں بد ترین ناقامی کے باوجود جماعت اسلامی نے سر اج الحق صاحب کو ایک بار پھر 4 سال کے لئے امیر جماعت اسلامی کیوں منتخب کیا گیا۔
اصل سوال یپدا ہوتا ہے کہ جماعت تنقید نہ کرے تو کیا کرے ؟؟
تو درخواست ہے کہ جناب آپکے پاس جو معیشت کے بحران سے نکلنے کیلئے لائحہ عمل ہے اسکو حکومت کے سامنے غیرمشروط طور پر خیر سگالی کے جذبہ کہ تحت تجویز کیا جائے کے فورم سے IPS اصلاحاتی ایجنڈا اور تجاویز پیش کی جائیں ۔
جماعت اسلامی بجائے بھونڈی تنقید کے راستے پر چلنے کے بجائے مثبت اور تعمیری تنقید برائے اصلاح کرے تاکہ عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا سکے ۔
حالیہ معاشی بحران سے نکلنے کے لئے تجاویز مرتب کرنے کہ لئے ایک آل پارٹی کانفرس کانفرنس منعقد کرے ۔اس وقت اپنی سیاسی دکان کو چمکانے کی بجائے وہ ملک کو بحران سے نکالنے میں کردار ادا کرے ۔ لاکھ تنقید اور خامیوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف سے زیادہ جماعت اسلامی کا ہم خیال کوئی نہیں ۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت ناکام ہوئی تو یہ جماعت اسلامی کی بھی ناکامی ہوگی اور تبدیلی کی خواہش مند تمام قوتوں کی بھی۔
میری جماعت اسلامی کی قیادت سے استعداہے کہ وقت آگیا ہے کہ جماعت اسلامی ملک کو مسائل اور بحرانوں سے نکالنے کے ایجنڈے کی نقاب پوشی کرے جو 70 سال سے جماعت نے اپنے سینے میں چھپا رکھا ہے۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ اسی انمول ایجنڈے کو جماعت اسلامی پر بطور جماعت بھی لاگو کیا جائے تاکہ جماعت اسلامی بھی ترقی کرے۔ اگر جماعت کے دوستوں کے پاس یہ دلیل ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جماعت کو آگے نہیں آنے دے رہی تو ہو سکتا ہے حکومت میں آنے کے بعد عمران خان کو بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو آگے نہیں لے گر جانے دے ہو۔ یہ دلیل فقط خود فریبی ہے۔
لہذا خدارا حکومت کی مدد کریں نہ کہ وطن عزیز کو بحرانوں سے نکالنے میں نہ کہ نواز زرداری کہ ہمنوا بن جائیں ۔
میں یقین سے کہتا ہوں کہ جماعت مخلص ہو کر کوشش کرے تو حکومت کم مدت میں بہتر نتائج دے گی۔ اب وقت آگیا ہے جماعت ان سنہری ترقی کے کلیا جات سے پردہ چاک کر ے ۔ متبادل معاشی اصلاحات پیش کرے ، وائٹ پیپر جاری کرے اور وہ سب جو جماعت جیسے نظریاتی تحریک کہ شیان شان۔ اس وقت جماعت کہ ناظم امور سوشل میڈیا محترم شمس الدین امجد صاحب سمیت تمام اہل فکر کا کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی اور دوسری جماعتوں کے سوشل میڈیا میں فرق پیدا کریں۔