بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا جاتا ہے‘ اس کی قلعی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی رپورٹ میں کھل گئی ہے۔اب کوئی ذی شعور شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم نہیں ڈھائے جا رہے ہیں۔گزشتہ روزاقوا م ِمتحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی چیف ‘مائیکل بیچلیٹ نے جنیوا میں اپنی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے بھارت میں خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ۔
د وسری طرف دلتوں کے ساتھ تیزی سے بڑھتے ہوئے استحصال اور ظلم و جبر کے واقعات پر بھارتی حکومت پر کڑی تنقید کی ہے۔رپورٹ نے ایک بار پھر اس بحث کو ازسر نو زندہ کر دیا ہے کہ کیا بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ظلم و بربریت کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قدغن لگانے کے لیے کسی مخصوص قانون کی ضرورت ہے؟اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ”فرقہ وارانہ پالیسیوں اور تنگ سیاسی ایجنڈوں کی وجہ سے پہلے سے ہی غیر مساوی سماج کے کمزور طبقات ‘مزید درکنار کئے جا رہے ہیں‘‘۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت میں صدیوں سے فرقہ واریت جاری ہے۔ تقسیم ہند کے بعد ایک جمہوری حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس دستور کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل تھی کہ صدیوں سے جس طرح پورا بھارت مختلف غیر مساوی درجات میں منقسم ہے‘ اس کو ایک مساوی سماجی دھارے میں لایا جائے‘ جہاں ہر کسی کو برابری کی سطح پر حقوق دئیے جائیں ‘لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ صرف نعرہ بن کر رہ گیا۔
آج کے بھارت خصوصاً مودی کی قیادت میں‘ جس طرح مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جا رہے ہیں‘ اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔آزادی کے بعد بھی بھارت کا مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونا نئی بات نہیں۔یہ تقسیم صدیوں سے رائج ہے۔ تازہ مثال لالو پرشاد یادیو کی ہے۔ اس وقت سب کی نظریں لالو پرشاد پر مرکوز ہیں۔ نریندر مودی نے لالو پرشاد کی حمایت لینے کی خاطر طرح طرح کے جال بچھائے ‘جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر حکومت سازی کا موقع مل گیا‘ تو وزارت ِعظمیٰ کے سوا انہیں ہر وزارت پیش کی جا سکتی ہے۔یہ چھوٹا سا فرق آنے والی بھارتی حکومت کے نقوش ظاہر کرے گااوراگر لالو پرشاد کا جھکائو مسلمانوں کی طرف ہوگیاتو مودی کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔
بھارت دنیا کا واحد ملک ہے ‘جہاں بے شمار مذاہب‘ زبانیں‘ تہذیبیں‘ نسلیں اور ذات پات کے نظام پائے جاتے ہیں‘ بلکہ ہر مذہب میں مختلف و متنوع رسم و رواج اور خیالات موجود ہیں۔ ہندو اکثریتی ملک میں ایک طویل مدت تک مسلم حکومت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے اقلیت میں ہونے کے باوجود‘ شدت پسند ہندو تنظیموں نے مسلمانوں کو ایک دشمن کی حیثیت میں پیش کیا اور اس میں ایسی کامیابی حاصل کی کہ اب باقاعدہ طور سے مسلمانوں کو دشمن مانا جاتا ہے۔مسلمان اقلیت کو ایک سیاسی حریف یا دشمن کے طو رپر پیش کر کے سیاست کا ایک حربہ اختیار کیا گیا اور منظم انداز سے مسلمانوں کو تعصب کانشانہ بنایا گیا۔ استحصال کی اہم صورت تعصب یا امتیازی سلوک کا شکار ہونا بھی ہے۔ حالیہ دنوں میں بھارت کے کئی سینئر پولیس افسران کا یہ دعوی سامنے آیا کہ انہیں مسلم یا دلت ہونے کی وجہ سے تعصب کا شکاربنایا گیا۔
دلتوں کی سماجی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے اوربی آرا مبیڈکر ‘ کی ایک منظم کوشش کے تحت دلتوں کو دستور نے خصوصی مراعات فراہم کر دیں‘ لیکن مسلمان1950ء میں ناکام قیاد ت کی وجہ سے حکومت کے تعصب کا شکار ہو گئے۔ جب صدارتی آرڈر کے ذریعے مسلم اور عیسائی دلتوں کو ریزرویشن سے باہر کر دیا گیا‘ یعنی ایک دلت جو صدیوں سے استحصال کا شکار رہا‘ جب تک ہندو مذہب کو مانے گا‘ اس کو ریزرویشن کی مراعات ملیں گی؛ اگروہ عیسائی یا مسلمان ہو جاتا ہے ‘تو اس کو حاصل ہونے والی تمام مراعات‘ مذہب کی بنیاد پر چھین لی جائیں گی‘ یعنی اس کے ساتھ مذہب کے نام پر کھلے عام تعصب اور تفریق کا رویہ اختیار کیا جائے گا۔
دوسری طرف دیگر اقلیتیں ‘مثلاً عیسائی بھی فرقہ وارانہ تشدد کا شکار ہوتے رہے۔ان پر الزام لگائے گئے کہ وہ اپنے وسائل کے ذریعے‘ صدیوں سے ظلم و زیادتی کے شکار پسماندہ دلتوں کا مذہب تبدیل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عیسائی پادریوں پر حملے ہوں یا چرچ اور اس کی مذہبی سرگرمیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات ‘ یہ نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی کمی آئی ہے‘ بلکہ تبدیلی مذہب کی روک تھام کے نام پر بھارت کی کئی ریاستوں میں نئے قوانین بنا کر‘ مذہب کی تبلیغ کی دستوری آزادی پر نا صرف پابندی عائد کرنے کی کوشش جاری ہے‘ بلکہ عیسائیوں اور ان کے مذہبی مقامات کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں‘ جن مسائل کا تذکرہ کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک سماجی مسئلے اور جرم کی حیثیت رکھتا ہے‘ جبکہ کسی بھی جرم کی صورت میں بھارت نے کریمنل جسٹس سسٹم بنایا ۔ کریمنل جسٹس سسٹم کو حرکت میں لانے کی چابی یا بٹن کا نام ایف آئی آر ہے۔ اب تک تقریباً تمام تحقیقات اور رپورٹ میں جو ایک چیز سامنے آئی ہے ‘ وہ پولیس کے ذریعے اقلیتی طبقے ‘ یعنی مسلمانوں کی ایف آئی آر درج کرنے میں‘ مجرمانہ حد تک غفلت اور تاخیری حربے استعمال کرنا ہے۔ستم بالائے ستم جب متاثرہ شخص ایف آئی آر درج کرانے عدالت کا رخ کرتا ہے‘ تو وہاں بھی تاخیر تا دم ِاخیر ہوتی ہے۔
پولیس کا کام ایماندارانہ تفتیش کرنا ہوتا ہے‘ لیکن یہ ایک معما ہے کہ جرائم ؛اگر اقلیت‘ یعنی مسلمانوں کے خلاف سرزد ہو اور اس کے مقاصد بھی سیاسی ہوں توصاف شفاف تفتیش کی توقع کرنا فضول ہے۔ بھارت کی اعلیٰ عدالتوں کی فائنڈنگ ہے کہ پولیس مجرموں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انہیں بچانے کی حتی المقدور کوشش کرتی ہے۔ نظام عدل کا قیام امن و انصاف کا قیام یقینی بنانے کی غرض و غایت سے ہوا‘ انصاف کا نظام پائیدار بنانے کے کچھ بنیادی اصول ہیں‘ جن میں اہم ترین اصول یہ ہیںکہ متاثرہ شخص کی حفاظت یقینی بنائی جانے۔ کریمنل مقدمات کی روح‘ ان مقدمات کے چشم دید گواہ ہوتے ہیں‘ جن کی حفاظت لازم ہوتی ہے۔ مقدمات میں تاخیر کا مطلب ‘انصاف دینے سے انکار کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔
بھارت میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ ان کے ساتھ حکومت اور حکومتی اداروں کا رویہ‘ نیز ان کی پالیسیاں افسوس ناک ہیں۔ کریمنل جسٹس سسٹم کے سبھی ادارے‘ بشمول پولیس اور نظام ِعدل ‘نیز کروڑوں مقدمات کی موجودہ صورت حال حیرت ناک ہے۔ کسی بھی طرح کی کوئی جواب دہی کا نظام یا اس کی شکل موجود نہیں‘ تاہم اقلیتوں خصوصاً مسلم طبقہ اور اس کی سیاسی قیادت کا اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار سب سے زیادہ ہیبت ناک ہے۔ بھارت میں مسئلہ قوانین کا نہیں‘ بلکہ اس کے نفاذ کا ہے‘ جس کی وجہ سے نا صرف حکومتیں ‘بلکہ ان کے زیر کنٹرول چلنے والے ادارے‘ اپنی ذمہ داریوں سے مجرمانہ غفلت کرتے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔