پہلی جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی، ایک جانب برطانیہ اس جنگ میں الجھا ہوا تھا تو دوسری جانب ہندوستان میں بڑھتی ہوئی ’’بغاوت‘‘ نے اس کا ناطقہ بند کر رکھا تھا، ان باغی سرگرمیوں کو کچلنے کے لئے تاج برطانیہ نے ہندوستان میں ہنگامی نوعیت کے قوانین نافذ کر رکھے تھے، جب جنگ عظیم ختم ہوئی تو ہندوستانی عوام کا خیال تھا کہ اب شاید ان قوانین کو نرم کیا جائے گا مگر الٹا انگریز حکومت نے مارچ 1919کو رولٹ ایکٹ کا نفاذ کر دیا، اس ایکٹ کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو باغیانہ سرگرمیوں کے الزام میں بغیر وارنٹ اور مقدمے کے غیرمعینہ مدت کے لئے پکڑ کر اندر کر سکتی تھی، اس کالے قانون کو پاس کرنے والا ایک انگریز جج آرتھر رولٹ تھا، جسے گوروں نے’’سر‘‘ کا خطاب بھی دے رکھا تھا۔
اس قانون کا شدید ردعمل ہوا، قائداعظم نے اپنی بمبئی کی نشست سے احتجاجاً استعفی دے دیا اور وائسرائے کو ایک خط میں لکھا کہ ایسی حکومت جو امن کے دنوں میں اس قسم کے قانون کو نفاذ کرے، اسے ایک مہذب حکومت کہلانے کا کوئی حق نہیں۔ گاندھی جی نے بھی اس کے خلاف پورے ہندوستان میں ایک دن کی ہڑتال کی کال دے دی۔ یہ اپریل کے اوائل کے دن تھے، یوں لگتا تھا جیسے پورا ہندوستان ہی انگریز کے ہاتھ سے نکل جائے گا، خاص طور سے پنجاب میں تو مزاحمت اپنے عروج پر تھی، ریل، تار اور ڈاک کا سارا نظام معطل ہو کر رہ گیا تھا، لاہور کا حال تو یوں تھا جیسے پورا شہر ہی سڑکوں پر امڈ آیا ہو، انار کلی میں بیس ہزار افراد کا جلوس نکلا، امرتسر کا حال بھی مختلف نہیں تھا، صورتحال انگریز سرکار کے مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتی جا رہی تھی۔
کانگریس کے دو لیڈران ڈاکٹر سیف اللہ کھچلو اور ڈاکٹر ستیاپال کے ساتھ جب گاندھی جی کی گرفتاری کی خبر امرتسر پہنچی تو شہر تو گویا پھٹ ہی پڑا، پندرہ ہزار لوگ جمع ہو کر احتجاج کرنے لگے، امرتسر کے ڈپٹی کمشنر مائلز ارونگ نے گولی چلانے کا حکم دے دیا، نتیجے میں پچیس لوگ مارے گئے، پورے شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے، مشتعل ہجوم نے برطانوی بینک لوٹ لئے، چار برطانوی اہلکاروں کو بھی مار دیا، اسی دوران مارسیلا شیروڈ نامی ایک انگریزی مشنری عورت جو اسکول کے بچوں کو ہنگاموں سے بچانے کے لئے محفوظ مقام پر لے جا رہی تھی، ہجوم کے ہتھے چڑھ گئی، اسے برہنہ کرکے شدید مارا پیٹا گیا، مقامی لوگوں نے مگر اسے چھڑوا لیا۔ اس جرم کی پاداش میں مقامی لوگوں کو سزا دی گئی کہ جو بھی ہندوستانی اس گلی سے گزرے گا، جہاں یہ واقعہ ہوا تھا، وہ لیٹ کر رینگتا ہوا گزرے گا۔ سزا سنانے والے فوجی افسر کا نام کرنل (ایکٹنگ بریگیڈئر جنرل)ڈائر تھا۔
13اپریل 1919کو اسی بریگیڈئیر ڈائر نے والا باغ کے مقام پر بیساکھی کے لئے جمع ہونے والے بیس ہزار عورتوں، بچوں اور نوجوانوں پر گولیوں کے 1650رائونڈ فائر کئے، جس کے نتیجے میں انگریزی حکومت کے مطابق 337مرد اور 41بچے مارے گئے، جن میں چھ ہفتے کا ایک بچہ بھی شامل تھا جبکہ کانگریس کی رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سے پندرہ سو تک افراد جاں بحق ہوئے۔ ڈائر نے اس وقت تک گولیاں چلائیں جب تک ان کی گولیاں ختم نہیں ہو گئیں، باغ سے باہر جانے کا ایک ہی راستہ تھا، اسے ڈائر نے بند کروا دیا اور پھر وہاں نشانہ تاک کر فائرنگ کی گئی تاکہ بھاگنے والوں کو بھی نہ چھوڑا جائے، اس اندھا دھند فائرنگ کے بعد جنرل ڈائر اور اس کے ساتھی خون کے تالاب میں تیرتی لاشوں کو چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔
جلیاں والا باغ کے بعد انگریز حکومت نے پنجاب میں مارشل لاء لگا دیا اور پھر ناختم ہونے والے مظالم کا ایک نیا باب شروع ہوا، جلیاں والا باغ کا سانحہ اس قدر بڑا تھا کہ بعد کے تمام واقعات اس کے سائے میں چھپ گئے، یہ خبر جب گوجرانوالہ پہنچی تو شہر میں گویا آگ ہی لگ گئی، تاریخ میں پہلی مرتبہ حالات مقامی انتظامیہ کے ہاتھ سے ایسے نکل گئے کہ انگریز کو ہوائی جہاز سے نہتے شہریوں پر بمباری کرنا پڑی، ایسی بربریت کسی جنگ میں بھی نہیں ہوتی، گوروں کا کہنا ہے کہ اس میں گیارہ لوگ مارے گئے مگر اصل میں مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ مارشل لاء احکامات کے تحت ہندوستانیوں کو ذلت آمیز سزائیں دی گئیں، انہیں سر عام کوڑے لگائے جاتے، مارا پیٹا جاتا، 1229لوگوں پر باغیانہ سرگرمیوں کے مقدموں میں سزا سنائی گئی، جن میں سے 18لوگوں کو سزائے موت جبکہ 23کو عمر قید ہوئی، مگر یہ اعداد و شمار اس ظلم کو ظاہر نہیں کرتے، جو اس وقت تاج برطانیہ نے ہندوستانیوں پر کیا۔ جلیاں والا باغ کے واقعہ کی خبر جب رابندر ناتھ ٹیگور تک پہنچی تو اُنہوں نے انگریز سرکار کو ’’سر‘‘ کا خطاب واپس کر دیا۔
برطانوی حکومت نے اس سانحے کی انکوائری کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا جسے ہنٹر کمیشن کہتے ہیں، اس کمیشن نے جنرل ڈائر کی ’’سرزنش‘‘ کی اور اسے فوج سے مستعفی ہونے کا حکم دیا۔ کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں جنرل ڈائر نے فخریہ انداز میں کہا کہ یہ ممکن تھا کہ میں بغیر فائرنگ کئے ہجوم کو منتشر کر دیتا مگر ایسی صورت میں انہوں نے دوبارہ واپس آکر مجھے احمق سمجھ کر مجھ پر ہنسنا تھا۔ چرچل نے جو اس وقت سیکریٹری آف وار تھا، ہاؤس میں کامن میں تقریر کرتے ہوئے جنرل ڈائر کی مذمت کی مگر ہاؤس آف لارڈز نے ڈائر کی تحسین کو اور اسے ایک تلوار تحفے میں پیش کی جس پر ’’پنجاب کا نجات دہندہ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے، جنرل ڈائر کے حامی انگریزوں نے بڑی تعداد میں اس کے لئے فنڈ بھی اکٹھا کیا تاکہ وہ اپنے مقدمے کی پیروی اطمینان سے کر سکے۔
اپنے عمر کے آخری حصے میں جنرل ڈائر فالج کا شکار ہو کر چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا، اس کے بولنے کی صلاحیت ختم ہو گئی اور اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوئی۔ اتفاق سے ڈائر کا ہم نام اسی وقت میں پنجاب کا گورنر بھی تھا، جب جلیاں والا باغ کا سانحہ ہوا، اس کا پورا نام مائیکل اوڈائر تھا، اس گورنر کو بعد میں ادھم سنگھ نامی ایک شیردل نے لندن میں گولی مار کر ہندوستانیوں کے خون کا بدلہ لیا۔ ادھم سنگھ کو پھانسی دے دی گئی، اس کی باقیات جلیاں والا باغ میں دفن ہیں۔
جلیاں والا باغ نے انگریزوں کی انصاف پسندی کو ایسا برہنہ کیا کہ اب تک وہ اس برہنگی کو ہاتھوں سے آگے پیچھے کر کے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر بات نہیں بنتی، سو برس گزر گئے مگر برطانوی حکومت کو اس واقعے پر معافی مانگنے کا حوصلہ نہیں ہوا، تھریسامے نے اسے ایک شرمناک واقعہ تو قرار دیا ہے مگر معافی مانگنے کی زحمت نہیں کی، ادھر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی ایسی کوئی مہم نہیں چلی جو انگریزوں کو مجبور کر دے کہ وہ اس انسانیت سوز واقعہ پر معافی مانگیں۔ جلیاں والا باغ کا واقعہ ایک بنیادی سوال کو بھی جنم دیتا ہے اور وہ یہ کہ تاریخ میں وہ کون سا ایسا موقعہ ہوتا ہے، جب مروجہ قانون پر عمل کرنے سے زیادہ قانون توڑنے والا تاریخ کی درست سمت میں ہوتا ہے۔ جنرل ڈائر نے دفعہ 144کی خلاف ورزی کرنے والوں پر گولی چلائی اور تاریخ نے اس کے منہ پر کالک مل دی، مگر ادھم سنگھ گورنر مائیکل اوڈائر کو قتل کر کے پھانسی پر جھول گیا اور امر ہو گیا۔ کچھ واقعات قانون سے ماورا ہو کر تاریخ بناتے ہیں، جلیاں والا باغ بھی ایسا ہی واقعہ تھا۔