کوئی ہے کہ جس کی آنکھیں اور کان سلامت ہیں یا سب کے سب گونگے اور بہرے ہو گئے۔کوئی سننے والا ہے کہ نہیں ہے؟
”میں نجف علی وڑائچ اکتیس برس سے سوئٹزر لینڈ میں ہوں۔ پچیس سال سے پاکستان سے سبزیاں اور پھل درآمد کر رہا ہوں۔ اس ربع صدی میں مسلسل اور متواتر ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا رہا۔ان پاکستانیوں کو ملک کے لیے جو زرِ مبادلہ کے ذخائر تعمیر کرتے ہیں۔
تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے باوجود، تمام رکاوٹیں اور مشکلات بدستور ویسی کی ویسی ہیں۔ سرکاری اداروں میں کارفرما ، سرکاری افسر ذمہ دار ہیں۔ کیا وہ افسر ہیں یا کوئی مافیا؟ یہ کارنامے ایکسپورٹ پروموشن بیورو اور پلانٹ پروٹیکشن بیورو کے کرتا دھرتا انجام دے رہے ہیں۔ درآمد کنندگان کی مدد کرنے کی بجائے، جو ان کی ذمہ داری ہے، آئے دن طرح طرح کی دشواریاں پیدا کرنا ان کا شعار بن چکا۔
تازہ ترین مثال حیران کر دینے والی ہے۔ ٹھیک دو ماہ بیت چکے۔ پورے یورپ کے لیے پاکستان سے سبزیوں اور پھلوں کی آمد پہ پابندی لگی ہے۔سری لنکا اور ہندوستان سے سارا سال سب کچھ پہنچتا رہتا ہے۔آج تک کبھی رکاوٹ نہیں پڑی۔ ایک دن کے لیے درآمدات تعطل کا شکار نہیں ہوتیں۔ پاکستان کے متعلقہ ادارے برآمد بڑھانے کی بجائے، بند کر کے بیٹھ رہے ہیں بے نیاز۔ جسے کوئی تعلق ہی ان کا نہیں۔ کیوں انہیں ادراک نہیں کہ اس کا مطلب، اس مارکیٹ کو ہندوستان کے سپرد کرنے کے سوا کچھ اور نہ ہوگا۔
ہم پیچھے ہٹتے اور وہ آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان سے ایک بات ہمیں عرض کرنا ہے۔ ملک کی معاشی ترقی میں سب سے اہم کردار نوکر شاہی کا ہوتاہے۔ چاہے تو بڑھا دے۔ چاہے تو بساط ہی لپیٹ کے رکھ دے۔ اگر ان لوگوں کو ، ان کے طرزِ عمل کو برداشت کیا جاتا رہا۔ جواب کی بار خطا کے ذمہ دار ہیں۔ سدِّ باب اگر نہ ہوا تو باقی ماندہ معیشت بھی ڈوب جائے گی۔ پھر کیا ہوگا؟
گوشوارہ کسی کو مرتب کرنا چاہئے۔ تخمینہ کسی کو لگانا چاہئے کہ پابندیوں کے اس عرصے میں کتنا نقصان ملک کو پہنچا۔ معاملہ اگر یہی رہا تو کتنا اور ؟ کارگر لوگ سلیقہ مندی سے اگر جائزہ لیں تو اندازہ ہو گا کہ ہر روز کتنے لاکھ ڈالر سے وہ ملک محروم ہو جاتا ہے، ایک ایک ڈالر کی جسے ضرورت ہے۔ہماری معلومات کے مطابق پانچ لاکھ تہتر ہزار ڈالر ہر روز کا نقصان ہے۔
ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن اور نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے جو افسر جرم یا غفلت کے مرتکب ہیں، فوری طور پر ان کی شناخت کی جائے ۔سخت اقدام ان کے خلاف کیا جائے۔
سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر محترم اور کمرشل اتاشی بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ کن مشاغل میں یورپ کے درجنوں ممالک میں پھیلے ہمارے سفارت کار مبتلا رہتے ہیں۔ کتنا زیاں ان ناکردہ کاروں کے طفیل ملک کے غریب کاشتکاروں، ٹرانسپورٹ کا کاروبار کرنے والوں، بیرون ملک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے درآمد کنندگان کو پہنچا ہے؟ یورپ کے ہزاروں خریداروں کا اعتماد متزلزل ہو چکا۔ بتانے کی ضرورت نہیں، ظاہر ہے کہ آسانی سے بحال نہیں ہوگا۔
کیا کوئی قانون موجود ہے کہ تباہی برپا کرنے والوں کو جرمانے عائد کیے جائیں؟ ان کی تنخواہوں سے رقم کاٹ کر برباد ہونے والوں کی دست گیری ہو؟ اگر نہیں تو لازماً ایسا کوئی ضابطہ تشکیل دینا چاہئے۔ فصل برباد کرنے والے جانوروں کو گولی سے اڑا دیا جاتا ہے۔ کچھ نہ کچھ سزا تو ایسے افسروں کو ملنی چاہئے، بے حسی کے جو مرتکب پائے جائیں۔
شاید کچھ احساس جنم لے۔ شاید انہیں ادراک ہو کہ چولہے جب بجھ جاتے ہیں تو دلوں پر کیا گزرتی ہے، گھروں پہ کیا بیت جاتی ہے۔ کیا ان کی تنخواہوں اور مراعات کا ایک حصّہ ضبط نہیں کیا جا سکتا؟ اگر ایسا ہو اور اس سے غریب کسانوں کی داد رسی کی جائے تو حماقتوں سے شاید وہ گریز کریں۔ شاید کہ روک تھام ہو۔ کیا عزم اور سنجیدگی سے احتساب ممکن ہے؟
پچھلی حکومتوں کی روش ہی اگر باقی و برقرار رہی تو کرپشن کے خاتمے کا خواب، محض ایک خواب ہی رہے گا۔ وہی لوگ عملاً اقتدار میں رہیں گے، معاشی طور پر ملک کی تباہی کے جو ذمہ دار ہیں۔ سپریم کورٹ سے ہم التجا کرتے ہیں کہ یورپ میں تعینات سفیروں کے علاوہ، متعلقہ پاکستانی محکموں سے وابستہ افسروں کے اثاثہ جات کی جانچ پڑتال کرائی جائے۔سنگین صورتِ حال کو اگر سنگین نہ سمجھا جائے تو صحت یابی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔
ان کی تنخواہوں اور مراعات کا انحصار اس بات پر ہونا چاہئے کہ برآمدات بڑھانے کے لیے انہوں نے کیا کیا ۔
غفلت شعاروں کو چلتا کیا جائے۔ بتدریج فعال اور مستعد افسران کی جگہ لیں۔ ایسے نوجوان لوگ، ملک کا جو درد رکھتے ہوں۔ مفاد پرستوں اور ابن الوقت افسروں سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ قومی اداروں کو ان سے پاک کرنا ہوگا۔
یہ سب کچھ دانستہ ہوا یا نا دانستہ، شعوری یا لا شعوری طور پہ، حکومت کو تعین کرنا ہوگا۔ جرم کا ارتکاب کسی فرد یا گروہ نہیں ملک اور ریاست کے خلاف ہواہے۔ پہلے سے ہچکولے کھاتی اور ڈوبتی معیشت اس کارنامے کی متحمل کیونکر ہو سکتی ہے؟ قومی سلامتی، ملکی معیشت سے جڑی ہوتی ہے۔ سرکاری افسروں کے کسی ٹولے کو قومی معیشت کی پروا نہیں تو وہ قومی سلامتی کو دائو پر لگانے کا ذمہ دار بھی ہے۔
قاعدے کی بات تو یہ ہے کہ سرکاری اداروں کو معیاری پیداوار کے حصول میں کسانوں کا مددگار ہونا چاہئے۔ تکنیکی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں۔ انہیں یورپ کی مارکیٹوں میں داخلے اور رسائی کے لیے معیار کی اہمیت سمجھانا ہوگی۔ سادہ لوح کسان حکمرانوں کی توجہ کا منتظر ہے۔
دہقان ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
سوئٹزر لینڈ اور دوسرے یورپی ممالک کی طرف سے پاکستانی سبزیوں اور پھلوں کی کوئی ممانعت نہیں۔ یہ ہمارے افسر ہیں، جنہوں نے سبز مرچ، امرود، کیلے، بینگن، سبز دھنیے وغیرہ پہ پابندی لگا رکھّی ہے۔ متعلقہ وفاقی وزیر اور افسرانِ گرامی سے دریافت کیا جائے کہ ایسا کیوں ہے؟ کوئی مسئلہ اگر ہے تو حل کیوں نہیں ہوتا۔ کوئی رکاوٹ ہے تو دور کیوں نہیں کر دی جاتی؟ زندگی مشکلات اور مصائب کا نام ہے۔ ان سے لڑتے رہنے کا، ہتھیار ڈالنے کا نہیں۔
ہم سمندر پار پاکستانی، برآمدات میں اضافہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر قابو پانے اور زر مبادلہ کے سوکھتے ہوئے ذخائر کو سر سبز کرنے کی استعداد سے بہرہ ور ۔ ہمارے نمائندے اگر سرکاری اداروں میں شامل کیے جائیں ۔ اگر انہیں اختیار دیا جائے۔ اگر ذمہ داری میں شامل و شریک کیا جائے تو اس حادثے رونما نہ ہوں۔
ایثار پہ ہم آمادہ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری قوم ایک بحران سے دو چار ہے۔ دلدل میں گھری ہے۔ ہم دکھی ہیں۔ ملک کو دلدل سے نکالنے کے آرزو مند ہیں۔ مگر ہماری سنے بھی، ہم سے بات بھی تو کرے۔
کوئی ہے کہ جس کی آنکھیں اور کان سلامت ہیں یا سب کے سب گونگے اور بہرے ہو گئے۔کوئی سننے والا ہے کہ نہیں ہے؟‘‘
والسلام! نجف علی وڑائچ اور ساتھی