کالم کی سری:گزشتہ اتوار خاکسار نے بالی ووڈ کی موسیقی پر جو کالم لکھا تھا اس کے بعد انصاف کا تقاضا تھا کہ پاکستانی موسیقی کا بھی حسبِ توفیق پوسٹ مارٹم کیا جائے، سو آج وہی ہوگا۔ کچھ احباب نے متذکرہ کالم کے بعد سے مجھے موسیقی کا کوئی ’’خاں صاحب‘‘ سمجھ لیا ہے حالانکہ میرا موسیقی سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا کسی خاں صاحب کا ریاضی سے! پاکستان ٹاکیز، برصغیر کا پہلا سینما تھا، یہ لاہور کی ہیرا منڈی میں واقع ہے، کچھ لوگوں کو اس بات میں شک ہے کہ یہ پہلا سینما تھا، دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ اگر یہ1909میں بنا تھا تو اس میں پہلی فلم1913میں کیوں لگی، اس دلیل میں وزن اس لیے نہیں کیونکہ یہ سینما پہلے تھیٹر ہوا کرتا تھا، اس دور کے سینما گھر پہلے تھیٹر ہی ہوا کرتے تھے، مثلاً اگر آپ لاہور کی مال روڈ سے میکلوڈ روڈ کی طرف جائیں تو دائیں جانب جہاں کیتھیڈرل گرجا گھر ہے اس سے آگے میکلوڈ روڈ کا پہلا سینما ریجنٹ ہوا کرتا تھا، یہ بھی پہلے تھیٹر تھا، ایک دفعہ جب اس کی مرمت کا کام شروع کیا گیا تو نیچے سے اس کا پرانا نام’’جے مل تھیٹر‘‘ لکھا ہوا ملا، اسی طرح قیصر سینما، رٹز سینما، یہ سب بھی پہلے تھیٹر تھے۔
پھر آپ کوپر روڈ سے دائیں جانب رائل پارک کی طرف مڑیں تو اندر کے راستے سے ہوتے ہوئے لکشمی چوک کی طرف کیپیٹل سینما کے پہلو میں نکلیں گے جس کے سامنے نشاط سینما اور بغل میں اوڈین سینما تھا جو آج بھی موجود ہے۔1924 میں لاہور میں فلمیں بننا شروع ہوگئی تھیں، پہلی خاموش فلم1927میں ریلیز ہوئی، نام Daughrers of Todayتھا اور اداکار ایم اسماعیل اور اے آر کاردار تھے۔ اوڈین اور پاکستان ٹاکیز جیسے سینما اپنے اندر لاہور کی ایک پوری فلمی تاریخ لیے ہوئے ہیں، کسی اور ملک میں ہوتے تو اب تک انہیں فلم میوزیم میں تبدیل کرکے تاریخی ورثہ بنا دیا جاتا مگر کوئی دن جاتا ہے کہ ان گنے چنے سینما گھروں کو بھی مسمار کرکے یہاں ٹائروں کا شو روم کھول دیا جائے گا۔
جب پاکستان بنا تو کچھ مسلمان فنکار لاہور آگئے جن میں نورجہاں، شوکت رضوی، سورن لتا اور نذیر وغیرہ شامل تھے، ماسٹر غلام حیدر جو لاہور سے بمبئی گئے تھے، واپس لاہور آگئے، اس زمانے میں فلم انڈسٹری کا مرکز بمبئی بن چکا تھا، لاہور میں کچھ فلمیں بنتی تھیں جیسے بٹوارے کے وقت چھ فلمیں بن رہی تھیں، جن میں سے ایک آدھ بنی باقی کے پرنٹ ہندو پروڈیوسر ساتھ لے گئے جنہیں بعد میں بھارت میں مکمل کرکے ریلیز کیا گیا۔ لاہور میں پنچولی اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا جسے 47ءکے دنگوں میں آگ لگا دی گئی تھی، شوکت رضوی اور نورجہاں کو وہ پنچولی اسٹوڈیو الاٹ کر دیا گیا جنہوں نے اس کی مرمت کروائی اور پھر اس کا نام تبدیل کرکے شاہ نور اسٹوڈیو رکھ دیا۔ بابا چشتی اور رشید عطرے بھی پاکستان بننے کے ساتھ ہی آگئے تھے، ان دونوں نے اجڑے پجڑے حالات میں پاکستانی میوزک کی بنیاد رکھی، اس وقت سازندے تھے اور نہ کوئی ڈھنگ کا اسٹوڈیو۔ 1951میں نورجہاں کی فلم چن وے ریلیز ہوئی، فلم ہٹ ہوئی اور ساتھ ہی اس کا میوزک بھی جو فیروز نظامی نے دیا تھا، اسی فلم کا گانا ہے’’تیرے مکھڑے دا کالا کالا تل وے‘‘۔
پھر خواجہ خورشید انور میدان میں آئے اور لاہور کی فلمی دنیا میں جیسے رونق لگ گئی، 50کی دہائی خورشید انور، فیروز نظامی، بابا چشتی اور رشید عطرے کے نام رہی، بعد میں ان میں ایک نام رحمان ورما کا بھی شامل ہوا مگر اس کا دور بہت مختصر تھا۔ 1957میں مسرت نذیر کی سپرہٹ فلم یکے والی ریلیز ہوئی جو منٹو کی ایک کہانی ’’لائسنس‘‘ سے ماخوذ تھی اور ایک سال بعد جٹی فلم ریلیز ہوئی، مسرت نذیر اور سدھیر کی جوڑی اس فلم سے کامیاب ہوئی، جٹی کے نام پر جٹ برادری نے اعتراض کر دیا جس کے بعد اس کا نام تبدیل کرکے’’چٹی‘‘ رکھ دیا گیا مگر سینما گھروں میں یہ نام ایسے لکھا جاتا کہ لوگوں کو جٹی ہی نظر آتا۔
60کی دہائی میں اکمل اور فردوس فلمی دنیا پر چھا گئے اور اس کے ساتھ ہی پنجابی فلموں کا ایسا ریلا آیا جس نے لاہور کا فلمی منظر بدل کر رکھ دیا، وزیر افضل کی موسیقی نے دھوم مچا دی، پنجابی گانوں کی مانگ میں بےحد اضافہ ہوگیا، پنجابی کی کوئی ایسی لوک دھن نہیں بچی جس پر فلمی گانا نہ بنایا گیا ہو۔
لاہور میں نئے اسٹوڈیو بنے جن میں رش ہوگیا، شباب کیرانوی میدان میں آگئے جنہوں نے شباب اسٹوڈیو کے نام سے اپنا اسٹوڈیو بنالیا، ایک نام جو اس زمانے میں ہر پنجابی فلم کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا حزیں قادری کا تھا، یہ شخص لکھاری اور شاعر تھا اور بلا کا ذہین اور محنتی، یہ چھ چھ شفٹوں میں کام کرتا، ہاتھ سے کچھ نہیں لکھتا تھا بس اپنے اسسٹنٹ کو ڈکٹیٹ کرواتا تھا، یہ جب سیٹ پر آتا تو اپنے اسسٹنٹ سے پوچھتا کہ کل ہم کہاں تھے، اسسٹنٹ یاد دلاتا اور پھر حزیں قادری جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالتا، سگریٹ سلگاتا اور شروع ہو جاتا، وہ بولتا جاتا اور اسسٹنٹ مکالمے اور گانے لکھتا جاتا۔ اس دور کا کلائمکس1970 میں فلم ہیر رانجھا تھی، گانے احمد راہی اور میوزک خورشید انور کا، سب ہٹ ہوگئے اور مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ اب پنجابی فلموں کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا۔ انہی دنوں ایک عام سی شکل و صورت کے لڑکے کو، جو پنجابی فلموں میں ایکسٹرا کردار ادا کرتا تھا، فلم’’بشیرا‘‘ میں مرکزی کردار مل گیا، یہ فلم 1972میں ریلیز ہوئی اور سپرہٹ ثابت ہوئی، لڑکے کا نام سلطان راہی تھا۔
1972سے لے کر 1996تک اس فردِ واحد کی حکومت فلمی دنیا پر قائم رہی، شاید ہی ایسی کوئی دوسری مثال دنیا میں ہو، جنوری 1996میں جب سلطان راہی کا قتل ہوا تو اس کی54فلمیں زیر تکمیل تھیں جن میں سے دو یا تین ریلیز ہو سکیں باقی کا سرمایہ ڈوب گیا اور ساتھ ہی پاکستانی فلم انڈسٹری بھی جو اس کے بعد سے اب تک اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکی۔ جب تک مشرقی پاکستان ساتھ تھا تب تک یہاں بنگالی میوزک کی جھلک مل جاتی تھی مثلا ندیم اور محمدعلی وغیرہ کے دور میں روبن گھوش کی موسیقی میں نرماہٹ بنگالی میوزک کی وجہ سے تھی مگر جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا تو موسیقی کا رہا سہا تنوع بھی جاتا رہا۔ اس کے برعکس بالی ووڈ کی موسیقی میں نہ صرف پنجاب بلکہ بنگال، جنوبی ہندوستان، کشمیر، راجستھان، مہاراشٹرا سب رنگ شامل رہے جس کی وجہ سے ان کی موسیقی میں زیادہ جدت پیدا ہوئی۔
اس کے علاوہ بھارتی فلمیں ہمیشہ سے مہنگی بنتی رہی ہیں، میوزک ڈائریکٹرز بھاری سازوں سے لیس ہو کر موسیقی ترتیب دیتے جبکہ اپنے یہاں کے میوزک ڈائریکٹر کو یہ عیاشی کبھی میسر نہیں رہی، خورشید انور بہت کم ساز استعمال کرتے تھے۔ پاکستانی میوزک کا زوال 90کی دہائی میں شروع ہوگیا تھا، مرد گائیکی عملاً ختم ہوگئی، تمام فلمی گانے ایک اکھڑ پنجابی نوجوان کے گرد ناچتی ہوئی لڑکی پر فلمائے جاتے، نوجوان نے ہاتھ میں گنڈاسا پکڑا ہوتا اور وہ گانے کے دوران سخت غصے کا پوز بنائے رکھتا جبکہ ہیروئن کا مقصد گانے کے ذریعے اسے منانا یا اپنی جوانی کی بہار دکھانا مقصود ہوتا، موضوع، ملائمت، تغزل ختم ہوگیا، فقط ایک فربہ اندام ہیروئن کا ڈانس رہ گیا، رومانوی ہیرو ختم ہوگیا جس کے ساتھ ہی پاکستانی موسیقی کا جنازہ بھی اٹھ گیا۔