وہ انتہائی گھٹیا اور کمینہ شخص تھا۔ وہ صرف کمینہ تھا ہی نہیں بلکہ لگتا بھی تھا۔ وہ جب میری کسی بے تکی سی بات پر خوشامدانہ ہنسی ہنستا تو مجھے احساس ہوتا کہ جس بات کو میں صرف بے تکی سمجھا تھا، وہ بہت احمقانہ بھی تھی۔ وہ دانت سکوڑ کر بات کرتا، اس دوران اس کا چہرہ کھنچ جاتا۔ اس کے سر پر جتنے بال تھے وہ گنے جا سکتے تھے۔ اس کی ناک سامنے سے قدرے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی، اس کے نتھنے چوڑے تھے، رنگ گندمی، آنکھیں ’’کول ڈوڈوں‘‘ جیسی تھیں۔ یعنی بالکل کول ڈوڈوں جیسی۔ چہرہ قدرے لمبا اور تھوڑی سی توند نکلی ہوئی۔ وہ بہت امیر آدمی تھا۔ کروڑوں کی جائیداد تھی لیکن اللہ نے اس پر ہر آسائش اور رزق حلال، حرام کیا ہوا تھا۔ وہ نہایت سستے کپڑے پہنتا، اگر کبھی تھری پیس سوٹ میں بھی ملبوس ہوتا تو لگتا تھا وہ ابھی ابھی گھڑے سے نکال کر لایا ہے۔ اس پر ’’وٹ‘‘ پڑے ہوتے اور پتلون کی کتنی ہی کریزیں نظر آتیں۔ اس کا کوئی ایک روپ نہیں تھا۔ وہ دن میں موقع محل کے مطابق کتنے ہی روپ بدلتا، اگر اُسے مجھ سے کوئی کام ہوتا تو اس کی خوشامدانہ ہنسی رکے نہ رکتی اور اگر کوئی کام نہ ہوتا تو اُس کا چہرہ مزید کھنچ کر پہلے سے زیادہ منحوس ہو جاتا۔
اُس کا کوئی نظریہ، کوئی عقیدہ نہ تھا مگر بوقتِ ضرورت وہ ہر نظریہ اور ہر عقیدہ اوڑھ لیتا تھا۔ اُس کا کوئی ایک کاروبار یا دھندا نہ تھا بلکہ وہ ہر دو نمبر کام کرتا تھا اور اُس سے اُس نے کروڑوں کی جائیداد بنائی تھی۔ لالہ موسیٰ میں اُس کی جعلی کاسمیٹکس کی فیکٹری تھی۔ شیخوپورہ روڈ پر اُس نے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی بھی بنائی ہوئی تھی، جہاں جعلی ادویات تیار ہوتی تھیں۔ قبضہ گروپ سے بھی اس کے رابطے تھے۔ اِس کے علاوہ اُس نے تین مالدار بیواؤں سے یکے بعد دیگرے شادی بھی کی تھی اور وہ اُن کی یکے بعد دیگرے موت کو محض اتفاق قرار دیتا تھا۔ ایک دن اُسے مجھ سے کوئی کام تھا، سو اُس روز اُس کی خوشامدانہ ہنسی دیدنی تھی۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا ’’چوہدری! ایک بات تو بتاؤ؟‘‘ وہ دانت نکال کر اور اپنے گول گول دیدے گھماتے ہوئے بولا ’’سرکار! پوچھیں‘‘ میں نے کہا ’’تم دو نمبر کام کرتے ہو، کبھی ضمیر پر بوجھ محسوس نہیں ہوا؟‘‘ یہ سن کر اس نے اپنا منہ اتنا زیادہ کھول کر قہقہہ لگایا کہ اس کے حلق کا ’’کو ّا‘‘ دکھائی دینے لگا۔
اس کا جواب یہ قہقہہ ہی تھا۔ میں نے پوچھا ’’اور یہ جو تم کروڑوں کے مالک ہونے کے باوجود ویگنوں اور بسوں میں دھکے کھاتے ہو، کوئی ملنے والا تمہیں تمہارے اسٹیٹس کے مطابق نہیں ملتا؟ ہر ایک تم سے توتکار ہی کرتا ہے، تو یہ دو نمبر دھندوں سے کمائی ہوئی دولت کس کام کی؟‘‘ اِس دفعہ وہ کچھ سنجیدہ ہو گیا اور کہا ’’سرکار! آپ نے کبھی ایک کروڑ روپیہ اکٹھا دیکھا ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا ’’ابھی تک تو نہیں!‘‘ بولا ’’پھر آپ کو کیا پتہ دولت کیا چیز ہوتی ہے اور اُس میں اضافہ اور اسے سنبھالا کیسے جا سکتا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’چلو مان لیتا ہوں کہ مجھے اس ’’سائنس‘‘ کا کوئی علم نہیں، مگر یہ بتاؤ چوہدری کہ کیا تم موت پر یقین رکھتے ہو؟‘‘ بولا ’’اس سے انکار کون کر سکتا ہے، یہ تو ایک حقیقت ہے‘‘۔ میں نے پوچھا ’’کیا تمہارا آخرت پر بھی یقین ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’میں ایک لبرل قسم کا شخص ہوں۔
سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر مرنے کے بعد اگر حساب کتاب ہونا ہے تو ہو جائے‘‘۔ میں نے کہا ’’تو پھر یاد رکھو فرشتوں نے تمہاری خاطر مدارت کے لئے ابھی سے دس نمبر لتر تیل میں بھگو کر رکھا ہوا ہے‘‘ اُس پر چوہدری بھی ہنسا اور بولا ’’آپ فکر نہ کریں میں نے بھی حفاظتی بندوبست کر رکھے ہیں‘‘۔ وہ اٹھ کر جانے ہی کو تھا کہ مجھے یاد آگیا کہ اس نے اتنی دولت کے باوجود اپنی حالت یتیموں جیسی بنا رکھنے کے سوال کا جواب نہیں دیا۔ میں نے دوبارہ پوچھا تو بولا ’’سرکار! میں اپنے گھر میں اور دوسرے شہر یا ملک میں جا کر ٹھاٹ باٹ سے رہتا ہوں۔ یہاں آ کر ٹھاٹ باٹ سے رہوں تو لوگ یا ادھار مانگنے لگتے ہیں اور یا پھر یرغمال بنا کر کروڑوں روپے تاوان طلب کرتے ہیں اور سرکار حق حلال کی کمائی اس طرح تو نہیں کمائی جاتی‘‘۔یہ چوہدری سے میری آخری ملاقات تھی۔
چند دنوں کے بعد مجھے پتہ چلا کہ وہ ہارٹ اٹیک سے فوت ہو گیا ہے۔ ایک دن سر راہے اس کے بیٹے سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے رسمی طور پر تعزیت کی تو اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’والد صاحب بہت خوش قسمت تھے کہ ان کی وفات رمضان کے مہینے میں ستائیسویں شب کو ہوئی۔ یہ نعمت صرف اللہ کے نیک بندوں ہی کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کے لئے ابھی تک ایک لاکھ مرتبہ قرآن مجید پڑھا جا چکا ہے، نیز چار حفاظ ان کی قبر پر چھ چھ گھنٹے تلاوت کرتے ہیں اور یوں چوبیس گھنٹے یہ سلسلہ جاری رہتا ہے‘‘۔ میں نے کہا ’’سبحان اللہ پھر تو آپ کے والد صاحب سیدھا جنت میں جائیں گے، دوز خ کے فرشتے تو دانت ہی کچکچاتے رہ جائیں گے!‘‘ بولا ’’اس میں کیا شک ہے!‘‘مجھے بھی اس میں کوئی شک نہیں اگر آپ میں سے کسی کو شک ہے تو وہ ہاتھ کھڑا کرے!