گورننس کے، کی ماڈلز

یوں تو ماڈلز کی کئی قِسمیں ہیں مگر فی زمانہ سب سے زیادہ مصروف اور معروف دو طرح کے ماڈلز ہیں۔ رول ماڈلز تو بے چارے کب کے پیچھے رہ گئے۔ کچھ ہوئے قصۂ پارینہ بھی۔ لہٰذا صرف دو طرح کے کمائو ماڈلز بچتے ہیں۔ یہ دونوں لیڈیز اینڈ جینٹس ماڈل فگر، میک اَپ، فیس لِفٹ، توند چُھپانے والی جادو اثر بیلٹس‘ آل سیٹ، سائونڈ، لائٹ، کیمرہ رول اور ایکشن کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریمپ والے خاموش رہتے ہیں اور مشورے والے خاموش کرا دیتے ہیں۔ بات چلی تھی گورننس کے ماڈلز سے یا گورننس کی ماڈلز سے۔

ایسے میں پتا نہیں کیوں عالمی سیاست میں اداکاروں کے اثر و رسوخ والی تہلکہ خیز انگلش ڈاکومنٹری یاد آ رہی ہے۔ پاکستان میں حکمرانی کے ماڈلز پر جتنا بھی لکھا اور بولا جاتا ہے دراصل اس کے دو ہی ٹارگٹ کے ساتھ ساتھ پنچنگ بیگ ہیں۔ پہلا اسٹیبلشمنٹ اور دوسرے نمبر پر ‘سٹیٹس کو‘ کی مخالف قوتیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس لیے کہ اس کی طرف اشارہ کر کے 4 ٹنگی پٹاخہ بھی چلایا جائے تو بھارت سے امریکہ تک اسے دھماکہ بنا دینے والوں کی غیر مشروط سرپرستی فوراً مِل جاتی ہے۔ رہا سٹیٹس کو تو PRE PANAMA فیصلے کا سیناریو اور عمران خان کے اقتدار میں آنے کے 8 ماہ بعد اس کے سارے ہنر، تمام ترکیبیں ہم سب کے سامنے کھل چُکی ہیں۔

پی ٹی آئی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں پر ردِ عمل اس ”ٹگ آف وار‘‘ کا تازہ منظرنامہ ہے۔ اپوزیشن کے بینر تلے شخصی وارداتوں کا دفاع کرنے والے عجیب مخمصے کا شکار ہیں‘ جیسا کہ وزیرِ خزانہ کے استعفے والے مطالبے سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایک طرف کے پارٹی ہیڈ نے کئی مہینے سے وزیرِ خزانہ کے استعفے کا مطالبہ شروع کر رکھا تھا جس کے لیے موصوف نے اکثر ناروا جملے بھی کَسے۔ لیکن جو نہی وزیرِ خزانہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا‘ اگلے دن ان کا بیانیہ لُڑھک کر اُلٹ ہو گیا۔پچھلے بریف کو بھول کر کہنے لگے: بجٹ سر پر آ گیا ہے ایسے میں وزیرِ خزانہ کے استعفے والا فیصلہ 100 فیصد غلط ہے۔ دوسری جانب کے لیڈر نے کہا: ہم خلوصِ دل سے ”میثاقِ معیشت‘‘ کرنا چاہتے ہیں‘ عمران خان نے ہمارے خلوص کا فیوز اُڑا دیا۔

وزیرِ اعظم احتساب کی بات چھوڑ کر میثاق کی طرف آ جائیں۔ ہم سب جانتے ہی ہیں کہ میثاق جیسے اُردوئے معلی کے لفظ کا آسان ترجمہ معاہدہ ہے‘ اور معاہدے یا ایگریمنٹ کو اُردوئے محلہ میں ڈیل کہتے ہیں‘ جسے لغاتِ مشرّفیہ نے این آر او جیسی اصطلاح سے باریاب ہونے کا شرف بخشا تھا۔ اب شہباز شریف اینڈ سنز جس میثاق کی طرف عمران خان کی توجہ چاہ رہے ہیں‘ آپ اس کا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔ ان دونوں جماعتوں کا ایک مخمصہ اور بھی ہے۔ وہ ہے قبلہ بڑے مولانا صاحب کا تجویز کردہ اسلام آباد لاک ڈائون والا نسخہ۔ علیحدہ، علیحدہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں دو اعلانات بارہا کھل کر، کر چکی ہیں۔ پہلا، لات مار کر حکومت گرانے والا، عمران خان کو حکمرانی کے لیے مزید وقت نہ دینے والا۔ دوسرا‘ حکومت ہٹائو ٹرین مارچ والا اور عمران خان کی رُخصتی کی نِت نئی تاریخوں کے اعلان والا۔

اس مہم کے بطن سے ماضی کی دو سرسبز یادیں سر اُٹھا رہی ہیں‘ جنہیں کوشش کے باوجود روکا نہیں جا سکتا۔ پہلی یاد کا تعلق 2008ء تا 2012ء کے عرصے سے ہے‘ جس دوران صدر ہائوس میں کالے رنگ کی ایمبولینس بھجوا کر اس میں اپنی مرضی کی میت ڈلوانے کی روزانہ کی بنیاد پر ہلکی پھلکی فرمائش بھی شامل تھی۔ ساتھ ہی تازہ ”کُودِی تانت‘‘ کے آخری مرحلے کا آنکھوں دیکھا حال بھی۔ 2009ء آیا تو گورننس کے کئی بڑے ماڈل بھی اس راہِ حق کے مسافر بن گئے۔ 2010ء اور 2011ء کے سال یہ انقلاب دن میں 3 دفعہ آتے‘ مگر سہ پہر 3 بجے سے لے کر رات 12 بجے تک ناخوشگوار سی جھاگ کی طرح فیک نیوز کی بدبو چھوڑ کر بیٹھ جاتے۔ اسی دوران گلا خُشک کرنے والی مہم کے 3 بڑے قافلہ سالاروں میں سے ایک نے مجھے ملنے کے لیے کہا۔ یہ 2010ء کی بات ہے۔

چنانچہ میں نے موصوف کو مارگلہ گرینز گالف کلب آ جانے کی دعوت دی۔ وہ تشریف لائے اور آتے ہی سانپ، بچھو، ایناکونڈا، مگرمچھ، بھیڑیے اور لگڑبگڑ ((Hyena کی کہانی چھیڑ دی۔ میرے کان کے نزدیک ہوکر انتہائی رازدارانہ لہجے میں کہنے لگے: تازہ خبر یہ ہے کہ وزیروں نے منسٹرز کالونی میں سامان کے ٹرنک بھر کر بوریا بستر باندھ لیا ہے۔ آج کا دن فیصلہ کُن ہے۔ آپ یہاں کیا کرنے آ گئے ہیں۔ میں نے ان کی بات پر سیریس ہونے کی بجائے لا پروائی سے جواب دیا: میں کل بھی یہیں آئوں گا اور آتا رہوں گا۔ موصوف اپنا چُورن نہ بکنے پر سٹپٹا دیے۔

اسی شب ساڑھے تین بجے کے قریب ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ڈائل پر لندن کا نمبر نظر آرہا تھا۔ دوسری جانب سے ایک خود ساختہ جلاوطن شخصیت کی معروف آواز آئی۔ مجھ پر پہلا انکشاف یہ کیا کہ میں سب سے زیادہ فہیم، زِیرک اور دردِ دل رکھنے والا خدائی خدمت گار ہوں جبکہ موصوف خود کوئی خلائی خدمت گار اور ماورائے زمین اوتاری صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ مجھے شک پڑ گیا‘ یہ ایک فرمائشی کال ہے کیونکہ برسرِ اقتدار لوگوں کو صرف تین طرح کی کالیں آتی ہیں۔

فرمائشی، نمائشی اور آزمائشی۔ فون کی دوسری جانب سے آواز آئی کہ آج فیصلے کی رات ہے‘ آپ صدر صاحب سے کہیں کہ وہ سورج طلوع ہونے سے پہلے فوری طور پر استعفیٰ دے دیں‘ ورنہ کل جو کچھ ہو گا وہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس فرمائشی کال کی آزمائشی خبریں‘ جو سات سمندر پار سے چلوائی گئی تھیں‘ وہ آپ کو آج بھی آرکائیو اور سوشل میڈیا سے با آسانی مِل سکتی ہیں۔ میں نے کوئی جواب دیے بغیر فون بند کر دیا اور فرمائشی لائن کَٹ گئی۔ لائن تو شہباز شریف اینڈ سنز کی بھی کَٹ چُکی ہے۔ ذرا دو واقعاتی شہادتوں پر نظر ڈال لیں۔ پہلی شہادت اس بیان کی ہے جو شہباز شریف کے انتہائی قریبی وزیر نے دیا۔ وہی وزیر جو ویڈیو میں کہتا ہے: پیسے میں نے شہباز شریف کے لیے وصولیے۔ اسی نے آئوٹ آف بلو دو اڑھائی ہفتے میں پنجاب اور مرکز میں شہباز حکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔

امید ہے لاہور کا کوئی آزاد رپورٹر، اینکر اس سے تختے اُلٹنے کی نئی تاریخ ضرور پوچھے گا۔اور یہ بھی کہ اعلان کرنے والے کو اپنا اعلان کس طرح چاٹنا پڑا۔ شہد کی طرح یا تازہ زخم کی طرح۔ جو تفصیلات بندہ جانتا ہے کہاں چھپ سکتی ہیں‘ اس لیے ان میں جانا بے فائدہ ہے۔ ہاں البتہ عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کے دفتر میں ایک اور تبدیلی کی بنیاد رکھ دی۔ وزارت سفارش سے نہیں میرٹ سے چلے گی۔ تعلق سے نہیں دیانت سے۔ اب آئیے اپوزیشن کے مزید مخمصے کی جانب جو دوسری واقعاتی شہادت ہے۔ گزشتہ ہفتے جس دن وزیرِ اعظم نے اورکزئی میں عوامی جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ شام میں ان سے مِلا اور ان کے کہنے پہ اہم میٹنگ میں بھی شریک ہوا۔ اگلے روز تقریر میں وزیرِ اعظم کا ایک جملہ دونوں بڑے ناقدین کی شب بیداری کا سبب بن گیا۔ عمران خان نے کہا: یہ سمجھتے ہیں میں دو سال رہ گیا تو ان کا ٹھکانہ سلاخوں کے پیچھے ہے۔

اس پر اپوزیشن کی دوڑیں لگ گئیں۔ شہرِ اقتدار کی ایک سڑک پر بھی دوڑ لگی جس کے سرے پر میرا لا آفس واقع ہے۔ دوڑ کر ہانپنے والے سندھ کے ایک پرانے تعلق دار، ایک اسلام آبادی ڈیلر، ویلر سمیت میرے آفس آئے۔ پرائیویٹ گفتگو کا احترام نہ ہوتا تو آپ جان جاتے کہ لوگ نئے الیکشن کے تصور سے کس طرح تھَرتھَر کانپتے ہیں۔اپوزیشن کے مخمصوں کا ایک پورا جنجال پورہ ہے جس کی آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔ خواہشوں کو خبر اور سازشی تھیوری کو اندر کی بات کہنے والے احتساب سے بچانے کے سنیاسی باوا بنے ہوئے ہیں۔ عمران حکومت جانے کی تاریخوںکے سارے فال انہی کے حسنِ خیال کا سرچشمہ ہیں۔

آئیے ایک مفروضے پر بات کرتے ہیں۔ اگراپوزیشن پنجاب میں شہباز سنز اور مرکز میںکسی اَن سنگ ہیرو کی حکومت بنا ڈالے تو کیا کرنٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے اومنی والے اپنے پیسے واپس لا کر خزانے میں ڈال دیں گے۔ یا پھر آلِ شریف اپنی دولت ملک میں لا کر خزانہ بھر دے گی۔ عمران خان کے علاوہ کون ہے جو کئی کئی بار آزمایا ہوا نہیں۔ سیاست کے ریمپ پر جلوے بکھیرنا اور بات ہے۔ قومی مسائل کا سامنا کرنے ہمت کارِ دگر۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے