آج میرا دل باغ باغ ہے، خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، جسمانی اعضاء آمادئہ رقص ہیں، فضاء خوشبو سے معطر ہے، پھولوں میں رنگوں کی بہار آگئی ہے، پرندے زور زور سے چہچہارہے ہیں، سرخ گانی والے طوطے سریلی آواز میں نغمہ کناں ہیں، بلبلیں خوشی کے ترانے چھیڑ رہی ہیں، اقتدار کا پرندہ ہما اسلام آباد سے اڑتے اڑتے سیالکوٹ پہنچ چکا ہے۔ ملک کی سب سے محبوب، خوبصورت اور دھڑلے دار خاتون ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو جونہی مشیر اطلاعات بنانے کی خبر سنی، میں جھوم جھوم اٹھا۔ دل چاہا کہ زور زور سے ڈھول بجائوں اور پتاسے بانٹ کر لوگوں کا منہ میٹھا کرائوں۔ اِن دنوں صحافت جن بلائوں اور ظالم ہوائوں میں گھر چکی ہے، اُسے فردوس عاشق اعوان جیسی دبنگ شخصیت ہی دوبارہ سے چار چاند لگا سکتی ہے۔
سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری ہیروئن ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، اپنے حاسدین کو یوں پچھاڑ کر تختِ اقتدار پر دوبارہ براجمان ہو جائیں گی۔ یہ خیال بھی محال تھا کہ سیالکوٹی ڈاروں اور سیاسی دشمنوں کو رسوا کرتے ہوئے وہ الیکشن ہارنے کے باوجود سب سے اہم وزارت لے اڑیں گی، اُن کی رقیب کشمالہ طارق کے احاطہ سوچ میں بھی نہیں ہو گا کہ اُن کو سرعام رسوا کرنے والی ڈاکٹر فردوس عاشق، اندر ہی اندر سے سرنگ لگا کر حکومت پاکستان کی مشیرِ اطلاعات بن جائیں گی، مگر یہ ہو چکا ہے، وزیراعظم عمران خان کی ’’مردم شناسی‘‘ کی داد دینا چاہئے کہ اُنہوں نے لاکھ پردوں میں چھپے ہیرے کو تلاش کر کے انتہائی میرٹ پر اِسے مشیرِ اطلاعات کے عہدے پر فائز کر دیا ہے۔ زمانہ تو پہلے ہی اسد عمر اور عثمان بزدار جیسے نادر موتیوں کو سامنے لانے پر اُنہیں ’’مردم شناسی‘‘ کا اعلیٰ ترین اعزاز دے چکا لیکن یہ ناچیز صحافی اُن کی مردم شناسی کا ڈاکٹر فردوس عاشق کے انتخاب پر قائل ہوا ہے، اِس حوالے سے صحافی وزیراعظم کا ذاتی طور پر شکر گزار ہے۔
بدخواہ جو بھی کہیں، سچ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو اپنی دیوتا سمان ماں کی دعائیں اور اشیرباد حاصل ہے۔ جوانی میں ہی جیالے خاوند عاشق اعوان کے وفات پانے کے بعد اُنہوں نے فردوس کو بیٹوں کی طرح پالا، ڈاکٹر بنایا، سیاست میں قدم رکھوایا، ڈاکٹر فردوس عاشق نے مردانہ وار حریفوں کا مقابلہ کیا۔ طالبعلمی میں پی ایس ایف میں رہیں، مخصوص نشستوں پر (ق)لیگ کے دور میں پارلیمانی سیکرٹری بنیں، پھر (ق)لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں گئیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی چوہدری امیر حسین کو الیکشن میں پچھاڑا اور پھر للکارتے ہوئے گیلانی کابینہ میں شامل ہو گئیں۔ زرداری گیلانی حکومت ختم ہوئی تو وہ تحریک انصاف میں پدھاریں، گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے سے وہ تجربے کی آخری حدوں کو چھو رہی ہیں، اِس لئے اُن کے تجربے سے فائدہ نہ اٹھانا، ملک و قوم کا بہت بڑا نقصان ہوتا۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے اوصافِ حمیدہ سے کون واقف نہیں، وہ دن رات علاقے کے لوگوں کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے اپنی شادی شدہ زندگی کو تج کے اپنا سارا وقت عوام کو دے دیا ہے، وہ ہفتہ بھر چاہے لاہور میں ہوں یا اسلام آباد میں مصروف رہیں، ویک اینڈ پر لازماً آبائی حلقے میں پہنچ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے بدخواہوں نے اُنہیں کئی مقدمات میں پھنسانے کی کوشش کی، الزام لگا دیا کہ اُنہوں نے دو سرکاری بسیں اینٹھ لی ہیں مگر وہ ڈاکٹر صاحبہ کی صلاحیتوں سے واقف نہیں تھے، احتسابی اداروں کو بالآخر انہیں کلین چٹ دینا ہی پڑی کیونکہ اُن کے خلاف مقدمات ریشم کی گانٹھیں ثابت ہوئے، جو منہ سے نہیں بلکہ ایک جھٹکے سے ہی کھل گئیں۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر صاحبہ سے سیکھے کہ احتساب کا سامنا کیسے کیا جاتا ہے۔
مادیت تو آج کل پاکستان میں ویسے ہی زوال کا شکار ہے، یہاں روحانیت کا دور دورہ ہے، وزراء کی تقرری ہو یا وزارتوں کی تبدیلی، سب میں روحانیت صاف نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق کی روحانی سائیڈ بہت مضبوط ہے، اُنہیں ماں کی دعائوں کے ساتھ ساتھ کئی پیروں اور پیرنی کی اشیرباد بھی حاصل ہے۔ اُن کی قلندرانہ طبیعت اور روحانی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے امید ہے کہ میڈیا میں بھی روحانی معجزے ہوں گے، بند تنخواہیں کھلیں گی، اشتہاری مہم کا دور پھر سے شروع ہو گا، ہر طرف لہریں اور بحریں ہوں گی۔
یہ تبدیلی ویسے بھی بہت ضروری تھی، فواد جہلمی کتابی باتیں کرتا تھا۔ میڈیا کو بدلنے کے مشورے دیتا تھا۔ پی ٹی وی کو نیا ایم ڈی دینا چاہتا تھا، اُس کی اپروچ سراسر مادی، عقلی اور سائنسی تھی، روحانیت کا ذرا بھی دخل نہیں تھا۔ اِسی لئے اُس کے کاموں میں برکت نہیں تھی، روحانی طاقتوں نے اُسے دھکیل کر سائنس اور ٹیکنالوجی کی غیر روحانی اور سراسر مادی وزارت میں بھیج دیا ہے۔ دوسری طرف ڈاکٹر فردوس عاشق سراسر عملی اپروچ کی حامل ہیں، وہ کوئی تبدیلی بھی نہیں کریں گی بلکہ صرف چھومنتر ہی سے وزارتِ اطلاعات اور صحافت دونوں کی حالت بدل دیں گی۔
آج کا کالم لکھتے ہوئے میں وطن عزیز سے ہزاروں میل دور افریقی ملک نائیجریا کے دارالخلافہ نیامے میں موجود ہوں۔ پاکستان اور نائیجریا کے درمیان سینکڑوں میل پر پھیلا دنیا کا سب سے بڑا صحرا ’’صحارا‘‘، درجنوں دریا، کئی پہاڑی سلسلے اور بے شمار چھوٹے بڑے ملک حائل ہیں۔ اِس قدر دوری کے باوجود مجھے یہاں پر روحانی لہریں یہ پیغام پہنچا رہی ہیں کہ ڈاکٹر فردوس عاشق کو وزارتِ اطلاعات دینا ’’سعد‘‘ ہے، کابینہ میں تبدیلیوں کے حوالے سے یہ تاثر صاف نظر آرہا ہے کہ روحانی طور پر جو لوگ ’’نحس‘‘ تھے، صرف اُن کی چھٹی کروائی گئی ہے۔
جادو چونکہ برحق ہے، اِس لئے پاکستان ہو یا افریقی ملک نائیجریا، ہر جگہ چلتا ہے۔ افریقہ میں اِس کا پاکستان سے بھی زیادہ رواج ہے، کل سے میں بدنظری کے جادو کا شکار ہو کر ہوٹل کے کمرے میں بند ہوں۔ میرا خیال تھا کہ مجھے بخار ہے اور اُس کی وجہ گلے کی خرابی اور موسم کی تبدیلی ہے، مگر یہاں افریقین پیرنی نے مجھے بتایا کہ مجھ پر جادو ہو چکا ہے اور مجھے کالی دال جسم پر لگا کر بیٹھنا پڑے گا(مجھے اس موقع پر ایک کتاب بہت یاد آئی مگر میں چپ رہا) اُس پیرنی نے مجھے کہا کہ آپ جس مشیرِ اطلاعات کی تعریف میں صفحات سیاہ کر رہے ہیں، خوشامد تک پر اتر آئے ہیں، اُن کے بدخواہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ خوفزدہ ہیں کہ اگر پاکستان کی نئی مشیر کامیاب ہو گئیں تو پاکستان امریکہ اور دوسرے ممالک کو زیر کر لے گا، میڈیا ہی وہ شعبہ ہے جس کے ذریعے سے ففتھ جنریشن وار لڑی جانی ہے، اِسی لئے ڈاکٹر فردوس عاشق جیسی بہادر شیرنی کو یہ اہم ترین ذمہ داری دی گئی ہے، شیرنی کو دیکھ کر بکریاں تو ویسے ہی بھاگ جائیں گی، چند بھیڑے رہ جائیں گے جن سے شیرنی کو اچھی طرح نمٹنا آتا ہے۔
آخر میں مشیر صاحبہ سے درخواست ہے کہ اپنے اِس مداح کو جادو کے اثر سے بچانے کا انتظام کریں، میں یہاں افریقہ میں بےبس اور لاچار پڑا ہوں، رحم کھاتے ہوئے اپنی روحانی لہریں یہاں روانہ کریں تاکہ میں محفوظ و مامون وطن واپس آسکوں اور آکر نئی مشیرِ اطلاعات کی شان میں مزید قصیدے لکھ سکوں۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میرے قصیدے ملک و قوم کی حالت بدل دیں گے۔