اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایک بار پھر اصغر خان کیس بند کرنے کی استدعا کردی۔
سپریم کورٹ میں اصغر خان عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کی جانب سے اصغر خان کیس سے متعلق جواب میں جمع کرایا گیا جس میں کیس کو ایک بار پھر بند کرنے کی استدعا کی گئی۔
ایف آئی اے نے اپنے جواب میں مؤقف اپنایا ہےکہ بے نامی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات سمیت دیگر اہم گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے، کیس میں مرکزی گواہ حامد سعید اور ایڈووکیٹ یوسف میمن سے پوچھ گچھ کی گئی،کیس کے آگے بڑھانے اورمزید ٹرائل کیلیے خاطر خواہ ثبوت نہیں مل سکے۔
ایف آئی اے نے جواب میں استدعا کی کہ ناکافی ثبوت کی بنیاد پر کیس کسی بھی عدالت میں کیسے چلایا جائے؟ لہٰذا مناسب ثبوت نہ ملنے کے باعث کیس کو کسی بھی عدالت میں چلانا ممکن نہیں۔
وزارتِ دفاع کی رپورٹ
دوسری جانب اسی کیس میں وزرات دفاع نے بھی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ وزرات دفاع کی جانب سے کورٹ آف انکوائری بنائی گئی جس نے 6 گواہوں کا بیان ریکارڈ کیا، کورٹ آف انکوائری نے تمام شواہد کا جائزہ لیا ہے جب کہ مزید گواہوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاری ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے تمام کاوشیں کی جارہی ہیں۔
واضح رہے کہ مذکورہ کیس کی 29 دسمبر 2018 کو ہونے والی سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ سے اصغر خان کیس کی فائل بند کرنے کی سفارش کی تھی تاہم مرحوم اصغر خان کے لواحقین نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے درخواست کی کہ یہ کیس بند نہیں ہونا چاہیے جس بناء پر عدالت نے اس کیس کو بند کرنے کی ایف آئی اے کی سفارش مسترد کی تھی۔
اصغر خان کیس کا پس منظر
1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔
خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔
پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔
اس معاملے پر ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔
اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔
سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔
مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔