یہ بہت ہی پرانی کہانی ہے‘ اتنی پرانی کہ ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو گا جس نے یہ نہ سنی ہو لیکن یہ کیونکہ پاکستان کے سیاسی حالات کے ادراک کے لیے ضروری ہے چنانچہ میںآپ کو یہ ایک بار پھر سنا رہا ہوں۔
کسی ملک میں بادشاہ مر جاتا تھا تو لوگ شہر میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص کو بادشاہ بنا دیا کرتے تھے‘ بادشاہ مر گیا‘ لوگ رات کے وقت شہر کے دروازے پر کھڑے ہو گئے‘ صبح گیٹ کھلا اور ایک چادر والا غریب کسان شہر میں داخل ہو گیا‘ لوگوں نے اسے تخت پر بٹھا دیا‘ وہ بھوک‘ بے عزتی اور گمنامی کا مارا ہوا تھا‘ حلو ہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی چنانچہ جب بھی اس کے سامنے کوئی مسئلہ رکھا جاتا تھا تو وہ ایک ہی حکم جاری کرتا تھا ’’حلوہ پکاؤ‘‘ بادشاہ کے حکم پر حلوہ بھی پکتا رہا اور وہ صحت مند بھی ہوتا رہا‘ یہ خبر دشمن ملک تک پہنچ گئی۔
دشمن نے حملے کا فیصلہ کر لیا‘ بادشاہ کو بتایا گیا تو اس نے یہ سن کر بھی ’’حلوہ پکاؤ‘‘ کا حکم دے دیا‘ دشمن کی فوجیں چل نکلیں‘ حلوہ پکتا رہا‘ دشمن ملک کے اندر داخل ہو گیا‘ حلوہ پکتا رہا‘ دشمن مارتا دھاڑتا ہوا محل تک پہنچ گیا لیکن حلوہ پکتا اور حلوہ بٹتا رہا یہاں تک کہ سپاہی محل کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوگئے‘ شاہی خادم بادشاہ تک پہنچے اور شکست کی اطلاع دے دی‘ بادشاہ نے شاہی پگڑی اتاری‘ حلوے سے سنے ہاتھ پگڑی کے ساتھ صاف کیے‘ اپنی پرانی‘ میلی اور بدبودار چادر منگوائی‘ کندھے پر رکھی اور ملک کو اللہ کے حوالے کر کے محل سے رخصت ہو گیا‘ دنیا میں جس طرح ہر کہانی کا کوئی نہ کوئی اخلاقی نتیجہ ہوتا ہے بالکل اسی طرح اس کہانی کا بھی ایک اخلاقی نتیجہ ہے اور وہ نتیجہ ہے ’’اسٹیک‘‘ ۔کسان بادشاہ کو کیونکہ بادشاہت لاٹری میں ملی تھی اور اس کا اس ملک میں کوئی اسٹیک نہیں تھا چنانچہ وہ حلوہ کھا کر چپ چاپ نکل گیا۔
ہماری موجودہ حکومت کا بھی یہی ایشو ہے‘ اس کے 80 فیصد وزراء اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں‘ یہ لاٹری کے ذریعے حکومت تک پہنچے ہیں‘ یہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے نفرت کے کندھوں پر بیٹھ کر پارلیمنٹ تک آئے اور قرعہ اندازی میں وزیر بنا دیے گئے‘ عمران خان کیونکہ خودبھی سسٹم میں نہیں رہے‘ یہ سیاسی‘ قانونی اور انتظامی نظام کو نہیں جانتے لہٰذا یہ اچھی انگریزی‘ لچھے دار باتوں اور زمین و آسمان کے قلابے ملانے والوں سے متاثر ہو جاتے ہیں‘ آپ کسی دن وزیراعظم کے اردگرد موجود لوگوں کا پروفائل نکال کر دیکھ لیں‘یہ کون لوگ ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے وزیراعظم کے آفس تک پہنچ گئے‘ وزیراعظم ان سے متاثر ہوئے‘ یہ حکومتی مشیر بن گئے اور وزیراعظم نے پورا پورا محکمہ‘ پوری پوری وزارت اٹھا کر ان کی جھولی میں ڈال دی‘ یہ لوگ کیونکہ ناتجربہ کار ہیں‘ یہ کبھی سسٹم کا حصہ نہیں رہے چنانچہ یہ جس محکمے میں گئے۔
یہ اس کا جنازہ نکالتے چلے گئے اور اس کا یہ نتیجہ نکلا‘ ہم آج تیزی سے ڈھلوان پر پھسلتے چلے جا رہے ہیں‘ ہم میں اور کھائی میں زیادہ فاصلہ نہیں رہا‘ہمیں آج تین حقیقتیں ماننا ہوں گی‘ پہلی حقیقت‘حکومت نااہل‘ ناتجربہ کار اور متکبر لوگوں کے پاس ہے‘ یہ لوگ خود کو عقل کل بھی سمجھتے ہیں اور یہ حقائق کے بجائے تصورات پربھی چل رہے ہیں‘آپ ان کے تصورات دیکھیے‘ کراچی کے سمندر سے تیل نکل آئے گا‘ بیرون ملک موجود پاکستانی ڈالروں کی بارش کر دیں گے‘ ٹیکس سے آٹھ ہزار ارب روپے جمع ہو جائیں گے‘ سوئس بینکوں میں پاکستان کے دو سو ارب ڈالر پڑے ہیں‘ حکومت پاکستان کے لوٹے ہوئے ساٹھ ہزار ارب روپے واپس لے آئے گی‘ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف سے دس بلین ڈالر مل جائیں گے‘ دنیا بھر کے سیاح بہت جلد پاکستان کا رخ کر لیں گے اور پچاس لاکھ گھروں سے پوری معیشت کا پہیہ چل نکلے گا وغیرہ وغیرہ‘یہ کیا ہے؟ یہ وہ سرابی تصورات ہیں جن سے حکومت نو ماہ میں باہر نہیں آ سکی ‘ یہ لوگ آج بھی انھیں حقیقت سمجھ رہے ہیں۔
دوسری حقیقت‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت عملاً 18اپریل کو ختم ہو گئی‘ اسد عمر حکومت کے اسٹار پلیئر تھے‘یہ پوسٹر بوائے تھے‘ پوسٹر بوائے اور اسٹار پلیئر کے ناکام ہوتے ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت چپ چاپ پاکستان پیپلز پارٹی کی گود میں چلی گئی‘وہ اسٹیٹس کو واپس آ گیاجس کے خلاف عوام نے عمران خان کو ووٹ دیے تھے‘ وزیر خزانہ وزیراعظم کے بعد ملک کا طاقتور ترین عہدہ ہوتا ہے‘ یہ عہدہ ہمیشہ اعتباری شخص کو دیا جاتا ہے‘ اسد عمر عمران خان کا اعتماد تھے‘ یہ اعتماد ٹوٹ گیا تو بیٹ اس کھلاڑی کے ہاتھ میں چلا گیا جو پاکستان پیپلز پارٹی کا وزیر خزانہ تھا اور عمران خان کے بقول جس شخص نے ماضی میں ملک کی معیشت تباہ کر دی تھی اور جس نے ملک کے قرضے 6 ہزار ارب سے 14 ہزار ارب روپے تک پہنچا دیے تھے چنانچہ نئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ عمران خان کی ناکامی بلکہ شکست کا وہ اعلان ہیں جس کے ساتھ ہی تبدیلی کا خواب بھی ٹوٹ گیا اور تیسری حقیقت ‘ملک میں اس وقت عملاً ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہے۔
آپ تمام اہم وزارتیں اور عہدے دیکھ لیجیے‘ آپ کو ہر عہدے‘ ہر اہم وزارت میں ٹیکنو کریٹ نظر آئے گا‘ وزارت صحت ڈاکٹر ظفراللہ مرزا‘ پٹرولیم کی منسٹری ندیم بابر‘ خزانہ عبدالحفیظ شیخ‘ اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ صنعت وتجارت اورسرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد اورماحولیات ملک امین اسلم کے پاس ہے‘ یہ چند لوگ سامنے ہیں جب کہ حکومت کی زیادہ تر ڈوریاں ایسے نامعلوم ایکسپرٹس کے ہاتھ میں ہیں قوم جن کے نام تک سے واقف نہیں‘ یہ حکومت بہرحال تمام تر نااہلی کے باوجود ایماندار تھی‘ اس پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں تھا لیکن کابینہ کے چند سابق وزراء اور ایک گورنر کی وجہ سے یہ نیک نامی بھی اب ختم ہو چکی ہے‘ فائلیں کھل رہی ہیں‘ قوم بہت جلد کرپشن کی ہوش ربا باتیں بھی سنے گی اور سابق وزراء جواب میں ایسے ایسے انکشافات بھی کریں گے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔
یہ تینوں حقیقتیں خوف ناک بھی ہیں اور الارمنگ بھی‘ یہ صورت حال اگر مزید دو تین ماہ جاری رہی‘ حفیظ شیخ بھی حالات کو نہ سنبھال سکے ‘ حکومت نے اگر احتساب کا عمل ایک آدھ سال کے لیے معطل نہ کیا اور بیورو کریسی‘ تاجروں اور صنعت کاروں کی پکڑ دھکڑ بند نہ ہوئی تو یہ سارا سسٹم بیٹھ جائے گا‘ ہماری معیشت روپے سے ڈالر میں شفٹ ہو جائے گی‘ لوگ انڈے بھی ڈالر دے کر خریدیں گے اور اگر یہ موقع آ گیا تو ہمارے پاس ملٹری مارشل لاء‘ جوڈیشل مارشل لاء یا پھر نیشنل گورنمنٹ کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچے گا‘ میرا ذاتی خیال ہے ہم بڑی تیزی سے قومی حکومت کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں چند ماہ میں قومی حکومت بنانے پر مجبور ہو جائیں گی‘ پاکستان پیپلز پارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ ن‘ پاکستان مسلم لیگ ق‘ ایم کیو ایم‘ جے یو آئی (ایف) اور پاکستان تحریک انصاف ایک مشترکہ حکومت بنائیں گی اور عدلیہ مارشل لاء کے خوف سے یہ حکومت قبول کر لے گی ‘ قومی حکومت سب سے پہلے نیب کو ختم کرے گی۔
پھر معیشت بحال کرے گی اور پھر یہ دس سال کے لیے تمام سفارتی‘ سیاسی اور جغرافیائی ایشوز کو منجمد کر دے گی‘وہ حکومت سیاسی لیڈر شپ‘ افواج پاکستان‘ عدلیہ اور سینئر بیورو کریٹس پر مشتمل ایک سپر باڈی بھی بنائے گی‘ وہ باڈی جن منصوبوں اور اصلاحات کی منظوری دے دے گی وہ بعد ازاں کسی فورم پر چیلنج نہیں کیے جا سکیں گے‘ وہ باڈی ملک کے اگلے 25 سال کا روڈ میپ تیار کرے گی اور وہ روڈ میپ ’’میثاق پاکستان‘‘ کہلائے گا لیکن یہ آنے والے دنوں کی باتیں ہیں‘ میں اگر آج اپنے تجربے کی بنیاد پر تجزیہ کروں تو مجھے محسوس ہوتا ہے قوم اب اسد عمر جیسی خبروں کی تیاری کر لے‘ عمران خان کا ٹریک ریکارڈ اچھا ہے۔
یہ گیو اپ (ہمت نہیں ہارتے) نہیں کرتے‘ یہ اگر کسی چیز‘ کسی ٹارگٹ کے پیچھے لگ جائیں تو یہ پھر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے لیکن مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ عمران خان کے چہرے پر اضطراب دکھائی دے رہا ہے‘ مجھے محسوس ہوتا ہے یہ بے دل ہوتے چلے جا رہے ہیں چنانچہ خطرہ ہے یہ کہیں ناکام ہونے کے ڈر سے حکومت نہ چھوڑ دیں‘ یہ لمبی چوڑی تقریر کریں‘ مافیاز کا ذکر کریں اور یہ اعلان کریں ’’ان درندوں کی موجودگی میں کوئی اچھا لیڈر کام نہیں کر سکتا‘‘ اور یہ ملک چھوڑ کر چلے جائیں‘ مجھے شاہ محمود قریشی کی باڈی لینگویج بھی اچھی نہیں لگ رہی‘ میرا خدشہ ہے یہ بھی کسی وقت اسد عمر کی طرح لمبی چھٹی لے سکتے ہیں‘ یہ ملتان بیٹھ جائیں گے یا پھر ملک سے باہر چلے جائیں گے۔
غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں‘ وہ کیا کرتا ہے ہم نہیں جانتے لیکن یہ طے ہے پاکستان کے ہنگامہ خیز دن شروع ہو چکے ہیں‘ یہ دن کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلا کر رہیں گے‘ قومی حکومت بنتی ہے یا پھرعمران خان پورے سسٹم کو ٹھڈا مار کر نکل جاتے ہیں‘ اللہ بہتر جانتا ہے تاہم یہ نوشتہ دیوار ہے یہ سسٹم اب اس شکل میں نہیں چل سکے گا‘ چادروں والے عہدوں پر جلوہ افروز ہیں ‘ کسان بادشاہ کی طرح ان کا اس ملک میں کوئی اسٹیک نہیں‘ یہ جانتے ہیں یہ ’’ون ٹائم‘‘ اقتدار میں آئے ہیں‘ قدرت انھیں بار بار موقع نہیں دے گی‘ یہ لوگ یہ بھی جانتے ہیں یہ ملک کو نہیں چلا پا رہے۔
ملک چلانا ان کے تصور سے بھی مشکل کام ہے اور یہ لوگ یہ بھی جان چکے ہیں باتیں کرنا‘ الزام لگانا اور دعوے کرنا ایک کام ہوتا ہے اور ان دعوؤں پر عمل کرنا‘ الزام کو ثابت کرنا اور بات پر پورا اترنا دوسرا کام اور یہ کام بہرحال ان کے بس کی بات نہیں چنانچہ اگر تھوڑا سا مزید دباؤ آ گیا تو چادروں والے یہ لوگ اپنی اپنی چادر کندھے پر ڈال کر نکل جائیں گے اور قوم ان کو اسی طرح تلاش کرتی رہ جائے گی جس طرح یہ پانچ دن سے اسد عمر اور عامر کیانی کو تلاش کر رہی ہے۔