خبر بہت اچھی ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ سچی بھی ہے یا نہیں اور اگر سچی بھی ہے تو کس حد تک سچی ہے۔ خبر یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر وزیروں اور بیوروکریٹس کی کارکردگی اور’’ کرتوت‘‘ کی مانیٹرنگ کرنے اور پھر اس کی بنیاد پر رپورٹس تیار کرکے اعلیٰ حکومتی حکام کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میرا فوری رد عمل صرف اتنا ہے کہ اگر یہ کام عبادت سمجھ کر ذمہ داری اور دیانتداری کے ساتھ سرانجام دیا گیا تو بے شمار بگڑے کام سنور سکتے ہیں لیکن اگر چور اور چوکیدار نے آپس میں مل جل کر رہنے اور ’’ورکنگ ریلیشن شپ‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا تو پھر اللہ ای جانے کون بشر ہے۔
خبر کا دوسرا حصہ بتاتا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹس کا ایک حصہ وزرائے اعلیٰ، چیف سیکرٹریز اور آئی جیز سے متعلق ہوگا۔ رپورٹس کو بری، اچھی اور بہترین کی گریڈنگ کے ساتھ تقسیم اور ٹیگ کیا جائے گا۔ گزشتہ کالم میں بھی یہی رونا رویا گیا تھا کہ ’’کرپشن‘‘ اور ’’کارکردگی‘‘ ہمارے بنیادی مسائل ہیں۔ سول انٹیلی جنس ایجنسی یا ایجنسیوں کا یہ’’ تخلیقی‘‘ استعمال کرپشن میں خاطر خواہ کمی اور کارکردگی میں اضافہ کا باعث بن سکتا ہے۔بیوروکریسی کی تو اپنی دنیا ہے جس سے عوام واقف نہیں لیکن سیاست دان تو سامنے کی بات ہیں جو سیاستدان کم اور سیاسی مہم جو زیادہ ہیں۔
سٹوڈنٹ لیڈری کی آڑ میں ویگنوں سے بھتےلے کر یا قبضہ گروپس تشکیل دے کر سیاست میں فخریہ مقام حاصل کرنے والوں سے عوام بخوبی واقف ہیں کہ ان کی سیاست ’’سیاست بذریعہ دولت، دولت بذریعہ سیاست‘‘ اور ’’سیاست بذریعہ طاقت اور طاقت بذریعہ سیاست‘‘ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں جبکہ ماضی کے سیاستدان نااہل اور سازشی ہونے کے باوجود مالی طور پر کرپٹ نہیں بلکہ ’’گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ کے عادی تھے لیکن پھر چند ایسے خاندان پاکستان کی سیاست میں داخل ہوئے جن کا کوئی سیاسی آگا پیچھا تھا نہ دین ایمان۔
ان لوگوں نے سیاست اور نجاست کی ایسی کاک ٹیل متعارف کرائی جو مکمل طور پر ضائع بھی کر دی جائے تو ایک عرصہ تک اس کا ہینگ اوور ہی ختم نہ ہوگا۔ ان لوگوں نے مالی اور اخلاقی حوالوں سے پورے کلچر کو کنگال اور دیوالیہ کر دیا۔ ان ٹی ٹی کپوروں اور جعلی اکاؤنٹس ایکسپرٹس نے ملکی وسائل کو تو شیر مادر کی طرح جیسے پیا سو پیا، ساٹھ ساٹھ سال کے پٹواری ہی نہیں جرائم پیشہ لوگوں کو پولیس جیسے محکمہ میں بھی پوری بے حیائی کے ساتھ بھرتی کیا۔ صوابدیدی اختیارات کا باقاعدہ موجد یہ بھیانک مافیا ’’رولز‘‘ کو ’’ریلیکس‘‘ کرنے کا بھی عادی تھا۔
لگاتار اقتدار نے بدی کے اس شجر کی شاخوں کو ہی گھنا نہیں، جڑوں کو بھی اتنا مضبوط اور گہرا کردیا کہ قدم قدم پر ان کے بینی فشریز ، پروردہ مالشیوں اور ذاتی ملازموں کے جتھے موجود ہیں جو آج بھی ہر طرح کا رسک لے کر اس امید پر ان کے مفادات کا تحفظ کررہے ہیں کہ آقاواپس آ کر انہیں خلعتوں سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ان کے جبڑے موتیوں سے بھر بھر کر اگلی پچھلی ساری کسریں نکال دیں گے کہ یہی ان کی ’’تاریخ‘‘ بھی ہے کہ بڑے سے بڑے بحران میں بھی سروائیو کر جاتے ہیں کہ ان کے پاس NROپیراشوٹس اور لائف جیکٹس کی کمی نہیں اور پھر سروائیو کر جانے کے بعد ذاتی خدمت گاروں کو بخشیش عطا کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیتے۔عمران خان نے سو فیصد درست کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کے ساتھ وہ کچھ کیا جو کوئی دشمن بھی نہ کرے۔ اسی بات کو میں مدتوں سے یوں بیان کرتا رہا کہ اس طرح تو تاتاریوں نے بغداد کو بھی برباد نہ کیا جیسے ان ’’فاتحین‘‘ نے اپنی اس مفتوحہ سرزمین اور اس کی آبادی کے ساتھ کیا۔
’’فاتح‘‘ خاندانی ہو تو مفتوحہ زمینوں کی لوٹ مار میں ایک خاص حد سے تجاوز نہیں کرتا جیسے انگریز نے برصغیر نا می سونے کی چڑیا کے انڈے تو ضرور کھائے، پوری چڑیا روسٹ نہیں کی بلکہ ریلوے سے لے کر محیرالعقول نہری نظام تک بے شمار تحفے بھی دے گیا لیکن یہاں کا تو ہر سیاسی مافیا مال اور آل سمیت سب کچھ ہی باہر لے گیا۔ ان کے یہی رویے نچلی ترین سطح تک سرایت کر گئے کہ بادشاہ باغ سے چند پھل توڑتا ہے تو اس کے کارندے پورا باغ اجاڑ دیتے ہیں سو باغ اجڑگیا۔پاکستان کی باوقار بقا اور استحکام کے لیے انہیں نشان عبرت بنائے بغیر تو ’’بحالی‘‘ کا سفر، بیماری کا علاج تقریبا ًناممکن ہے لیکن یہ سفر ذرا طویل ہے اور تکلیف دہ بھی۔ تب تک اس قسم کے اقدامات سفر کی طوالت اور تکلیف کو خاصی حد تک کم ضرور کر سکتے ہیں۔
میں نہیں جانتا کہ یہ اچھی خبر کس حد تک سچی ہے کہ کوئی سول انٹیلی جنس ایجنسی وزراء اور بیوروکریسی کی کارکردگی اور کرتوتوں کی مانیٹرنگ کرکے اعلیٰ حکومتی حکام کو باخبر رکھے گی لیکن اگر یہ اچھی خبر سچی بھی ہے تو ستے خیراں کہ یہ فیصلہ انتہائی درست سمت میں ایک انتہائی فیصلہ کن قدم ہوگا بشرطیکہ اس کے کرتوں دھرتوں کے انتخاب میں حد درجہ احتیاط سے کام لیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مانیٹرنگ کرنے والے خود کرپشن سے پاک اور بہترین کارکردگی کے سمبلز ہوں۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی بہت کمی اور قلت ہے لیکن قحط نہیں، ہر شعبہ اور محکمہ میں ایسے سر پھرے موجود ہیں جن کے دلوں میں خدا کا خوف اور اس مٹی سے محبت بدرجہ اتم موجود ہے۔