میرا تعلق بھارتی پنجاب کے لدھیانہ سے ہے. مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے بڑے وہاں کب آئے اور بس گئے، اتنا پتہ ہے کہ ہم جب ٹوٹے تو اپنا سب کچھ بھلا کر پاکستانی پنجاب کے گجرات اور لاہور میں آ بسے. میں شائید اسی لیئے پنجاب کی مٹی کی خوشبو سونگھنے پنجاب کی طرف کھچا چلا آتا ہوں، میرے پاس اس سوال کا جواب بھی نہیں ہے، ہاں مجھے اپنا آپ ایک مرجھائے ہوئے پھول کی طرح محسوس ہوتا ہے، مجھے میرے باغ میں لگے سب پھول بھی بے رنگے سے معلوم ہوتے ہیں، ایسے جیسے کسی نے ان کے گلے دبوچ لیئے ہوں اور ان کے چہروں کی سرخی پیلاہٹ میں بدل گئی ہو اور پھول پھول نا رہے ہوں.
پھولوں میں وہ وہشت شائید بہت پرانی ہو، مگر غم سے بھری یہ داستان کہیں جا کر تو خوشیوں سے ملتی ہوگی، وہ رنگ برنگا پنجاب، وہ بات بات پے جشن، روز ہی کسی کا ویاہ یا کسی کے ہاں اولاد کی خوشی، کوئی مر جاوے تو پنجاب کےکئی سو گاوں میں مرگ، وہ ہولی، بیساکھی، بسنت، کیسے کیسے بہانے ہوا کرتے تھے، بہانے خوش رہنے کے. لوہڑی کے جشن میں دُلے کے گیت پر گبرووں اور مٹیاروں کے ناچ، اک دوجے سے کھل کر اظہار محبت کرنا، وہ راکھی کی خوشیاں، خیر میں بھی کیا لے بیٹھا ہوں. ان باتوں کا اب ان مرجھائے چہروں سے کیا لینا. ڈیوڈ بروک بھی پاگل ہے کہ جو اس دنیا میں رہ کر ایسے دیوانے خواب دیکھتا ہے. دیوانہ کہتا تھا کہ ایسی رسمیں ہونی چاہیئں جن سے ہم اکٹھے رہ سکیں.
دیوانہ بروک ایک ایسے دماغی کھیل کو افشاں کرتا ہے جو اس کے دماغ میں چل رہا ہوتا ہے. ایسا کھیل کہ جس میں بات بات اور قدم قدم کو خوشیوں بھرے تہواروں میں دیکھتا ہے. پاگل ہے جو کہتا ہے کہ کسی سنگین جرم کرنے والے انسان کی سزا ختم ہونے پر باہر کی کمیونٹی کو اسے گلے لگاکر خوش آمدید کہنا چاہیئے. ڈیوڈ بروک کا یہ کالم نیویارک ٹائمز میں ایک ایسے وقت میں چھپا جب دو ہی دن پہلے سری لنکا میں ایسٹر کے تہوار میں ہولی کھیلی گئی، رنگوں کی نہیں، خون کی. شائید یہ وہی وہشت ہے جس سے آج کی دنیا کے پھول مرجھائے ہوئے ہیں، جیسے وہ کبھی کھلنا چاہتے ہی نا ہوں.. کھلنے لگیں تو مسل دیئے جائیں، داعش نے ایسٹر مناتے لوگوں کو شہید کرنے کی ذمہ داری اعلاناً قبول کرلی.
(وہ تو یہ خواب بھی دیکھتا ہے کہ جنگ سے لوٹے فوجیوں کو گلے لگانے کا بھی ایک تہوار ترتیب دیا جانا چاہیئے جس کے ذریعے ان کی خدمات پر زبردست خراج تحسین پیش کیا جاسکے، ان کو احساس ہو کہ ان کا معاشرے میں ایک خاص مقام ہے. مجھے تو ڈیوڈ کی یہ بات اس کے پورے آئیڈیا سے متصادم لگتی ہے، بہرحال میں اس خیال کو بھی اچھا جاننے کی بھرپور کوشش میں جتا ہوا ہوں)
بروک کی گستاخی تو دیکھو کہ کہتا ہے کہ معاشروں کو اکٹھا رکھنے کا ایک ایسا شہری معاعدہ ہونا چاہیئے جس کا اقرار اور اظہار ایک ہی تہوار میں ہو، پیار محبت اور اکٹھے رہنے کے وعدے سے منسلک ایک ایسی نشانی رکھی جاوے جو ہر رنگ نسل مذہب کے انسان کے لیئے مقدم ہو. جس میں پسماندہ ہر طبقے کو خوشیوں کا حصہ دار نہیں بلکہ مالک بنایا جائے، کیا ہم انسان یوں بسنے کے کسی معاعدے کی گنجائش رکھتے ہیں؟ شائید نہیں.
مذہبی شدت پسندی کی موجودہ صورت ہمیں ایسا سوچنے بھی نہیں دے سکتی. لیکن نیویارک ٹائمز کا یہ دیوانہ کالمسٹ یہ بھی کہتا ہے کہ سیکولر اور نئے طرز کی زندگیوں میں دراصل تہواروں کی وہ گنجائش نہیں ہے جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ شائید ہے. بروک کہتا ہے کہ تہواروں کی روایت مذہبی معاشروں میں زیادہ مضبوط اور گہری ہے، اس کے مقابلے میں سیکولر معاشروں میں اس کی روایت کمزور اور بے بنیاد سی ہے. میرا بھی یہ خیال ہے کہ بروک ٹھیک کہتا ہے لیکن میرا اس سے ایک سوال بھی ہے. آج کے دور کے موازناتی تجزیے سے ہمیں ایک ہمہ جہت معاعدے کی ضرورت کا جہاں پتہ چلتا ہے، وہیں اس کے مقابل کھڑی طاقتیں جس شناخت کی غلط تشریح ہیں، ان کو ہم کس طرح سے پہچانیں گے.
آسان الفاظ میں کیا سرمایہ داری کے مختلف رائٹ لیفٹ عوامل نے دنیا کا امن خراب کرنے کی جہاں بھرپور کوشش جاری رکھی ہوئی ہے، وہیں مذہبی شدت پسندی کی نئی نئی صورتوں نے بھی تو ہمارا گلا دبوچ رکھا ہے. ہم پیلے پڑے ہوئے ہیں، مرجھائے ہوئے ہیں، شائید قبر پر پڑے ساتویں دن کے وہ پھول جن کو مٹی میں غائب ہونا ہے.
ہمیں کسی ہمہ جہت تہوار منانے کی اجازت نہیں ہے، ایسا سوچنا کفر ہے، لیکن یہاں تو ہم الگ الگ خوشیاں بھی نہیں منا سکتے، نتیجہ یہ کہ ہمیں خوش رہنا ہی نہیں ے، بات ختم. آپ کچھ کہنا چاہ رہے ہیں؟ جی فرمایئے..
(ڈیوڈ بروک کا کالم نیویارک ٹائمز کے 22 اپریل کے جریدے میں لگا تھا.)