بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ایران میں وزیراعظم عمران خان کے کہے گئے کچھ الفاظ پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ عمران خان نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہوتی رہی اور ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی لیکن اب دونوں ممالک کو مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ عمران خان الفاظ کے استعمال میں مزید احتیاط کر لیتے تو بہتر ہوتا لیکن اُنہوں نے جو کہا وہ غلط نہ تھا۔ اُن کے دورۂ ایران سے چند دن قبل بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں مکران کوسٹل ہائی وے پر کراچی سے گوادر جانے والی ایک بس کو روک کر 14مسافروں کو شہید کر دیا گیا، جن میں سے گیارہ کا تعلق سیکورٹی فورسز سے تھا۔
اِس دہشت گردی کا مقصد عمران خان کے دورہ ایران کو سبوتاژ کرنا تھا اور پاکستان کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ اورماڑہ میں دہشت گردی کرنے والوں کے ٹھکانے ایران میں ہیں، عمران خان کے الفاظ کو اِسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ داخلی محاذ پر بہت سی غلطیوں کے باوجود عمران خان سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ اُنہوں نے ایران کا دورہ ایسے وقت میں کیا جب اُن کے ناقدین یہ دعوے کررہے تھے کہ اُنہوں نے امریکہ اور آئی ایم ایف کے منظورِ نظر حفیظ شیخ کو وزارت خزانہ سونپ دی، جب میں نے عمران خان کی علی زیدی کے ہمراہ مشہد میں امام رضا کے مزار پر نوافل ادا کرنے کی تصویر دیکھی تو مجھے حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کی پیشن گوئیاں یاد آگئیں جو ایران کے صوبے کرمان میں ماہان کے مقام پر دفن ہیں۔
شاہ نعمت اللہ ولی ؒنے سینکڑوں سال قبل اپنے فارسی کلام میں نہ صرف ہندوستان پر تین سو سال تک مغلوں کی حکومت، ایک سو سال تک انگریزوں کی حکومت بلکہ ہندوستان کی تقسیم کی پیش گوئی بھی کی تھی۔ اِس صوفی بزرگ کے فارسی کلام میں بابر کی پیدائش سے پہلے بابر کا نام لے کر ہندوستان پر اُس کی حکومت اور پنجاب میں نانک نام کے ایک فقیر کی آمد کی خبر بھی دی گئی۔ حضرت شاہ نعمت اللہ ولیؒ نے یہ باتیں تیمور لنگ کے زمانے میں لکھیں اور بتایا کہ سو سال بعد انگریز ہندوستان سے چلے جائیں گے لیکن اپنے پیچھے کچھ جان لیوا جھگڑے چھوڑ جائیں گے۔
ہندوستان دو حصوں میں بٹ جائے گا، بہت خون خرابہ ہوگا اور مسلمان اپنے اسلاف کے علاقے میں پناہ لیں گے۔ مورخین کے خیال میں اسلاف کا علاقہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان تھا۔ اِس صوفی نے لکھا کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہاں بےتاج لوگ بادشاہی کریں گے، رشوت عام ہو گی، جھوٹ اور ریاکاری بڑھ جائے گی اور گمراہ مفتیان کرام غلط فتوے دیا کریں گے۔ پھر ایک بڑی جنگ ہو گی، چترال، نانگا پربت اور گلگت کا علاقہ تبت تک میدان جنگ بنے گا۔
یکجا شوند عثمان ہم چینیاں و ایران
فتح کنند انیاں کل ہند نمازیانہ
ترکی، چین اور ایران یکجا ہو جائیں گے اور ہندوستان پر فتح پائیں گے اور مسلمان فاتح ہونگے۔ صوفی کے کلام میں اہلِ کشمیر کے لئے بھی نصرت کی نوید ہے لیکن یہ سب اُس وقت ہوگا جب عثمانی یعنی سنی اور ایران یعنی شیعہ متحد ہوں گے۔ دشمن جانتے ہیں کہ شیعہ اور سنی کا اتحاد اُن کی شکست ہے، اِسی لئے کل بھوشن یادیو کو ایران کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ آج اہلِ پاکستان کو اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کے لئے صرف یہ دیکھنا چاہئے کہ کون شیعہ سنی اتحاد کا حامی ہے اور کون مخالف، جو مخالف ہے وہ پاکستان کا دوست نہیں ہو سکتا۔ آج عمران خان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے جن کے مقابلے کے لئے وہ حفیظ شیخ کو لائے ہیں لیکن حفیظ شیخ کے کچھ پرانے ساتھی تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔
حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔ اُن کے ایک پرانے ساتھی اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر کو میرے اِن الفاظ پر شدید اعتراض ہے کہ حفیظ شیخ کبھی پیپلز پارٹی میں شامل تھے۔ اُنہوں نے مجھے لکھا ہے کہ ’’حفیظ شیخ کبھی پیپلز پارٹی میں نہیں تھے، وہ تو آئی ایم ایف پیکیج کا حصہ تھا، ہم نے اُنہیں مشیر برائے خزانہ بنایا تو واشنگٹن کا اصرار تھا کہ اُنہیں فل منسٹر بنائو، لہٰذا ہم نے اُنہیں سینیٹر بنایا تاکہ وہ فل منسٹر بن سکیں‘‘۔ تاج حیدر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ آئی ایم ایف کو اٹھارہویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر بڑا اعتراض تھا اور اِسی لئے حفیظ شیخ کے ہم سے راستے جدا ہوئے۔
تاج حیدر صاحب کے ایک اور ساتھی نذیر ڈھوکی نے بھی اپنے کچھ شکوے شکایتیں باقاعدہ ایک خط کی صورت میں مجھے بھیجے ہیں۔ ڈھوکی صاحب کو محترمہ بینظیر بھٹو اسلام آباد لائی تھیں اور وہ عرصہ دراز سے پیپلز پارٹی کے میڈیا سیل سے وابستہ ہیں۔ اُنہوں نے 18اپریل کو ’’اندھیری رات‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والے قلم کمان میں دو باتوں پر اعتراض کیا ہے۔ پہلی یہ کہ پیپلز پارٹی میں کوئی جمہوریت نہیں۔ ڈھوکی صاحب کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں اختلاف رائے کی مکمل آزادی ہے۔ گزارش یہ ہے کہ میں نے صرف پیپلز پارٹی کا نہیں تین بڑی جماعتوں کا ذکر کیا تھا اور جمہوریت کا مطلب صرف اختلاف رائے کی آزادی نہیں بلکہ پارٹی کے اندر الیکشن کرانا بھی جمہوریت کا تقاضا ہے۔
میرا خیال ہے کہ تینوں بڑی جماعتوں میں کوئی باقاعدہ الیکشن نہیں ہوتا اور اکثر عہدوں پر نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ ڈھوکی صاحب کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آپ نے لکھا کہ عدلیہ کو مشرف، نواز شریف اور آصف زرداری فتح نہ کر سکے تو عمران خان بھی فتح نہ کر سکیں گے۔ وہ کہتے ہیں زرداری صاحب نے کبھی عدلیہ کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ڈھوکی صاحب کی رائے کا مجھے احترام ہے لیکن میری ناقص رائے میں 2009میں صدر آصف علی زرداری نے پنجاب میں دو ماہ کے لئے گورنر راج نافذ کیا تو اُس کے پیچھے عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی تھی۔
اُس وقت کی اپوزیشن معزول ججوں کی بحالی چاہتی تھی لیکن زرداری صاحب کہتے تھے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری پر اعتبار نہ کرو، وہ سیاست کرے گا۔ معزول ججوں کی بحالی کے لئے نواز شریف کو لانگ مارچ کرنا پڑا اور بحالی کے بعد اُن ججوں نے زرداری صاحب کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل کردیا۔ نااہلی کی وجہ کیا تھی؟ گیلانی صاحب عدلیہ کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کر رہے تھے اور وزیر قانون بابر اعوان انکار کی تائید کررہے تھے۔ بابر اعوان کو بھی عدلیہ نے ایک نوٹس دیا تھا جس پر اُنہوں نے کہا تھا ’’نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا‘‘ (نوٹس ملا لیکن کچھ نہ بگڑا)، آج بابر اعوان صاحب عمران خان کے مشیر ہیں۔ تحریک انصاف سپریم کورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کررہی ہے اور میں عمران خان سے وہی گزارش کر رہا ہوں جو زرداری صاحب اور نواز شریف سے کرتا تھا۔ عدلیہ کو فتح کرنے کی کوشش نہ کریں، آخری فتح آئین وقانون کی ہوگی۔